آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

جاسم محمد

محفلین

سحرش سحر

محفلین
اپ سب کی یہ گفتگو پڑھ کر اور زیادہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو نے لگاہے ۔ کاش میں ایک عورت نہ ہوتی ۔ آپ سب کو کمزور عورت کی مجبوری کی کیا خبر ....یہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتی ہے ۔ یہ تو آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا زور آوروں کی ہے اور عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی ۔
رہی بات جاب کی تو عورتوں کی اکثریت جاب نہیں کرتی ۔ پھر بھی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہے ۔ اصل میں والدین نے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ اور بڑوں نے بھی اپنی زمہ داری سے تقریبا تقریبا ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔
اگر خواتین پڑھانے والی نہ ہوں گی تو لیڈی ڈاکٹر، خواتین ٹیچرز اور نرس کہاں سے پڑھ کر آگے آئیں گی البتہ مخلوط دفاتر میں کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔
رہی بات پردہ کی تو لڑکیوں /خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ لڑکوں / مردوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ خواتین کا احترام کرے ۔
بامر مجبوری گھر سے نکلنا اسلام میں بھی جائز ہے ۔ یہ بات مجھے کہنی تو نہیں چاہیے کہ میرے رب نے تین مختلف گھرانوں کی کفالت کی زمہ داری مجھ کمزور و ناتواں کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔ یہ میرے لیے برے اعزاز کی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت و کفالت کے لیے چنا ہے ۔ وہ گھرانےمیری تنخواہ ملنے کے منتطر ہوتے ہیں ۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں سوائے ان کے رازق کے جس نے مجھے وسیلہ بنایا ہے ۔حالانکہ یہ گھرانے جس جس کمیونٹی میں آباد ہیں وہاں بڑے بڑے غیرت مند اور کماؤ مرد رہتے ہیں ۔
اگر یہ معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ ہوتا تو بیواوں مسکینوں لاچاروں کی کفالت، ریاست ہی کی زمہ داری تھی ۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
اپ سب کی یہ گفتگو پڑھ کر اور زیادہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو نے لگاہے ۔ کاش میں ایک عورت نہ ہوتی ۔ آپ سب کو کمزور عورت کی مجبوری کی کیا خبر ....یہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتی ہے ۔ یہ تو آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا زور آوروں کی ہے اور عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی ۔
رہی بات جاب کی تو عورتوں کی اکثریت جاب نہیں کرتی ۔ پھر بھی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہے ۔ اصل میں والدین نے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ اور بڑوں نے بھی اپنی زمہ داری سے تقریبا تقریبا ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔
اگر خواتین پڑھانے والی نہ ہوں گی تو لیڈی ڈاکٹر، خواتین ٹیچرز اور نرس کہاں سے پڑھ کر آگے آئیں گی البتہ مخلوط دفاتر میں کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔
رہی بات پردہ کی تو لڑکیوں /خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ لڑکوں / مردوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ خواتین کا احترام کرے ۔ یہاں ہمارے علاقے میں ہم خواتین تقریبا پانچ میٹر لمبی چوڑی چادر لے کر منہ ڈھانپ کر باہر نکلتی ہیں ۔ ہمارا معاشرہ سخت پٹھان معاشرہ ہے ۔ اس اتنے پردہ کے باوجود بھی بعض اوقات خواتین انتہائی افسوس ناک صورتحال سے گزرتی ہیں ۔
ابھی پچھلے دنوں ہی کا واقعہ ہے کہ پردہ کرنے کے باو جود صبح گھر سے نکلی تو سنسان گلی میں سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے میرے قریب سے گزرتے ہوئے بڑ بڑا کر کچھ کہا میں سمجھی شاید فون پر کسی سے بات کر رہا تھا مگر نہیں اس نے کچھ ریمارکس پاس کئے تھے ۔ میرا پردہ کرنے کے باوجود اس کی یہ جرات ....میں اگلے پورے ہفتہ اپنے ساتھ پستول لے کر گئ کہ اب اگر کسی نے ایسا ویسا کچھ کہا تو زندہ نہیں چھوڑوں گی ۔
۔ میں بے شک کمزور ہوں ۔ میرے رب نے مجھے کمزور بنایا ہے مگر بے غیرت نہیں بنایا ۔ اگر میں یہ انتہائی اقدام اٹھا لیتی تو شاید لوگ اعتراض کرٰتے کہ دیکھا گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے...فتنہ ہے یہ ہے وہ ہے ۔ تو ان سے یہی کہوں گی کہ بامر مجبوری گھر سے نکلنا اسلام میں بھی جائز ہی ہے ۔ یہ بات مجھے کہنی تو نہیں چاہیے کہ میرے رب نے تین مختلف گھرانوں کی کفالت کی زمہ داری مجھ کمزور و ناتواں کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔ یہ میرے لیے برے اعزاز کی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت و کفالت کے لیے چنا ہے ۔ وہ گھرانےمیری تنخواہ ملنے کے منتطر ہوتے ہیں ۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں سوائے ان کے رازق کے جس نے مجھے وسیلہ بنایا ہے ۔
اگر یہ معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ ہوتا تو بیواوں مسکینوں لاچاروں کی کفالت، ریاست ہی کی زمہ داری تھی ۔

