عمران خان اور تبدیلی کی ضرورت
سڑک پر قبضہ کر کے اپنے تمام مطالبات کو من و عن منوانے کی جو روایت شروع کر دی گئی ہے اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا..
طلعت حسین پير 29 ستمبر 2014
تبصرےصفحہ شیئر کریں صفحہ پرنٹ کریں دوستوں کو بھیجئے
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12
سیانے کہتے ہیں حقائق تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی شخص اپنے بارے میں جانتا ہے۔ دوسرا وہ جو لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور تیسرا وہ جو اصل حقیقت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کو سامنے رکھیں تو پاکستان کے عوام اور سیاسی ثقافت میں جن غیر معمولی تبدیلیوں کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے وہ غیر فطری اور سچ سے بہت حد تک عاری لگتی ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ یا پارلیمان میں ان کے ساتھیوں کا تجزیہ سن لیں تو کچھ ایسا تصور پیدا ہوتا ہے کہ جیسے 67 سال کی تاریخ میں ان دھرنوں سے بڑی سیاسی جھک دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ مگر حقیقت ان دونوں انتہائوں کے درمیان کہیں موجود ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان دھرنوں نے ملک میں سیاسی انتشار کے قریب ترین کیفیت پید اکی ہے۔ ریاستی امور اور حکومتی معاملات اگر مکمل طور پر مفلوج یا معطل نہیں ہوئے تو بری طرح متاثر ضرور ہوئے ہیں۔ پھر عسکری اور سویلین قوتوں کے درمیان سرد جنگ کو ہوا دینے میں اس تمام معاملے کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ سیکڑوں گھنٹے جو اس قوم نے ذہنی کوفت اور ممکنہ ہنگاموں کے خوف میں گزارے ایسا نقصان ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔ تقاریر کے دوران لگائے ہوئے الزامات اور تضحیک کے زخم گہرے ہیں۔ ان کے نتائج ان نفرتوں کی صورت میں حا صل ہوں گے جو ذہن اور دل کی گہرائیوں سے امڈیں گی۔ سڑک پر قبضہ کر کے اپنے تمام مطالبات کو من و عن منوانے کی جو روایت شروع کر دی گئی ہے اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ سندھ میں ابلنے والا احتجاج وہی شکل اختیار کرسکتا ہے جس کو اسلام آباد میں بڑے چائو اور لاڈ کے ساتھ پال پوس کر انقلاب کی کنگھی پٹی کر کے پارلیمان کے سامنے دھکیل کر سارے نظام کا ڈھول پیٹنے کے لیے کھڑا کر دیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی بہت سی پالیسوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر الطاف حسین کے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اگر ان کی جماعت کراچی سے اٹھ کر اسلام آباد میں ایسا ہی دھرنا دیتی اور پھر وہ کچھ کرتی جو عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے کیا تو ریاست کے ادارے ان کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے؟ اس طرح اگر سندھی قوم پرست شاہراہ دستور پر آن کر پولیس کی گت بناتے، وزیر اعظم ہائوس پر یلغار کرتے اور یہاں سے گزرنے والے ہر کسی کی تلاشی لے کر ایک متوازی انتظامیہ کھڑی کر دیتے تو عدلیہ، فوج اور سیاسی جماعتیں ان سے ایسی ہی درگزر کرتیں جیسے اب دیکھنے میں آ رہا ہے؟ کیا ذرایع ابلاغ سندھی قوم پرستوں کی تقاریر کو ویسے ہی نشر کرتا جیسے پچھلے ڈیرھ ماہ میں کیا گیا ہے۔
یہ سب انتہائی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس کو محض بے مغز تنقید قرار دے دینا از خود عقل پر پتھر ڈالنے کے مترادف ہے۔ دھرنوں نے اس نظام میں جو پیچیدگیاں پیدا کی ہیں ہم سب ان کو ایک طویل عرصے تک بری طرح بھگتیں گے۔ اس مثال کو ہر کوئی نقل کرے گا۔ ریاست ایسے امتحان میں پڑ سکتی ہے جس کا پرچہ حل کرنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ تبدیلی کا یہ پہلو ہضم کرنا مشکل ہو گا مگر اس کے باوجود ان دھرنوں کی افادیت اور ان سے پیدا ہونے والی مثبت صورت حال کو خاطر میں نہ لانا بھی نامعقولیت کی حد ہو گی۔ عمران خان کی نہ ختم ہونے والی تقاریر اور میڈیا کی لا متناہی تشہیر نے ایسے درجنوں معاملات جو اہم ہونے کے باوجود غیر ضروری، مشکل، پیچیدہ مناظروں یا قانونی بحث کے نیچے دب چکے تھے اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
