http://www.aalmiakhbar.com/admin.ph...w&id=47152&s=6359157c2d4096f9b4933acbb9357666
لاہور شہر سیاسی اعتبار سے ایک ممتاز تشخص کا
حامل ہے. تاریخ گواہ ہے کہ بہت سی کامیاب سیاسی تحاریک کا آغاز اسی شہر سے ہوا. اسی شہر بے مثال کے ایک سبزہ زار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی. میرےمرحوم نانا ابو اور میرے سسر اس تاریخی جلسے میں شریک ہوئے تھے.
آج پھر ہماری منزل وہی سبزہ زار تھا .آج ہم اسی عہد کی تجدید کے لئے جا رہے تھے جو ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی آزادی کے حصول کے وقت کیا تھا. سڑسٹھ سال پہلے ہمیں غیر ملکی استعمار سے آزادی تو مل گئی مگر ہمیں ایک استحصالی نظام کااسیر بنا دیا گیا. آج ہم اس فرسودہ نظام سے آزادی کی قرارداد منظور کروانے نکلے تھے
ٹی وی سے معلوم ہوا کہ قائد تحریک کا خطاب شام سات بجے متوقع ہے اس لئے سہ پہر پانچ بجے گھر سے نکلے. نہر سے ٹھوکر موڑ گئے اور پھر موٹر وے سے سگیاں انٹر چینج سے ہوتے ہوئے موہنی روڈ اور بلال گنج کی طرف سے مینار پاکستان پہنچنے کا ارادہ کیا. کیونکہ شہر میں ٹریفک جام کی خبریں تھیں. سگیاں تک تو پندرہ منٹ میں پہنچ گئے مگر موہنی روڈ پر آزمائش شروع ہو گئی سڑک پر نوجوانوں کی ٹولیاں گو نواز گو کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں تھیں. ہر ایک دو لمحے بعد موٹر سائیکل سوار منچلے بھی گزرتے کچھ کارکنان چنگ چی رکشوں پر بھی سوار تھے.
قطاروں میں لگی گاڑیوں میں فیملیز جلسہ گاہ کی طرف رواں دواں تھیں. بلال گنج سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک چبوترے پردس سال سے کم عمر بیس پچیس بچے بچیاں گو نواز گو کے نعرے لگا رہے تھے. مغرب کا وقت ہو گیا تو مفتی صاحب نے ایک مل کے پاس گاڑی کھڑی کر دی اور ملحقہ مسجد میں نماز ادا کی. نماز کے بعد پھر سفر شروع ہوا مگر مین سڑک تک پہنچنے میں لگ بھگ پینتیس منٹ لگ گئے. گاڑی نکالنا نا ممکن ہوتا اگر کچھ رضا کار گاڑی کے راستہ نہ بنواتے. تاہم مرکزی سڑک پر نکلتے ہی معلوم ہوا کہ گاڑی پارکنگ تک لے جانا ممکن نہیں. ہم سے اگلی گاڑیوں کے مسافر گاڑیاں بیچ سڑک کے لاک کر کے اتر گئے تو ہمیں بھی یہی کرنا پڑا
سڑک پر اتنی بھیڑدیکھ کرنیں نے مفتی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا. دو رویہ سڑک پر سروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا. دو سڑکوں کے درمیان میٹرو کا ٹریک ہے اس پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا. سڑک پر دو بےکار چکر لگانے کے بعد میٹرو ٹریک پر کھڑی پولیس سے سبزہ زار تک پہنچنے کا راستہ دریافت کیا. کوئی دوسو گز چلنے کے بعد میٹرو ٹریک کے نیچے ایک تنگ راہداری کے ذریعے سبزہ زار کے قریب پہنچے. سڑک اور سبزہ زار کی تفریق مٹ چکی تھی. کیونکہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی. اور لوگ باہر کھڑے تقاریر سن رہے تھے. ایک دو نوجوانوں سے فیملیز کے اندر جانے کے راستے کے بارے معلوم کیا تو کہنے گے بہتر ہے آپ باہر ہی رہیں اندرجگہ نہ ہونے کے باعث حبس اور گھٹن ہے. اسوقت جناب اعجاز چوہدری نے داتا کی نگری کے باسیوں سے پنجابی میں خطاب شروع کیا. دن چینل کی وین ہمارے قریب کھڑی تھی جس کی چھت پر اس کا سٹاف بیٹھا تھا. کیمرا ایک نوجوان کو دیا کہ چھت سے کچھ تصاویر لے دے. اب میں سبزہ زار کے جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی. نوجوان جنگلے سے چمٹے ہوئے تقاریر سن رہے تھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے آئے ہیں پریشان تھے کہ جلسے میں نظم کا فقدان ہے. میں نے سمجھایا کہ لاکھوں کے ہجوم کو منظم کرنا اسی صورت ممکن ہوتا کہ سبزہ زار کو رقبے کے لحاظ سے تقسیم کر کے آپ جیسے نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دیتے اب میرے ساتھ دو بچیاں بھی جنگلے کے قریب آ کھڑی ہوئیں .اتنے میں عشاء کا وقت ہو گیا مفتی صاحب نماز کے لئے چلے گئے.
