آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

عدنان عمر

محفلین
اگر آپ اس کو مختلف رنگ دے کر جان چھڑانے کی کوشش کریں گے تو سمجھ ہم کو بھی آ جائے گی
مختلف رنگ؟؟
شاید آپ نے اس موضوع سے متعلق میرا پہلا مراسلہ غور سے نہیں پڑھا۔
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے قرآنی آیات پڑھ کر دم کردہ پانی کو حاملہ کی ناف کے نیچے کے حصے پر چھڑکنے کی اجازت دی ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے حاملہ کو تعویذ باندھنے کا کہا ہے۔
Screenshot-20200404-215256.png

علم کے بحرِ بے کنار کہلانے والی ان ہستیوں اور دیگر اسلافِ امت کو کیا پتہ تھا کہ کئی سو سال بعد ایک ایسا دیدہ ور پیدا ہو گا جو محدث فورم وغیرہ سے کم علمی یا غلط فہمی پر مبنی اعتراضات کاپی کرے گا اور اردو محفل میں پیسٹ کرے گا۔
اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے، آمین۔
 

محمد سعد

محفلین
پہلے آپ معترضین سے پوچھ تو لیں کہ انھیں تعویذ یا دم کی شرعی حیثیت پر کوئی اعتراض تو نہیں؟
جب آپ سے کوئی ناپسندیدہ سوال پوچھا جاتا ہے تب آپ کو یہ یاد آ جاتا ہے کہ پہلے فلاں فلاں سوال کا جواب دیا جائے تب آپ اس ناپسندیدہ سوال کا جواب دیں گے؟ اچھا طریقہ ہے جی۔ سو فیصد دیانت داری پر مبنی۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے کہ آیا آپ کی رائے میں تعویذ یا دم کے زیر بحث طریقوں سے کسی قسم کی بے حرمتی ہوتی ہے یا نہیں، کسی اور اضافی سوال کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی تعویذ کو مانتا ہے یا نہیں، کیونکہ زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ آیا اس سے کسی قسم کا شعائر دین کا مذاق اڑ رہا ہے یا کسی قسم کی بے ادبی ہو رہی ہے یا نہیں۔ اگر آپ ٹرک کی بتیاں بیچ میں لانے کے بجائے دیانت داری کے ساتھ گفتگو کریں تو بہت نوازش ہو گی۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
جب آپ سے کوئی ناپسندیدہ سوال پوچھا جاتا ہے تب آپ کو یہ یاد آ جاتا ہے کہ پہلے فلاں فلاں سوال کا جواب دیا جائے تب آپ اس ناپسندیدہ سوال کا جواب دیں گے؟ اچھا طریقہ ہے جی۔ سو فیصد دیانت داری پر مبنی۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے کہ آیا آپ کی رائے میں تعویذ یا دم کے زیر بحث طریقوں سے کسی قسم کی بے حرمتی ہوتی ہے یا نہیں، کسی اور اضافی سوال کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی تعویذ کو مانتا ہے یا نہیں، کیونکہ زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ آیا اس سے کسی قسم کا شعائر دین کا مذاق اڑ رہا ہے یا کسی قسم کی بے ادبی ہو رہی ہے یا نہیں۔ اگر آپ ٹرک کی بتیاں بیچ میں لانے کے بجائے دیانت داری کے ساتھ گفتگو کریں تو بہت نوازش ہو گی۔
ٹھیک ہے۔ ملاحظہ ہو اس اعتراض کا براہِ راست جواب جو علمائے کرام نے دیا ہے۔

قرآنی آیت سے لکھا ہوا تعویذ ران پر باندھنا

سوال

کیا ران پر قرآنی آیت سے لکھے ہوئے تعویذ کو باندھنا جائز ہے، جیسا کہ اس طرح کا ایک تعویذ سہولتِ ولادت کے لیے اعمالِ قرآنی میں درج ہے؟

جواب
تعویذ میں لکھی آیات جب چمڑ ے میں اچھی طرح بند ہوں یا اچھی طرح کسی چیز میں چھپی ہوئی ہوں تو شدید ضرورت کے وقت اسے ران پر باندھنے کی اجازت ہوگی، تاہم ضرورت پوری ہوتے ہی فوراً اتار دیا جائے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144012200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

دوسرا جواب:

Screenshot-20200405-132549.png

Screenshot-20200405-132552.png

(باقی اگلے مراسلے میں)
 

عدنان عمر

محفلین
اگلا جواب ایک اور حدیثِ نبوی سے۔ یہ حدیث شیخ ابو بکر احمد بن محمد الدنیوری المعروف بہ ابن السنی رحمہ اللّٰہ کی کتاب "عمل الیوم و اللیلۃ" میں درج ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "رسول اللہﷺ کے دن اور رات‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب محدث لائبریری (کتاب و سنت ڈاٹ کام) میں موجود ہے۔ وہی محدث لائبریری اور وہی محدث فورم جہاں سے منتخب فرقہ وارانہ مواد اردو محفل میں کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔
Screenshot-20200405-140614.png

