اپ سب کی یہ گفتگو پڑھ کر اور زیادہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو نے لگاہے ۔ کاش میں ایک عورت نہ ہوتی ۔ آپ سب کو کمزور عورت کی مجبوری کی کیا خبر ....یہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتی ہے ۔ یہ تو آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا زور آوروں کی ہے اور عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی ۔
رہی بات جاب کی تو عورتوں کی اکثریت جاب نہیں کرتی ۔ پھر بھی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہے ۔ اصل میں والدین نے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ اور بڑوں نے بھی اپنی زمہ داری سے تقریبا تقریبا ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔
اگر خواتین پڑھانے والی نہ ہوں گی تو لیڈی ڈاکٹر، خواتین ٹیچرز اور نرس کہاں سے پڑھ کر آگے آئیں گی البتہ مخلوط دفاتر میں کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔
رہی بات پردہ کی تو لڑکیوں /خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ لڑکوں / مردوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ خواتین کا احترام کرے ۔ یہاں ہمارے علاقے میں ہم خواتین تقریبا پانچ میٹر لمبی چوڑی چادر لے کر منہ ڈھانپ کر باہر نکلتی ہیں ۔ ہمارا معاشرہ سخت پٹھان معاشرہ ہے ۔ اس اتنے پردہ کے باوجود بھی بعض اوقات خواتین انتہائی افسوس ناک صورتحال سے گزرتی ہیں ۔
ابھی پچھلے دنوں ہی کا واقعہ ہے کہ پردہ کرنے کے باو جود صبح گھر سے نکلی تو سنسان گلی میں سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے میرے قریب سے گزرتے ہوئے بڑ بڑا کر کچھ کہا میں سمجھی شاید فون پر کسی سے بات کر رہا تھا مگر نہیں اس نے کچھ ریمارکس پاس کئے تھے ۔ میرا پردہ کرنے کے باوجود اس کی یہ جرات ....میں اگلے پورے ہفتہ اپنے ساتھ پستول لے کر گئ کہ اب اگر کسی نے ایسا ویسا کچھ کہا تو زندہ نہیں چھوڑوں گی ۔
۔ میں بے شک کمزور ہوں ۔ میرے رب نے مجھے کمزور بنایا ہے مگر بے غیرت نہیں بنایا ۔ اگر میں یہ انتہائی اقدام اٹھا لیتی تو شاید لوگ اعتراض کرٰتے کہ دیکھا گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے...فتنہ ہے یہ ہے وہ ہے ۔ تو ان سے یہی کہوں گی کہ بامر مجبوری گھر سے نکلنا اسلام میں بھی جائز ہی ہے ۔ یہ بات مجھے کہنی تو نہیں چاہیے کہ میرے رب نے تین مختلف گھرانوں کی کفالت کی زمہ داری مجھ کمزور و ناتواں کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔ یہ میرے لیے برے اعزاز کی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت و کفالت کے لیے چنا ہے ۔ وہ گھرانےمیری تنخواہ ملنے کے منتطر ہوتے ہیں ۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں سوائے ان کے رازق کے جس نے مجھے وسیلہ بنایا ہے ۔
اگر یہ معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ ہوتا تو بیواوں مسکینوں لاچاروں کی کفالت، ریاست ہی کی زمہ داری تھی ۔
سحرش اللہ آپ کو بے انتہا ترقی عطا فرمائے اور آپ کی مشکلات آسان فرمائے آمین
جہاں تک ایسی باتوں کی جانب توجہ دینے کا تعلق ہے تو کبھی جب میں بھی ارلی 20s میں تھی تو ان باتوں پر بڑی جلتی کڑھتی تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان باتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو کم تر اور گناہگار سمجھنا چھوڑ دیا۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے یہ سمجھ آیا کہ میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ میں صرف خدا کے سامنے جوابدہ ہوں۔ میں کیوں کسی کے سامنے جا کر روؤں کہ میری یہ فلاں مجبوری ہے، وہ ہے، میرا کردار ایسا ہے، میرا کردار ویسا ہے؟ آخر کیوں؟ میں جانوں میرا رب جانے میرے گھر والے جانیں۔ میں اپنے شوق میں کام کروں، تعلیم حاصل کروں، مجبوری میں کروں۔ کسی کو کیا مطلب؟ اگر کوئی مجھ پر ریمارکس اب پاس کرتا ہے میں دل ہی دل میں لعنت بھیج دیتی ہوں اور اگر اس قابل کوئی ہوتا ہے کہ جواب دیا جا سکے یا اس سے بات کی جا سکے تو جواب بھی دے دیتی ہوں اور اپنا احتجاج بھی پہنچا دیتی ہوں۔
کبھی کبھی ابھی بھی کچھ باتیں جو بدتہذیبی کی حدود کو بہت زیادہ کراس کر جائیں تو ان پر بول دیتی ہوں ورنہ اب پروا کرنا چھوڑ دی ہے۔ آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گی کہ بالکل توجہ نہ دیں۔
ہر کسی کے اپنے نظریات ہیں۔ کچھ خواتین کے کام کرنے کے خلاف ہیں کچھ نہیں۔ آپ اختلاف رائے سمجھ کر اگنور کر دیں۔ لیکن اپنے آپ کو احساس کمتری میں ہر گز مبتلا نہ کریں۔
آپ میری پوسٹ کی ہوئی یہ لڑی ضرور پڑھئے گا۔ یقین جانئے آپ کو بہت حوصلہ ملے گا
خوش رہیں
اسلامی معاشرے میں صحابیات کا کردار