لوگوں کی آمد جاری تھی. زیادہ فیملیز نظر آئیں. بچیاں پارٹی پرچم کے رنگوں کے کپڑوں میں ملبوس. اکثر کے چہروں پرسرخ اور سب پینٹ. لڑکوں کی ٹی شرٹس پر عمران خان کی تصویر. سر پر پرچمی ٹوپیاں یا گلے میں سرخ سبز مفلر. ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے لہراتے ہوئے اس نظارے کو دیکھ کر سب سازشی ذہنوں پر نفرین بھیجنے کو دل چاہا. اب یہ سازشی تھیوریاں بنانے والے بتائیں کہ کونسے فوجی جنرل کے کہنے پر یہ لاکھوں لوگ اس سبزہ زار پر جمع ہیں مفتی صاحب نماز پڑھ کر لوٹے تو ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہجوم میں داخل ہو گئےکیونکہ.جلسہ گاہ میں فون سروس معطل تھی.سبزہ زار میں داخلی راستوں پر تحریک کے رضاکار فرائض انجام دے رہے تھے. خواتین کا بے حد احترام ملحوظ رکھا جا رہا تھا. سبزہ زار کے اندر جا کر ایسے لگا کہ جیسے پورا شہر یہیں ٹوٹ پڑا ہے. کہیں کہیں کرسی نظر آرہی تو اس پر نوجوان کھڑے ہاتھوں میں موبائل ہیں تصاویر بنا رہے ہیں.تقریر کے دوران نغمہ بجتا تو تالیاں بجاتے گو نواز گو کا نعرہ لگتا تو شہر کا شہر یک زبان ہو کر نعرہ لگاتا ایک نیک دل نوجوان نے مجھے بغیر کہے کرسی لا دی.
شیخ رشید صاحب نے قربانی سے پہلے قربانی ہونے کی پیش گوئی دھرائی تو عوام بہت خوش ہوئے شاہ محمود قریشی نے اہل لاہور کو کئی بار سلام پیش کیا. میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھیں تھیں جو اپنی تین بچیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ جلسے میں آئی تھیں ہم سے آگے ایک اور خاندان تھا جس میں ساس بہوئییں اور پوتے پوتیاں شامل تھے.مجھے رقص کرتی خواتین نظر نہیں آئیں کرسیوں پر کھڑی ایک دو بچیوں کے حوالے کیمرا کیا کہ تصاویر لے دیں مگر سٹیج بہت دور تھا. عمران خان نے اپنے روایتی انداز میں تقریر کی. خان صآحب کی تقریر کے دوران شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا.اکثر شرکا خان صاحب کی ایک جھلک پانے کے لئے بے تاب تھے. خان صاحب نے شرکا کو صداقت عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنے کی تلقین کی. خط غربت کے تلے زندگی گزارنے والے گیارہ کروڑ ہم وطنوں کی زندگی بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا.اور نواز شریف کو ابھی استعفی نہ دینے کا مشورہ دیا تاکہ وہ قوم کی بیداری ک مہم چلا سکیں.
یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جلسے کے شرکا کی اکثریت اپنی خوشی سے اپنی سواری پر تبدیلی کی خواہش لئے جلسہ گاہ تک آئی تھی. جلسے میں اوور سیز پاکستانیوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد نظر آئی. ان میں سے اکثر گرمی اور حبس سے نڈھال تھے مگران کا جذبہ قابل تعریف ہے.
قارئین کو بتاتی چلوں کہ اسی سبزہ زار پر تحریک انصاف دو جلسے کر چکی ہے.ان دونوں کا آنکھوں دیکھا حال عالمی ا خبار پر پیش کیا تھا.آج کا تیسرا جلسہ سابقہ جلسوں سے تین گنا بڑا تھا.پندرہ بیس ہزار لوگ تو میٹرو کے ٹریک پر جلسہ گاہ سے باہر تھے. ہزاروں لوگ سبزہ زار کے باہر سڑکوں پر تھے. کم ازکم تین لاکھ کا اجتماع تھا.لاہور نے ثابت کر دیا کہ وہ روایتی موروثی سیاست کے خلاف ہے.دھرنے کے چوالیس دنوں میں عوام کے سیاسی شعور میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے
جلسے میں ترانہ گونجتا ہے
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
پھر صدا لگتی ہے
تبدیلی آ گئی ہے
پھر عوام یک زبان ہو کر اپنا مطالبہ دھراتے ہیں
گو نواز گو