Screenshot-20200405-142053.png


امید ہے کہ اتنے جوابات کافی و شافی ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
دین میں "مجھے درست معلوم نہیں ہوتا" یا "آپ کے نزدیک کیا درست ہے" نہیں چلتا۔
خدا کے بندے، پہلے اس میرا تیرا سے تو باہر آئیے پھر سوال پوچھیے گا۔
اور آپ ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ کے تحقیق سے کیسے انکار کر رہے ہیں؟ آپ کا کہنا ہے کہ آپ اہلِ حدیث ہیں۔ جہاں سے آپ اعتراض نقل کرتے ہیں وہ بھی اہلِ حدیث ہیں۔
اگر آپ نہیں جانتے تو کسی اہلِ علم سے ہی پوچھ لیجیے کہ عالمِ اسلام میں بالعموم اور اہلِ حدیث مکتبۂ فکر میں بالخصوص ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ کا کیا مقام ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ اپنی ذاتی رائے کو ان اسلافِ امت کے علم پر فوقیت دے رہے ہیں جن کے سامنے میرے اور آپ کے علم کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔
اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اسلافِ امت کے علم پر آپ کی ذاتی رائے کو فوقیت دوں گا تو یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
کیا آپ کا علمی مرتبہ اتنا بلند ہے کہ آپ مستند دینی حوالوں سے ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ اور دیگر اکابرینِ امت کے فہمِ دین کو غلط ثابت کر سکیں؟ میدان حاضر ہے، کوشش کیجیے۔
اور ہاں، جذباتیت سے ہٹ کر علمی استدلال اپنانے کی کوشش کریں گے تو آپ کی بات زیادہ توجہ سے سنی جائے گی۔

بھائی صاحب میں امام ابنِ تیمیہ کے مقام سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ آپ نے جو نظریہ وحدت الوجود پر اعتراضات کا جواب دیا تھا اس کے جواب میں میرے مراسلے ملاحظہ فرمائے ہوتے تو آپ یہ بات ہرگز اپنی طرف سے میرے لئے منسوب نہ کرتے کہ میں ان کے مقام اور تحقیقات سے واقف نہیں ہوں۔ میں نے سب سے پہلے امام ابنِ تیمیہ کی مشہور و معروف کتاب " الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان" میں سے تحقیق ہی پیش کی تھی۔ مزید ان کے فتاویٰ سے بھی استفادہ حاصل کیا تھا۔ امام ابنِ تیمیہ ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے تصوف میں پائے جانے والے باطل عقائد پر نہ صرف تحقیق کی بلکہ ان گمراہ کن عقائد کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔

جہاں تک میرے مراسلوں کو صرف کاپی پیسٹ تک محدود کرنا ہے تو میں آپ کو دعوت دوں گا کہ میرے اشرف علی تھانوی صاحب کے وحدت الوجود کے مضمون کے جواب میں مراسلوں کو پڑھئے۔ اگر آپ کو پھر بھی میرے مراسلے صرف کاپی پیسٹ نظر آئیں تو حیرت ہوگی کیونکہ میں نے اپنے مطالعے میں موجود کتب سے حوالہ جات شامل کئے ہیں۔ میں چاہتا تو بغیر حوالہ جات کے بھی جواب تحریر کرسکتا تھا لیکن کچھ وقت اسی لئے لگا کیونکہ میں نے مذکورہ کتب کو پھر سے پڑھا اور پھر جواب تحریر کیا۔

اب آتے ہیں میرے امام ابنِ تیمیہ کے فتوے پر اعتراض کی جانب۔ اہلِ حدیث سے اگر آپ کی کبھی بات چیت رہی ہوتی تو آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اہلِ حدیث کے علماء اگر اپنی تحقیق میں قرآن اور سنت سے استدلال اور دلائل نہ لا سکیں تو ان سے بھی سوال کیا جاتا ہے۔ نہ صرف عام مسلمانوں کا سوال کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ ساتھی علماء اکرام بھی ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے نہیں کتراتے ہیں۔ اس کی میں متعدد مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔ ایک سب سے بڑی مثال اہل حدیث علماء کی چند اہلِ حدیث علماء کے تصوف کے عقائد کو درست ماننے پر تنقید شامل ہے۔

یہاں میں حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں مشرکانہ عقائد از ڈاکٹر شفیق الرحمن حفظہ اللہ سے ایک اقتابس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا:

اکثر بریلوی اور دیوبندی علماء اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے بعض اہلحدیث علماء کی تحریروں سے دلیل پکڑتے ہیں اور وہ ثابت کرتے ہیں کہ چونکہ یہ اہلحدیث علماء بھی انہی عقائد کا اظہار کرتے ہیں تو یہی صحیح نظریات ہیں اس لیے اس غلط فہمی کا تفصیلی جواب ضروری ہے۔
۱۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے اسی لیے حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

{اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ} (الأعراف:۳)
"لوگو تمہارے رب کی طرف سے جو نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی نہ کرو۔"

اللہ تعالیٰ نے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے ساتھ مخصوص فرما کے آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اور ارشاد فرمایا:
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} (المائدۃ: ۵/۳)
"(اے مسلمانوں) آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا ہے، اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کیا۔"