سحرش اللہ آپ کو بے انتہا ترقی عطا فرمائے اور آپ کی مشکلات آسان فرمائے آمین

جہاں تک ایسی باتوں کی جانب توجہ دینے کا تعلق ہے تو کبھی جب میں بھی ارلی 20s میں تھی تو ان باتوں پر بڑی جلتی کڑھتی تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان باتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو کم تر اور گناہگار سمجھنا چھوڑ دیا۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے یہ سمجھ آیا کہ میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ میں صرف خدا کے سامنے جوابدہ ہوں۔ میں کیوں کسی کے سامنے جا کر روؤں کہ میری یہ فلاں مجبوری ہے، وہ ہے، میرا کردار ایسا ہے، میرا کردار ویسا ہے؟ آخر کیوں؟ میں جانوں میرا رب جانے میرے گھر والے جانیں۔ میں اپنے شوق میں کام کروں، تعلیم حاصل کروں، مجبوری میں کروں۔ کسی کو کیا مطلب؟ اگر کوئی مجھ پر ریمارکس اب پاس کرتا ہے میں دل ہی دل میں لعنت بھیج دیتی ہوں اور اگر اس قابل کوئی ہوتا ہے کہ جواب دیا جا سکے یا اس سے بات کی جا سکے تو جواب بھی دے دیتی ہوں اور اپنا احتجاج بھی پہنچا دیتی ہوں۔

کبھی کبھی ابھی بھی کچھ باتیں جو بدتہذیبی کی حدود کو بہت زیادہ کراس کر جائیں تو ان پر بول دیتی ہوں ورنہ اب پروا کرنا چھوڑ دی ہے۔ آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گی کہ بالکل توجہ نہ دیں۔

ہر کسی کے اپنے نظریات ہیں۔ کچھ خواتین کے کام کرنے کے خلاف ہیں کچھ نہیں۔ آپ اختلاف رائے سمجھ کر اگنور کر دیں۔ لیکن اپنے آپ کو احساس کمتری میں ہر گز مبتلا نہ کریں۔

آپ میری پوسٹ کی ہوئی یہ لڑی ضرور پڑھئے گا۔ یقین جانئے آپ کو بہت حوصلہ ملے گا :) خوش رہیں :)

اسلامی معاشرے میں صحابیات کا کردار
 

سین خے

محفلین
آپ کی اس پوسٹ کو پڑھ کر کچھ حوصلہ ملا بلکہ انکھیں انسووں سے لبریز ہیں ۔ جزاک اللہ

