آزادی مارچ اپڈیٹس

1833.gif
 

زرقا مفتی

محفلین
http://www.aalmiakhbar.com/admin.ph...w&id=47152&s=6359157c2d4096f9b4933acbb9357666

u3_u3_11.jpg
لاہور شہر سیاسی اعتبار سے ایک ممتاز تشخص کا
حامل ہے. تاریخ گواہ ہے کہ بہت سی کامیاب سیاسی تحاریک کا آغاز اسی شہر سے ہوا. اسی شہر بے مثال کے ایک سبزہ زار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی. میرےمرحوم نانا ابو اور میرے سسر اس تاریخی جلسے میں شریک ہوئے تھے.

آج پھر ہماری منزل وہی سبزہ زار تھا .آج ہم اسی عہد کی تجدید کے لئے جا رہے تھے جو ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی آزادی کے حصول کے وقت کیا تھا. سڑسٹھ سال پہلے ہمیں غیر ملکی استعمار سے آزادی تو مل گئی مگر ہمیں ایک استحصالی نظام کااسیر بنا دیا گیا. آج ہم اس فرسودہ نظام سے آزادی کی قرارداد منظور کروانے نکلے تھے

ٹی وی سے معلوم ہوا کہ قائد تحریک کا خطاب شام سات بجے متوقع ہے اس لئے سہ پہر پانچ بجے گھر سے نکلے. نہر سے ٹھوکر موڑ گئے اور پھر موٹر وے سے سگیاں انٹر چینج سے ہوتے ہوئے موہنی روڈ اور بلال گنج کی طرف سے مینار پاکستان پہنچنے کا ارادہ کیا. کیونکہ شہر میں ٹریفک جام کی خبریں تھیں. سگیاں تک تو پندرہ منٹ میں پہنچ گئے مگر موہنی روڈ پر آزمائش شروع ہو گئی سڑک پر نوجوانوں کی ٹولیاں گو نواز گو کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں تھیں. ہر ایک دو لمحے بعد موٹر سائیکل سوار منچلے بھی گزرتے کچھ کارکنان چنگ چی رکشوں پر بھی سوار تھے.
قطاروں میں لگی گاڑیوں میں فیملیز جلسہ گاہ کی طرف رواں دواں تھیں. بلال گنج سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک چبوترے پردس سال سے کم عمر بیس پچیس بچے بچیاں گو نواز گو کے نعرے لگا رہے تھے. مغرب کا وقت ہو گیا تو مفتی صاحب نے ایک مل کے پاس گاڑی کھڑی کر دی اور ملحقہ مسجد میں نماز ادا کی. نماز کے بعد پھر سفر شروع ہوا مگر مین سڑک تک پہنچنے میں لگ بھگ پینتیس منٹ لگ گئے. گاڑی نکالنا نا ممکن ہوتا اگر کچھ رضا کار گاڑی کے راستہ نہ بنواتے. تاہم مرکزی سڑک پر نکلتے ہی معلوم ہوا کہ گاڑی پارکنگ تک لے جانا ممکن نہیں. ہم سے اگلی گاڑیوں کے مسافر گاڑیاں بیچ سڑک کے لاک کر کے اتر گئے تو ہمیں بھی یہی کرنا پڑا
u3_unnamed01.jpg
سڑک پر اتنی بھیڑدیکھ کرنیں نے مفتی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا. دو رویہ سڑک پر سروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا. دو سڑکوں کے درمیان میٹرو کا ٹریک ہے اس پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا. سڑک پر دو بےکار چکر لگانے کے بعد میٹرو ٹریک پر کھڑی پولیس سے سبزہ زار تک پہنچنے کا راستہ دریافت کیا. کوئی دوسو گز چلنے کے بعد میٹرو ٹریک کے نیچے ایک تنگ راہداری کے ذریعے سبزہ زار کے قریب پہنچے. سڑک اور سبزہ زار کی تفریق مٹ چکی تھی. کیونکہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی. اور لوگ باہر کھڑے تقاریر سن رہے تھے. ایک دو نوجوانوں سے فیملیز کے اندر جانے کے راستے کے بارے معلوم کیا تو کہنے گے بہتر ہے آپ باہر ہی رہیں اندرجگہ نہ ہونے کے باعث حبس اور گھٹن ہے. اسوقت جناب اعجاز چوہدری نے داتا کی نگری کے باسیوں سے پنجابی میں خطاب شروع کیا. دن چینل کی وین ہمارے قریب کھڑی تھی جس کی چھت پر اس کا سٹاف بیٹھا تھا. کیمرا ایک نوجوان کو دیا کہ چھت سے کچھ تصاویر لے دے. اب میں سبزہ زار کے جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی. نوجوان جنگلے سے چمٹے ہوئے تقاریر سن رہے تھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے آئے ہیں پریشان تھے کہ جلسے میں نظم کا فقدان ہے. میں نے سمجھایا کہ لاکھوں کے ہجوم کو منظم کرنا اسی صورت ممکن ہوتا کہ سبزہ زار کو رقبے کے لحاظ سے تقسیم کر کے آپ جیسے نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دیتے اب میرے ساتھ دو بچیاں بھی جنگلے کے قریب آ کھڑی ہوئیں .اتنے میں عشاء کا وقت ہو گیا مفتی صاحب نماز کے لئے چلے گئے.