یہ آیت ۹ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کو میدان عرفات میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور امت کو وصیت فرما گئے: "میں تمہارے اندر ایسی دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو گے یعنی اللہ کی کتاب اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔" (بیھقی، موطا امام مالک)

اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخصیت ہیں جو دینی امور میں اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے جو بات بھی کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتی ہے۔
{وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾} (النجم)
"اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے جو کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے۔"
اسی لیے فرمایا:
{مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّ۔هَ} (النساء:۸۰)
"جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"

یہی وجہ ہے کہ دینی امور میں فیصلہ کن حیثیت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے:
{فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّ۔هِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} (النساء:۵۹)
"پس اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔"
معلوم ہوا اسلام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کو اسلام کی تعلیم دی۔ یعنی صحابہ کرام آپ کے "براہ راست" تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا صحابہ معیاری مسلمان تھے۔ صحابہ کرام سے "اقوال و افعالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم" تابعین نے اخذ کیے اور محدثین نے ان کو جمع کیا۔ یہ تمام ادوار اسلام کے عروج کے ادوار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہترین زمانے قرار دیئے۔ سلف صالحین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق اور منہج سے وہی شخص انکار کرتا ہے جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ صحابہ، تابعین، ائمہ دین اور ائمہ حدیث اسی راہ پر چلے۔ اور اس راہ پر چلنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ پر چلنے والے شرک و بدعت اور اس کے مظاہر اور رسوم پر نکیر کرتے رہے ہیں۔ عقیدہ کی اصلاح کرتے ہیں اور شرک و بدعت کے تاریک غار سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؛ لہٰذا قرآن و سنت اور سلف صالحین کے راستے کے الٹ شرک و بدعات پر مشتمل نظریات ہم قبول نہیں کر سکتے چاہے وہ کسی بھی عالم نے بیان کیے ہوں۔ وہ عالم نہ معصوم ہے اور نہ ہمارے لیے حجت ہے۔

پاک و ہند میں جن لوگوں نے اصلاح کا کام کیا اور اس ماحول میں حدیث کی اہمیت اور تقلید کے رد پر محنت کی بدقسمتی سے وہ لوگ تصوف کے فتنے کو نہ سمجھ سکے اور تصوف کا اثر ان میں موجود رہا۔ اس بات کا اظہار استاد محترم پروفیسر حافظ محمد عبد اللہ خطیب جامع مسجد اہلحدیث بہاولپور نے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا:

"شاید ہی ہندوستان میں کوئی عالم ایسا ہو کیا اہلحدیث کیا دیوبندی اور کیا بریلوی! جن علماء کو اس تصوف کی تاثیر نہ لگی ہو۔ تھوڑا بہت اس تصوف کا رنگ ضرور ہوتا ہے۔ حالانکہ تصوف اس قدر خطرناک چیز ہے جنتا نقصان اسلام کو ان صوفیوں سے پہنچا ہے۔ اس تصوف کے چکر میں جتنے مسلمان برباد ہوئے ہیں۔ جتنا اسلام کے اندر اس کے ذریعے پلیدی شامل ہوئی اتنا کسی چیز نے بھی اسلام کو برباد نہیں کیا۔۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی جنہوں نے حدیث کی بہت خدمت کی۔ صوفیوں کے بنیادی عقیدے وحدۃ الوجود کا شکار ہیں۔ یہ ہمہ اوست کا عقیدہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ یہ وحدۃ الوجود خالصتاً کفر کا عقیدہ ہے ایسا گندہ عقیدہ ہے جس کی انتہا نہیں جن علماء نے تھوڑا سا سوچا اور انہیں ہمہ اوست کا عقیدہ کفر نظر آیا انھوں نے تھوڑی سی ترمیم کی۔ کیوں کہ یہ بڑے بڑے بزرگوں کا عقیدہ تھا۔ انھوں نے اسے وحدہ الشہود میں تبدیل کر دیا۔ ہمہ اوست نہیں ہمہ از اوست۔ وحدۃ الوجود کا انکار نہیں کرتے کیوں کہ بڑے بڑے لوگوں کا عقیدہ ہے اسکو نرم کرتے ہیں۔ تاکہ اس کی حدت اور شدت کم ہو جائے۔ حالانکہ دونوں نظریات کفر ہی کفر ہیں۔ شاہ اسمعیل دہلوی کی "تقویۃ الایمان" توحید کی بڑی معیاری کتاب ہے۔ لیکن اپنے اس ماحول میں جس میں وہ پلے بڑھے کیوں کہ تصوف کا چکر تھا چنانچہ صراط مسقیم میں وہ وہ کھچیں ماری ہیں کہ پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ کہ کیا یہ شاہ اسماعیل کی کتاب ہے؟ ایسا آدمی کبھی مسلمان ہو سکتا ہے۔ (خطبہ جمعہ)