بھئی محفل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آکر سب اپنا دل بہلاتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں :) اب اگر یہاں پر کچھ باتوں سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے تو آپ پلیز اگنور کریں :) نظر انداز کرنے کا بھی آپشن موجود ہے۔ مجھے تو بالکل بھی اچھا معلوم نہیں ہوگا کہ آپ یہاں سے افسردہ ہو کر جائیں :) کم آن چیر اپ :)

اختلاف کریں، غصہ بھی کریں لیکن افسردہ ہونے کا تو کوئی آپشن ہی نہیں ہے :) ایسی باتیں دل پر نہیں لیتے :)
 

سحرش سحر

محفلین
میں الحمد للہ ..انتہائی مطمئن زندگی بسر کر رہی ہوں .... مگر اس احساسِِ کم مائیگی کمبخت کے ہاتھوں کبھی کبھی جینا دشوار ہو جاتا ہے ۔
افسوس کہ آپ سب کو بھی اداس کر دیا ۔ :(
 

جان

محفلین
باقی باتیں تو محترمہ سین خے صاحبہ نے کر دی ہیں میں تو محض اتنا ہی کہوں گا کہ جتنی عزت رب نے عورت کو بخشی ہے اتنی کسی بھی مذہبی و غیر مذہبی معاشرے میں دینے کی ہمت نہیں! عورت کو رب نے کمزور نہیں بنایا، بلکہ معاشرتی نظام نے ایسا تصور قائم کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ آپ غور کریں کہ رب نے مرد و عورت دونوں کو کام کرنے کے لیے دو ہاتھ، چلنے کے لیے دو ٹانگیں اور سوچنے کے لیے ایک دماغ دیا ہے، دونوں میں قطعی نا انصافی سے کام نہیں لیا۔ یہ عورت کی عظمت ہے کہ وہ اسی مرد کو دنیا میں لے کر آتی ہے جو اسے کمزور سمجھتا ہے، آپ حوصلہ و ہمت قطعی نہ ہاریں، اللہ کریم سب بہتر کریں گے!
میرے رب نے مجھے کمزور بنایا ہے
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
میں الحمد للہ ..انتہائی مطمئن زندگی بسر کر رہی ہوں .... مگر اس احساسِِ کم مائیگی کمبخت کے ہاتھوں کبھی کبھی جینا دشوار ہو جاتا ہے ۔
افسوس کہ آپ سب کو بھی اداس کر دیا ۔ :(
ہماری اداسی کی فکر نہ کریں، اللہ آپ کو خوش رکھے! آپ نے اچھا کیا یہ سب بیان کر کے، ہر سوچ کو باہر آنے کا پورا حق حاصل ہے تاکہ ہر طبقے کا بیانیہ اور مسائل سامنے آ سکیں!
 

سین خے

محفلین
میں الحمد للہ ..انتہائی مطمئن زندگی بسر کر رہی ہوں .... مگر اس احساسِِ کم مائیگی کمبخت کے ہاتھوں کبھی کبھی جینا دشوار ہو جاتا ہے ۔
افسوس کہ آپ سب کو بھی اداس کر دیا ۔ :(

کیسی کم مائیگی بھئی؟
کیا خدا نہ کرے آپ نے چوری کی ہے، ڈاکہ ڈالا ہے، کسی کے مال و دولت پہ قبضہ کیا ہے، کرپشن کی ہے، رشوت لی ہے، قتل کیا ہے؟ آپ کروڑوں سے بہت برتر ہیں۔ آپ معاشرے کی ایک بہترین اور کارآمد فرد ہیں۔ آئندہ ایسی باتیں ہرگز نہیں سوچئے گا :)
 

زیک

مسافر
اپ سب کی یہ گفتگو پڑھ کر اور زیادہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو نے لگاہے ۔ کاش میں ایک عورت نہ ہوتی ۔ آپ سب کو کمزور عورت کی مجبوری کی کیا خبر ....یہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتی ہے ۔ یہ تو آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا زور آوروں کی ہے اور عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی
آپ کو اس معاملے میں فکر نہیں کرنی چاہیئے کہ اعتراض کرنے والے کرتے رہیں گے