لوگوں کی آمد جاری تھی. زیادہ فیملیز نظر آئیں. بچیاں پارٹی پرچم کے رنگوں کے کپڑوں میں ملبوس. اکثر کے چہروں پرسرخ اور سب پینٹ. لڑکوں کی ٹی شرٹس پر عمران خان کی تصویر. سر پر پرچمی ٹوپیاں یا گلے میں سرخ سبز مفلر. ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے لہراتے ہوئے اس نظارے کو دیکھ کر سب سازشی ذہنوں پر نفرین بھیجنے کو دل چاہا. اب یہ سازشی تھیوریاں بنانے والے بتائیں کہ کونسے فوجی جنرل کے کہنے پر یہ لاکھوں لوگ اس سبزہ زار پر جمع ہیں مفتی صاحب نماز پڑھ کر لوٹے تو ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہجوم میں داخل ہو گئےکیونکہ.جلسہ گاہ میں فون سروس معطل تھی.سبزہ زار میں داخلی راستوں پر تحریک کے رضاکار فرائض انجام دے رہے تھے. خواتین کا بے حد احترام ملحوظ رکھا جا رہا تھا. سبزہ زار کے اندر جا کر ایسے لگا کہ جیسے پورا شہر یہیں ٹوٹ پڑا ہے. کہیں کہیں کرسی نظر آرہی تو اس پر نوجوان کھڑے ہاتھوں میں موبائل ہیں تصاویر بنا رہے ہیں.تقریر کے دوران نغمہ بجتا تو تالیاں بجاتے گو نواز گو کا نعرہ لگتا تو شہر کا شہر یک زبان ہو کر نعرہ لگاتا ایک نیک دل نوجوان نے مجھے بغیر کہے کرسی لا دی.
u3_unnamed2.jpg
شیخ رشید صاحب نے قربانی سے پہلے قربانی ہونے کی پیش گوئی دھرائی تو عوام بہت خوش ہوئے شاہ محمود قریشی نے اہل لاہور کو کئی بار سلام پیش کیا. میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھیں تھیں جو اپنی تین بچیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ جلسے میں آئی تھیں ہم سے آگے ایک اور خاندان تھا جس میں ساس بہوئییں اور پوتے پوتیاں شامل تھے.مجھے رقص کرتی خواتین نظر نہیں آئیں کرسیوں پر کھڑی ایک دو بچیوں کے حوالے کیمرا کیا کہ تصاویر لے دیں مگر سٹیج بہت دور تھا. عمران خان نے اپنے روایتی انداز میں تقریر کی. خان صآحب کی تقریر کے دوران شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا.اکثر شرکا خان صاحب کی ایک جھلک پانے کے لئے بے تاب تھے. خان صاحب نے شرکا کو صداقت عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنے کی تلقین کی. خط غربت کے تلے زندگی گزارنے والے گیارہ کروڑ ہم وطنوں کی زندگی بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا.اور نواز شریف کو ابھی استعفی نہ دینے کا مشورہ دیا تاکہ وہ قوم کی بیداری ک مہم چلا سکیں.

یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جلسے کے شرکا کی اکثریت اپنی خوشی سے اپنی سواری پر تبدیلی کی خواہش لئے جلسہ گاہ تک آئی تھی. جلسے میں اوور سیز پاکستانیوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد نظر آئی. ان میں سے اکثر گرمی اور حبس سے نڈھال تھے مگران کا جذبہ قابل تعریف ہے.
u3_images.jpg