ڈاکڑ محمد لقمان سلفی کی نظر ثانی سے شائع شدہ ڈاکڑ ابو عدنان سہیل کی کتاب "اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات" میں شاہ ولی اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
"شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب "انفاس العارفین" میں تصوف کی دیگر کتابوں کی طرح ہر طرح کی رطب و یابس باتیں پائی جاتی ہیں جیسے کشف و کرامات، عجیب و غریب واقعات، غیر اللہ کو سجدے، اللہ کا مشاہدہ بلکہ اس سے جسمانی اتصال، قبولیت، عرس، قوالی، ختم خواجگان، جنت کی بشارت، اپنی بات منوانے کے لیے اللہ کے سامنے مچل جانا اور اس سے اپنی بات منوا لینا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو بدلوا ڈالنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجلسوں میں تشریف لانا، اللہ تک پہنچ جانے کے بعد عبادات کی ضرورت باقی نہ رہنا وغیرہ اس طرح کی تمام چیزیں اس کتاب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کتاب میں یہ بات بھی موجود ہے کہ بزرگوں کی قبروں سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ شاہ ولی اللہ صاحب سے نسبت اور تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نظریات تصوف کے قائل ہیں وہ بریلوی مکتب فکر کی بوالعجبیوں اور بزرگوں کی قبروں پر ہونے والے شرک و بدعات کے ہنگاموں پر جو شور و غوغا مچاتے ہیں یا اس کا رونا روتے ہیں، وہ محض دکھاوا اور مگر مچھ کے آنسو ہیں۔" (صفحہ ۲۷۲)

تو اس سے کیا سمجھ آیا؟ پیروی صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکام کی ہے۔ کسی بڑے سے بڑے عالم کا قول حجت نہیں ہو سکتا ہے اگر اسے قرآن اور سنت سے ثابت نہ کیا جاسکے۔ حق تو صرف رب العالمین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
دین میں "مجھے درست معلوم نہیں ہوتا" یا "آپ کے نزدیک کیا درست ہے" نہیں چلتا۔
خدا کے بندے، پہلے اس میرا تیرا سے تو باہر آئیے پھر سوال پوچھیے گا۔
اور آپ ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ کے تحقیق سے کیسے انکار کر رہے ہیں؟ آپ کا کہنا ہے کہ آپ اہلِ حدیث ہیں۔ جہاں سے آپ اعتراض نقل کرتے ہیں وہ بھی اہلِ حدیث ہیں۔
اگر آپ نہیں جانتے تو کسی اہلِ علم سے ہی پوچھ لیجیے کہ عالمِ اسلام میں بالعموم اور اہلِ حدیث مکتبۂ فکر میں بالخصوص ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ کا کیا مقام ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ اپنی ذاتی رائے کو ان اسلافِ امت کے علم پر فوقیت دے رہے ہیں جن کے سامنے میرے اور آپ کے علم کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔
اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اسلافِ امت کے علم پر آپ کی ذاتی رائے کو فوقیت دوں گا تو یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
کیا آپ کا علمی مرتبہ اتنا بلند ہے کہ آپ مستند دینی حوالوں سے ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰہ اور دیگر اکابرینِ امت کے فہمِ دین کو غلط ثابت کر سکیں؟ میدان حاضر ہے، کوشش کیجیے۔
اور ہاں، جذباتیت سے ہٹ کر علمی استدلال اپنانے کی کوشش کریں گے تو آپ کی بات زیادہ توجہ سے سنی جائے گی۔

اب آتے ہیں امام ابنِ تیمیہ کے پانی پر دم کرنے اور چھڑکنے کے فتوے کی جانب۔ میرا اعتراض بے ادبی کے ڈر کی وجہ سے تھا کہ کہیں کم علمی میں کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جس سے قرآن پاک کی بے حرمتی ہونے کا ڈر ہو اس لئے میں نے امام ابنِ تیمیہ کی اس رائے کی تائید نہیں کی۔

پانی دم کرنے سے متعلق احادیث سے استدلال مطالعے میں رہا ہے لیکن دم کیا ہوا پانی چھڑکنے سے متعلق استدلال میرے مطالعے میں نہیں تھا۔ میں نے اس بارے میں تھوڑی تحقیق تو احادیث سے استدلال مجھے مل گیا ہے جو کہ میں یہاں بخوشی پیش کرنا چاہوں گا۔

(1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فِيهِمَا ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ(صحیح بخاری: 5017 )
ترجمہ: نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر آرام کرتے تو ہر شب اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے ان پر ’قل ہو اللہ احد‘ ’قل اعوذ برب الفلق‘ اور ’قل اعوذ برب الناس‘ پڑھ کر دم کرتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیر لیتے۔ پہلے سر، چہرے اور بدن کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے اور ایسا تین مرتبہ کرتے تھے۔
طریقہ استدلال : نبی ﷺ کا دونوں ہاتھوں پر پھونک مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ پانی یا تیل پر بھی پھونک مارسکتے ہیں جیساکہ بدن پر۔ اگر کسی چیز پرپھونک سرے سے ممنوع ہوتی تو ہاتھ پر بھی ممنوع ہوتی۔