عورتوں کی اکثریت جاب نہیں کرتی ۔
پاکستان میں شاید یہ درست ہو لیکن ہمارے ہاں نہیں ہے

مخلوط دفاتر میں کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔
یہ تو جاب کی نوعیت اور معاشرے وغیرہ پر منحصر ہے۔ مجھے یا میری بیوی کو “مخلوط دفتر” میں کام کرنے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی
 

جان

محفلین
پہلے بے روزگار مردوں کو ملازمتیں اور کاروبار دیں اس کے بعد اگلے مرحلے کی بات کریں!!!
آپ کا یہ نقطہ کہ پہلے بے روزگار مردوں کو ملازمتیں دیں اتنا ہی ویلڈ ہے جتنا کوئی کہے کہ پہلے بے روزگار عورتوں کو ملازمتیں دیں اور میرا نقطہ نظر ان دونوں سے ہٹ کر ہے کہ ملازمت صرف اسی کو دے جائے جو اس کے زیادہ قابل ہو اس کے لیے جنس کی قید کیوں اور کس لیے؟ ایک عورت اگر کوئی کام مرد سے اچھا کر سکتی ہے تو ہم یہ کہہ کر کہ اس پہ پہلے مرد کا حق ہے اسے کام نہ کرنے دیں تو یقیناً زیادتی ہو گی اور دوسری صورت میں اگر کسی زیادہ قابل مرد کی بجائے کسی عورت کو پریفرنس دینا بھی اسی نوعیت کی زیادتی ہو گی!
 

فاخر رضا

محفلین
ہمیں اپنی بیٹیوں کو نرس، ڈاکٹر، ٹیچر اور جو وہ چاہیں بننے میں مدد کرنا چاہیے. بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے
اگر پاکستان میں پچاس فیصد آبادی کو متروک کردیا جائے گا تو ملک کا حال اور برا ہوجائے گا
مخلوط جگہوں پر کام، کام کی نوعیت پر ہے. ابھی ہمارے ہاں صرف خواتین کے اسپتال نہیں ہیں. اب کیا کریں، کیا اپنی بیٹی کا علاج نہ کرائیں اسے مرنے دیں. علاج بھی عورت سے کرانا ہے اور اپنی بیٹی کو گھر سے نکالنا بھی نہیں، پھر علاج کون کرے گا
میں عورتوں کے الگ اسپتال اور اسکول کالج کا حامی ہوں مگر موجودہ صورتحال میں کیا کریں.
پردہ خدا نے شاید اسی لیے واجب کیا ہے کہ عورت مخلوط ماحول میں کام کرسکے. ورنہ پردہ کیوں کیا جائے عورتوں کے درمیان.
کیا گھر میں دیور اور جیٹھ یا شوہر کے بھانجے بھتیجے نہیں آتے یا ہم نہیں جاتے ان کے گھر. یہ سب نامحرم ہیں مگر پردے کی حالت میں جاسکتے ہیں
اپنی بیٹی کے کردار کو مضبوط بنائیے اسے معاشرے کی اچھائی برائی بتائیے اور اس پر بھروسہ کرکے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے دیجیے
گھر سے نکلنے والی عورت زیادہ بہتر جانتی ہے کہ اپنی بیٹی کی تربیت کیسے کرنی ہے لہٰذا اپنی بیوی کو بھی کام کرنے کی اجازت دیجیے
 