قارئین کو بتاتی چلوں کہ اسی سبزہ زار پر تحریک انصاف دو جلسے کر چکی ہے.ان دونوں کا آنکھوں دیکھا حال عالمی ا خبار پر پیش کیا تھا.آج کا تیسرا جلسہ سابقہ جلسوں سے تین گنا بڑا تھا.پندرہ بیس ہزار لوگ تو میٹرو کے ٹریک پر جلسہ گاہ سے باہر تھے. ہزاروں لوگ سبزہ زار کے باہر سڑکوں پر تھے. کم ازکم تین لاکھ کا اجتماع تھا.لاہور نے ثابت کر دیا کہ وہ روایتی موروثی سیاست کے خلاف ہے.دھرنے کے چوالیس دنوں میں عوام کے سیاسی شعور میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے

جلسے میں ترانہ گونجتا ہے
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
پھر صدا لگتی ہے
تبدیلی آ گئی ہے
پھر عوام یک زبان ہو کر اپنا مطالبہ دھراتے ہیں
گو نواز گو
 

زرقا مفتی

محفلین
کراچی: لاہور جانے والی قومی ایئر لائن کی پرواز کی روانگی میں تاخیر سے تنگ آئے ہوئے مسافروں نے ایئرپورٹ پر احتجاج کرتے ہوئے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا دیئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی سے لاہور جانے والی قومی ایئر لائن کی پرواز کو صبح ساڑھے 8 بجےروانہ ہونا تھا تاہم 8 گھنٹے گزر جانے کے باوجود پرواز روانہ نہ ہوسکی اور مسافر ایئرپورٹ پر پرواز کی روانگی کا انتظار کررہے ہیں، پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے مسلسل نیا وقت دینے کے بعد پرواز کے مسافروں نے احتجاج کرتے ہوئے ایئرپورٹ پر ہی ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔

واضح رہے کہ کچھ روز قبل کراچی ہی سے اسلام آباد جانے والی ایک پرواز میں 2 ارکان پارلیمنٹ کے باعث ڈھائی گھنٹے تاخیر ہوئی تھی جس پر مسافروں نے احتجاج کرتے ہوئے دونوں ارکان کو طیارے سے باہر نکال دیا تھا۔
http://www.express.pk/story/291539/
 

آبی ٹوکول

محفلین
اللھم صل وسلم وبارک محمد بعدد کل معلوم لک دائما ابدا
جزاللہ عنا سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ما ھو اہلہ
اللھم صل علی محمدن النبی الامی وعلٰی آلہ وسلم تسلیما
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضٰی لہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی ایک طرف وزیر اعظم کو استعفٰی پیش کرتے ہوئے دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ ایک غیرمؤثر اور کمزور وزیر بن کر نہیں رہنا چاہتے اور وہ نام کا وزیر بننے کی بجائے قلم دان چھوڑنے کو ترجیح دیں گے ۔ لیکن دوسری طرف جب وزیر اعظم ان کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے اور انکی شکایت پر ایکشن لینے کے بجائے محض یہ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب اپنا کام جاری رکھیں،تو خواجہ صاحب کی ساری بے بسی کافور ہوجاتی ہے۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک کمزور اور غیر مؤثر وزیر ہیں ۔ جھنڈے والی کار اورکابینہ کہ اجلاس میں دھری ہوئی ایک کرسی دراصل اتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اسکی خاطر ایک کمزور اور غیر مؤثر وزیر بھی بننا پڑے اور وزارت ہائی جیک بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ۔
مسلم لیگ کی حکومت کتنی " باعزت " ہے اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ایک معروف اتھلیٹ کہ بقول پنجاب کہ ایک سینئر وزیر نے یوتھ فیسٹول میں انھے طلائی تمغہ پہنایا، مگر پھر یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ انھے چیک دیا جائے گا۔ چیک بینک میں جمع کروایا گیا تو وہ باؤنس ہوگیا نوسر بازی کی یہ ایک پست مثال ہے ۔۔۔۔
کالم : اظہار الحق بعنوان " شہنشاہ معظم " ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
مجھے تو اس کالم کی پہلی چند لائنز پڑھ کر ہی بہت ہنسی آئی
کس خوشی مین اور کونسے کارنامے کی بنیاد پر پاکستانی انٹیلی جنس خود کو ماہر سمجھتی یا کہلواتی ہے کسی احمق کو بھی پاکستان مین ہونے والی دہشتگردانہ کاروائیوں کی تفصیل دی جائے تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے گا اس دعوٰے پر اور داد کے ڈونگرے آپ سب کے لیے جو ایسے احمقانہ کالمز پڑھتے اور پھر انہیں شئیر بھی کرتے ہیں
 

زیک

مسافر
نیٹ پر عمران خان اور نواز شریف کے پیروکاروں کی باتیں پڑھ کر محظوظ ہو رہا ہوں۔ عجیب و غریب دعوے ہو رہے ہیں
 
Top