(2) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
كنا نَرْقي في الجاهليةِ . فقلنا : يا رسولَ الله ِكيف ترى في ذلك ؟ فقال " اعرِضوا عليَّ رُقاكم . لا بأسَ بالرُّقى ما لم يكن فيه شِركٌ " .(صحيح مسلم:2200)
ترجمہ:ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کو ئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔
طریقہ استدالال : یہ روایت عام ہے ، دم اگر شرکیہ قول سے پاک ہوتو پانی ، تیل اور ہاتھ وجسم سب پر پڑھ کر پھونک مارسکتے ہیں ۔

(3) عن علي - رضي الله عنه - قال : ( لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي فلما فرغ قال :" لعن الله العقرب لا تدع مصليا ولا غيره " ثم دعا بماء وملح وجعل يمسح عليها ويقرأ ب۔ } قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ { ( السلسلة الصحيحة: 548 )
ترجمہ:حضرت علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگادیا,آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے۔ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا۔
٭اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے ۔
طریقہ استدلال : اس روایت سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم کیا ہے ،وہ اس طرح کہ جہاں بچھو نے ڈنک مارا تھا اس جگہ نبی ﷺ نمک آمیز پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ پھونک مار رہے تھے ۔ برتن میں پانی رکھ کر اس پر پھونکنا یا پانی کسی جگہ گراکر اس پر پھونکنا دونوں برابر ہے ۔

(4) عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ علَى ثابتِ بنِ قيسٍ - وَهوَ مريضٌ - فقالَ اكشفِ البأسَ ربَّ النَّاسِ عن ثابتِ بنِ قيسِ بنِ شمَّاسٍ ثمَّ أخذَ ترابًا من بَطحانَ فجعلَهُ في قدَحٍ ثمَّ نفثَ عليهِ بماءٍ وصبَّهُ عليهِ(سنن أبي داود:3885)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے جبکہ وہ مریض تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے لوگوں کے پالنے والے ! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحان کی مٹی لی ,اسے ایک پیالے میں ڈالا پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا ۔
اس کی سند میں ایک راوی محمد بن یوسف ہیں جس کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا گیا حالانکہ ابن حبان نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے اورحافظ ابن حجر ؒنے مقبول کہا ہے نیز اس روایت کو بطور استدلال فتح الباری کتاب الطب ، باب رقیۃالنبی ﷺمیں درج بھی کیا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جید کہا ہے ۔(الفوائد العلمية من الدروس البازية: 2/472)
اس روایت کا ایک شاھد بھی ہے جس سے اسےتقویت ملتی ہے جسے شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
الحمَّى من فيحِ جهنمَ فأبرِدوها بالماءِ فدخل على ابنٍ لعمارٍ فقال اكشِفْ الباسَ ربَّ الناسِ إلهَ الناسِ(صحيح ابن ماجه:2814)
ترجمہ: بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے ( وہ بیمار تھا ) اور یوں دعا فرمائی: «اكشف الباس رب الناس إله الناس» لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود! ( اے اللہ ) تو اس بیماری کو دور فرما ۔
طریقہ استدلال : اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے پانی پر دم کیا پھر وہ دم شدہ پانی وادی بطحان کی مٹی میں ملایا اور مریض پر جھڑک دیا۔

مجھے چونکہ پانی چھڑکنے سے متعلق احادیث کے بارے میں علم نہیں تھا تو میں نے امام ابنِ تیمیہ کی بات ماننے سے تعرض کیا۔ اگر آپ کے پاس قرآنی آیات کو ٹانگ پر باندھنے یا نجاست سے لکھنے کے لئے استدلال موجود ہو تو ضرور پیش کیجئے۔ ہم سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

جہاں تک مجھے سنجیدگی سے لینے کا تعلق ہے وہ تو یہاں شرکاء محفل کی گفتگو سے بخوبی معلوم ہو رہا ہے کہ کون کس کو سنجدگی سے لے رہا ہے اور کون کس کو نہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
غلط فہمی ان کی ہے جنھوں نے نا سمجھی میں ایک ایسے عالمِ دین پر اعتراض کیا جنھوں نے یہ مسئلہ اپنی طرف سے بیان نہیں کیا تھا بلکہ ان سے کئی سو سال پہلے کے اکابرینِ امت بھی اسے درست قرار دے چکے ہیں۔
کم علمی آپ کی ہے کہ آپ نے تحقیق سے کام لینے کے بجائے کاپی پیسٹ کیا اور بری الزمہ ہوگئے۔

بھائی صاحب آپ یہ کس غلط فہمی کی بات کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا اشارہ خون اور پیشاب سے قرآنی آیات کو لکھے جانے کی جانب ہے؟

لگ تو یہی رہا ہے کیونکہ تقی عثمانی صاحب نے کئی سو سال اکابرینِ امت کے قول کو بنیاد بنا کر ہی رائے اپنی کتاب میں دی تھی۔ آپ یہ بتانا کیوں بھول رہے ہیں کہ انھوں نے بعد میں اس موقف سے رجوع کر لیا اور صاف صاف اپنے تردیدی بیان میں کہا کہ نجاست سے قرآنی آیات لکھنا سفلی عملیات میں سے ہے؟

کیا آپ تقی عثمانی صاحب پر تنقید کرنا پسند فرمائیں گے کہ انھوں نے کیوں اکابرینِ امت کے موقف کی بعد میں مخالفت کی اور اپنے موقف سے رجوع کر لیا؟

بھائی میرے بات وہی آجاتی ہے کہ مذہب میں قرآن اور سنت ہی حجت ہے کسی عالم کا قول و فعل اگر قرآن و سنت کے خلاف جاتا ہے تو اسے درست نہیں مانا جاسکتا ہے!