فاخر رضا

محفلین
آخری حد کا تعین بھی عورت سے مخصوص نہیں. ہر ذی شعور کو اپنی آخری حد سمجھنا چاہیے.
کل ہی ایک جگہ سنا کہ رسول اللہ ص کے اوپر کسی نے اوجڑی ڈال دی. کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کو دور کرتا. رسول کی بیٹی خود آگے بڑھیں. رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی آپ چین سے نہ بیٹھیں اور اپنا حق مانگنے دربار تک گئیں اور لوگوں کو رسول اللہ کی وصیت یاد دلائی. یہ ایک الگ دکھ بھری داستان ہے. جب علی جنگوں پر ہوتے تھے اور اکثر ہوتے تھے تو بی بی ہی تمام کام کرتی تھیں کیا گھر اور کیا باہر. محلے والوں کی گندم بھی پیستی تھیں اور اپنی بھی. حسن حسین تو بہت چھوٹے تھے. باہر کے کام اور کون کرتا.
جن کی دولت کی بدولت اسلام پھیلا وہ کون تھیں. ایک ورکنگ وومن. رسول اللہ کی سب سے چہیتی بیوی جن کی موجودگی میں آپ نے دوسری شادی نہ کی. شعب ابی طالب کے واقعات دیکھیے کیا کردار ہے آپ کا.
جنگوں میں مرہم پٹی کا تو سب ہی جانتے ہیں کہ کون کیا کرتا تھا. ہتھیاروں کو تیار کون کرتا تھا. ذوالفقار سے باتیں کون کرتا تھا.
میرے خیال میں چودہ سو سال میں ہم دقیانوسی ہوگئے ہیں. رسول اللہ کے دور میں ہم زیادہ پروگریسو تھے.
 

فاخر رضا

محفلین
بامر مجبوری گھر سے نکلنا اسلام میں بھی جائز ہے ۔
عورت بغیر مجبوری بھی باہر نکل سکتی ہے. کسی نے اسے بیڑیاں نہیں ڈالیں. کسی مرد کو حق نہیں کہ عورت پر باہر نکلنے پر پابندی لگائے. خدا نے عورت کو آزاد پیدا کیا ہے. اگر کوئی مرد نظر نہ آنے والی بیڑیاں ڈالے تو یہ حبس بے جا میں شمار ہوگا
عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی
اس بات سے انتہائی غیر متفق. مجھ سے پوچھیے کہ اسپتال میں بیماری سے کون زیادہ بہتر لڑتا ہے. اگر دو بچے انڈر ویٹ داخل ہوں تو یقیناً لڑکی کے بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں. مردوں کو ہارٹ اٹیک زیادہ ہوتے ہیں. ایکسیڈنٹ میں بھی زیادہ مرتے ہیں اور جنگوں میں بھی. مرد کو بنیادی طور پر مزدور بنایا گیا ہے. پتھر وغیرہ اٹھانے کے لیے اور اب تو یہ کام بھی عورتیں کررہی ہیں ہمارے تھر میں.
 

فاخر رضا

محفلین
جو کام عورت کو نہیں کرنا چاہیے وہ اپنے جسم کو بیچنا ہے. یہ کام ایک مکروہ بلکہ حرام ہے. اس کی بہت سی صورتیں ہیں اور سب ہی غلط ہیں
 

سید عمران

محفلین
آپ کا یہ نقطہ کہ پہلے بے روزگار مردوں کو ملازمتیں دیں اتنا ہی ویلڈ ہے جتنا کوئی کہے کہ پہلے بے روزگار عورتوں کو ملازمتیں دیں اور میرا نقطہ نظر ان دونوں سے ہٹ کر ہے کہ ملازمت صرف اسی کو دے جائے جو اس کے زیادہ قابل ہو اس کے لیے جنس کی قید کیوں اور کس لیے؟ ایک عورت اگر کوئی کام مرد سے اچھا کر سکتی ہے تو ہم یہ کہہ کر کہ اس پہ پہلے مرد کا حق ہے اسے کام نہ کرنے دیں تو یقیناً زیادتی ہو گی اور دوسری صورت میں اگر کسی زیادہ قابل مرد کی بجائے کسی عورت کو پریفرنس دینا بھی اسی نوعیت کی زیادتی ہو گی!
عمومی طور پر ایک بات کی تھی!!!
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر کسی خاتون کا ایک بیٹا یا بیٹی ہے تو اولاد کی پیدائش کے بعد سات سال تک اسے باہر کہیں کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سات سال اولاد کا حق ہے اور ماں کا کام یہ ہے کہ وہ اولاد کو شفقت اور تربیت فراہم کرے۔
 
Top