مجھے حیرت ہے کہ آپ کو قرآنی آیات کو نجاست سے لکھے جانے پر صرف اس لئے اعتراض نہیں ہے کیونکہ اکابرینِ امت نے اس کو درست قرار دیا!!! یہ تعجب کی بات ہے کہ آپ قرآن کے ادب اور تکریم کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے علماء کی رائے کو درست قرار دینے کے لئے غلط فہمی کا لیبل لگا رہے ہیں!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
آپ مستند دینی حوالوں سے بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا معلومات کی کمی ہے؟
آیات کو گھول کر پی جانا، آیات کو ٹانگ سے باندھنا، آیات کا پانی چھڑکنا۔ اسلام کے نام پر اس قسم کی مضحکہ خیز حرکات کو مسترد کرنے کیلئے آپ کو کیسے مستند حوالے درکار ہیں؟
 

فہد مقصود

محفلین
ارے یہ کیا؟؟؟
میں تو آپ دونوں حضرات سے توقع کررہا تھا کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں گے اور ابتدائے اسلام سے جو بات (تعویذ کا استعمال، دم کیا پانی جسم پر چھڑکنا وغیرہ) درست مانی جارہی ہے، اس کے خلاف علمی دلائل پیش کریں گے، لیکن آپ دونوں حضرات تو اس طرف آ ہی نہیں رہے؟

آپ دونوں حضرات سے گزارش ہے کہ کسی عبارت پر اعتراض کرنا ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں کیجیے، یہ نہیں کہ آپ نے کہیں کوئی عبارت پڑھی، آپ نے اپنی ذاتی سمجھ کے مطابق اسے غلط پایا؛ یہ دیکھ کر ایک صاحب نے اسے یہاں پیسٹ کردیا اور دوسروں نے اس کی تائید کر دی۔
جہاں سے کاپی پیسٹ کیا ہے، وہاں سے شرعی دلائل نہیں ملے؟ تھوڑا گوگل کیجیے، کیا پتہ کچھ مواد مل جائے آپ کو۔

شرعی دلائل آپ کی خدمت میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ بھی قرآنی آیات کو جسم سے باندھنے اور نجاست سے لکھنے کے لئے دلائل لے آئیں گے!!! آپ کو لگتا ہے کہ صرف آپ کا ہی علم ہے اور دنیا گوگل پر گزارا کر رہی ہے! اگر مطالعہ نہ ہوتا تو کتب سے حوالہ جات اتنی جلدی گوگل سے ڈھونڈ کر نہیں لے آتا۔
 

فہد مقصود

محفلین
۔

یا مظہر العجایب!! کاپی پیسٹ کرنے پر میں نے کب اعتراض کیا ہے؟ اعتراض تو یہ ہے کہ کاپی پیسٹ سے پہلے تھوڑی تحقیق کر لی جائے تو اپنا قیمتی وقت بھی بچے اور دوسروں کا بھی۔
جہاں تک میرے کاپی پیسٹ کی بات ہے تو میں نے اردو محفل کو کبھی بھی فرقہ وارانہ منافرت کے لیے استعمال نہیں کیا۔
اگر فرقہ وارانہ منافرت سے پاک کوئی تحریر کاپی پیسٹ کی جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟

یہ لیجئے حضرات فرقہ وارانہ منافرت کی ٹرک کی بتی دوڑ میں شامل ہوگئی ہے۔
او بھائی توحید اور بنیادی عقائد میں گمراہی کو درست کرنے کے لئے فرقہ نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ اسلام کے بنیادی عقائد ہیں یہی درست نہیں ہوں گے تو باقی کیا بچے گا؟
 

محمد سعد

محفلین
یہ لیجئے حضرات فرقہ وارانہ منافرت کی ٹرک کی بتی دوڑ میں شامل ہوگئی ہے۔
او بھائی توحید اور بنیادی عقائد میں گمراہی کو درست کرنے کے لئے فرقہ نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ اسلام کے بنیادی عقائد ہیں یہی درست نہیں ہوں گے تو باقی کیا بچے گا؟
جب گفتگو کے شروع سے اب تک یہ استدلال رہا ہو کہ "علماء یہ کہتے ہیں" کہ عورت کی زندگی پر فلاں فلاں پابندیاں ہونی چاہییں تو یہ سوال اٹھنا کہ جن علماء کی بات کی جا رہی ہے وہ خود کتنے پانی میں ہیں، ایک فطری بات ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس کا تعلق فرقہ واریت سے ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ مسلسل دلائل کو اپنے میرٹ پر ڈسکس کرنے کے بجائے آرگومنٹ فرام اتھارٹی پر اصرار کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ یہاں موجود کوئی بھی شخص قرآن و سنت کی روح کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بس چند گنے چنے "علماء" ہی یہ کام کر سکتے ہیں جیسے عیسائیوں کی پاپائیت میں ہوتا تھا۔ تو جب دلائل کے میرٹ کے بجائے آرگومنٹ فرام اتھارٹی کا کارڈ کھیلا جائے گا تو سوال تو اٹھیں گے کہ آخر کیا وہ اتھارٹی اس قابل بھی ہے کہ اس کی ہر بات من و عن قبول کی جائے؟

میرے نزدیک اب بھی بہتر طریقہ یہ ہے کہ دلائل کو ان کے اپنے میرٹس پر ڈسکس کیا جائے اور آرگومنٹ فرام اتھارٹی جیسے منطقی مغالطوں سے دور رہا جائے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کر سکتا تو اسے اس بات کے لیے پھر تیار رہنا چاہیے کہ اس کی پیش کردہ اتھارٹی کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ کامن سینس کی بات ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
ٹھیک ہے۔ ملاحظہ ہو اس اعتراض کا براہِ راست جواب جو علمائے کرام نے دیا ہے۔

قرآنی آیت سے لکھا ہوا تعویذ ران پر باندھنا

سوال
کیا ران پر قرآنی آیت سے لکھے ہوئے تعویذ کو باندھنا جائز ہے، جیسا کہ اس طرح کا ایک تعویذ سہولتِ ولادت کے لیے اعمالِ قرآنی میں درج ہے؟

جواب

تعویذ میں لکھی آیات جب چمڑ ے میں اچھی طرح بند ہوں یا اچھی طرح کسی چیز میں چھپی ہوئی ہوں تو شدید ضرورت کے وقت اسے ران پر باندھنے کی اجازت ہوگی، تاہم ضرورت پوری ہوتے ہی فوراً اتار دیا جائے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144012200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

دوسرا جواب:

Screenshot-20200405-132549.png

Screenshot-20200405-132552.png

(باقی اگلے مراسلے میں)

یہ لیجئے حضرات نہ قرآن سے کوئی استدلال، نہ سنت سے، نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت سے! چونکہ ان علماء نے جائز قرار دے دیا تو جائز ہوگیا!!! نہ ہی کوئی ان کا شاگرد، نہ ہی ان کا کوئی پیروکار آپ کو کبھی بھی سوال کرتا نظر آئے گا!

ایک بات بتائیے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ پانی پر دم کیا جائے اور پی لیا جائے؟؟؟ اس کی کیا ضرورت ہے کہ ٹانگ پر قرآنی آیت باندھی جائے؟؟؟ جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا وہ کافی کیوں نہیں ہے؟؟؟ شفاء کیا پانی پر دم کر کے حاصل نہیں ہوسکتی ہے؟؟؟

آپ کیا سمجھ رہے تھے صاحب کہ میں نے یہ فتاویٰ نہیں پڑھے ہوئے؟؟؟ دارالعلوم دیوبند الہند کا آڈیو فتویٰ آج سے کوئی اٹھارہ سال قبل سنا تھا۔ سوال میں سنت سے دلائل مانگے گئے تھے۔ ان کا جواب کچھ یوں تھا کہ یہ ایک تجربہ تھا کامیاب ہوگیا تو تحریر کر دیا گیا۔

صاحب کبھی ہم بھی انھی علماء کے پیروکار تھے لیکن جب ان کی ایسی حرکات اور تعلیمات سمجھ نہ آئیں اور تحقیق کرنے پر حقیقت عیاں ہوئی تو سر پر پیر رکھ کر دوڑ لگا دی۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
یہ لڑی اپنے اصل موضوع سے کہیں اور جا نکلی ہے۔ اس مناظرے کے لیے ایک الگ لڑی مناسب رہے گی۔
آرگومنٹ فرام اتھارٹی کے استعمال کا یہ فطری نتیجہ کئی جگہ نکلتے دیکھا ہے۔ جب سارا زور دلائل کے میرٹ کے بجائے فلاں فلاں کی اتھارٹی پر ہو تو ان کی اتھارٹی پر سوال اٹھنا ایک فطری نتیجہ ہے۔ اس سے بچنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کو اتنا کریڈٹ دے لیا جائے کہ شاید یہ بھی کم از کم اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے انسان ہیں جو کچھ حد تک کسی دلیل کے میرٹ کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
اہل علم کی حیثیت پر سوال اٹھ سکتا ہے تو بے علم و بے عمل لوگوں کی حیثیت پر بھی کہ ان کی علمی و عملی اوقات کیا ہے کہ ان کی باتوں پر بے چوں و چرا عمل کیا جائے؟؟؟
جبکہ ابھی تک ہمارے ان سوالات کا جواب بھی نہیں دیا گیا:
یہ بتائیں کہ یہی قرآن یہ کیوں کہتا ہے:

۱) فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون

۲) إنما يخشى الله من عباده العلماء

۳) الرحمٰن فاسئل بہ خبیرا

۴) فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ
اس آیت میں دونوں میں صلح کرانے کا کیا مطلب ہے؟؟؟

۵) النجم و الشجر یسجدٰن
اس آیت میں ستارے اور درخت بیان کرنے کا آپس میں کیا ربط ہے؟؟؟

۶) یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا سے کون لوگ مراد ہیں؟؟؟

۷) اہل زبان ہونے کے باوجود حضرت عمر و عنبا و ابا کا مطلب پوچھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیوں گئے؟؟؟

۸) اہل زبان اور ہر دم رسول اللہ کے صحبت یافتہ ہونے کے باوجود حضرت عمر نے نو یا گیارہ سال صرف سورہ بقرہ سمجھنے میں کیوں لگادئیے؟؟؟

۹) صحابہ کو بہتان کا مطلب معلوم تھا لیکن اہل زبان ہونے کے باوجود انہوں نے قرآن پاک میں لفظ غیبت کا مطلب پوچھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں رجوع کیا؟؟؟

۱۰) وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم ولولا فضل الله عليكم و رحمته لاتبعتم الشيطان إلا قليلا

اس آیت میں اہل استنباط سے کون لوگ مراد ہیں؟؟؟
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
اہل علم کی حیثیت پر سوال اٹھ سکتا ہے تو بے علم و بے عمل لوگوں کی حیثیت پر بھی کہ ان کی علمی و عملی اوقات کیا ہے کہ ان کی باتوں پر بے چوں و چرا عمل کیا جائے؟؟؟
ایک بات تو پکی ہے کہ ایسے لوگوں کی کم از کم کوئی علمی حیثیت نہیں ہے جو عورت کے حقوق جیسے معاملے پر اختلاف پر بھی لوگوں کو دہریہ قرار دے دینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔
بہ الفاظ دیگر ان کے علم کی سطح یہ ہے کہ وہ اتنے بنیادی نوعیت کے فرق کو نہیں سمجھتے کہ خدا کے اوپر سرے سے یقین نہ کرنا، عورت کے ملازمت کرنے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہ سمجھنے سے کتنا مختلف ہے۔
ایسے لوگوں کے پاس اگر کاغذ کے ٹکڑے اور عالم مفتی جیسے کاغذی لیبل ہوں بھی تو ان کے طرز عمل میں نمایاں نظر آنے والی جہالت کا سدباب کرنے کو ناکافی ہیں۔

Exhibit A
مسلمان بیویوں کی بات ہورہی ہے۔۔۔
دہریوں کی نہیں!!!

Exhibit B
لیکن دہریوں کا عورتوں کو گھر سے باہر نکال پھینکنے کا فلسفہ یہ گل بھی کھلانے لگا...

Exhibit C
اس آیت پر عمل نہ دہریوں کے مرد کریں گے نہ ان کی عورتیں!!!

Exhibit D
البتہ جو پہلے سے دہرئیے ہیں اور سرعام ببانگِ دہل خود اس کا اعلان بھی کرتے ہیں وہ جو چاہے سو کریں!!!

اور اس سوال
ذرا وضاحت بھی کر دیں کہ اس گفتگو میں آپ کے مخاطبین میں سے کون پہلے سے دہریے ہیں اور سر عام ببانگ دہل اس کا اعلان کرتے ہیں۔ کیا آپ کچھ مثالیں دے سکتے ہیں جہاں انہوں نے ایسا کچھ اعلان کیا ہو؟
کے جواب میں ملنے والا
Exhibit E
آپ خود ڈھونڈ لیں، یہیں کہیں آپ کو سرعام ببانگ دہل اعلانات مل جائیں گے، ہم کسی کا نام نہیں لیں گے۔۔۔
اس کے بعد آپ کم از کم یہ بہانہ نہیں کر سکتے کہ آپ نے گفتگو میں شریک فورم کے کسی فرد کو دہریہ قرار نہیں دیا تھا۔ بے شک آپ اس بہانے کے پیچھے چھپنے کی لاکھ کوشش کریں کہ جی میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا۔

اور ہاں۔ واپس آ ہی گئے ہیں تو اپنے اس دعوے کی روشنی میں
لیکن اسلامی احکام کا مذاق اڑانا مسلمان کا کام نہیں۔۔۔
ذرا اس بحث پر بھی رائے دیتے چلیں کہ تعویذ و دم کے یہاں زیر بحث طریقے اسلامی احکام کے مذاق کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیسے؟ اگر ہاں تو کیا ایسی غلطی کرنے والے کو بھی غیر مسلم کہا جائے گا؟

پھر یہ بھی بتا دیجیے گا کہ اگر علماء دیگر جگہوں پر غلطیاں کر سکتے ہیں تو کیا بہتر اپروچ یہ ہو گی کہ ان کی باتوں کو بغیر کوئی سوال پوچھے من و عن مان لیا جائے یا یہ کہ جو سوال ذہن میں آتے ہیں وہ سامنے رکھے جائیں؟
اسی میں آپ کے سب سوالات کا جواب مل جائے گا۔
 
Top