جس طرح وکلاء تحریک نے خشک آئینی شقوں کو مسلسل احتجاج کے توسط سے گھریلو خواتین اور بچوں کے لیے عام فہم قاعدے میں تبدیل کر دیا تھا کچھ ایسے ہی دھاندلی، اقربا پروری، موروثی سیاست، بدعنوانی، اجارہ داری، عوام کے بنیادی حقوق، احتجاج وغیرہ کے معاملات ان دھرنوں کے ذریعے ایک ریلے کی طرح ابھر کر واضح ہو گئے ہیں۔ عمران خان تقریر کے فن سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ان معاملات کو انتہائی سادہ الفاظ میں بیان کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر یہ کمی اس لحاظ سے ایک بڑے فائدے میں تبدیل ہو گئی ہے کہ نئی پود اور نسبتاً کم پڑھا لکھا طبقہ یہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے۔ یا کم از کم یاد رکھ سکتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کمزور اور نامکمل سیاسی تربیت ہے۔ عمران خان نے شعور نہیں ناسمجھ احتجاج کی ترویج کی ہے۔ کسی حد تک یہ الزام درست ہو گا۔ مگر اس نظام میں موجود کڑے جبر کے ہوتے ہوئے اپنے حقوق جاننے اور ان کو پانے کا کوئی اور طریقہ بھی تو نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ توقع نہیں کرتا کہ نوازشریف، آصف علی زرداری یا ان جیسے دوسرے سیاسی دھڑوں کے نمایندگان قوم کی نئی نسل کو ایسے جگائیں گے کہ ان کی اپنی طاقت کمزور پڑ جائے۔ یہاں پر کوئی موجودہ سیاسی قوت یہ انتظام نہیں کرے گی کہ اس کے اپنے پیروں سے زمین کھسک جائے۔
اس کے لیے ایک تیسری قوت کی ضرورت تھی جو سارے نظام کو اس برے طرح جھنجھوڑے کہ دہائیوں سے بنائی ہوئی طاقت کی ترتیب متاثر ہو اور برسوں سے الجھنوں کا شکار اذہان مستقبل کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی رائے بنا سکیں۔ جوان نسل میں اس سوچ کے آثار واضح ہیں۔ سیاست سے دور اپنی جوانی کے جوش میں مدہوش لاکھوں نوجوان ان دھرنوں کی وجہ سے سیاست اور انداز حکمرانی میں فوری اور حقیقی تبدیلی کو اپنے اچھے مستقبل کی امید کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گو نواز گو کا نعرہ احسن اقبال کے لیے بڑی سیاسی علت ہو گا یا حمزہ شہباز شریف کے لیے باعث شرمندگی مگر ان نعروں کو لگانے والے وہ آوازیں اٹھا رہے ہیں جن کو پہلے کوئی سنتا نہیں تھا۔ اپنی بے بسیوں اور عذابوں سے خاموش معاہدہ کرنے والے بہت سے طبقات اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا پاکستان سے ان کو بے ثمر مشقت ہی ملے گی یا وہ بھی کچھ اچھے دن دیکھیں گے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو آنے میں دیر کر رہی تھی مگر جس کو دھرنوں نے دھکا دے کر حکمران طبقات کے سامنے ایک اکھڑ، لاغر مگر مستقل مزاج مطالبوں کے ہجوم کی صورت لا کھڑا کیا ہے۔ اس ہجوم کو مطمئن کیے بغیر پاکستان چلانا یا طاقت میں رہنا بہت مشکل ہو گا۔
عمران خان نے دھرنے کے ذریعے پیچیدہ مسائل بھی کھڑے کیے ہیں اور الزامات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ مسائل میں اضافہ کرتے ہیں یا تبدیلی کے مواقع بڑھا کر ایک حقیقی اور دیرپا سیاسی انقلاب بپا کر سکیں گے اس کا انحصار ان اقدامات پر ہیں جو وہ اس وقت اٹھائیں گے۔ اگر وہ کیمروں کے سامنے گھٹتے ہوئے اجتماع سے خطاب کر کے نت نئے وعدے کرنے پر ہی اکتفا کرتے رہے تو وہ خود کو بھی خوار کریں گے اور ایسے فساد کا باعث بن جائیں گے جو ابھی تک کی تمام کوشش پر پانی پھیر دے گا۔ مگر دوسری طرف بیماری اور تعفن سے اٹے ہوئے اس ماحول سے باہر نکل کر وہ خود کو بڑے پیمانے کی تبدیلی کے لیے ایک نئے سفر پر مامور کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد ڈی چوک میں کنٹینر دھرنے کی افادیت کی معیاد ختم ہوئے عرصہ ہو گیا ہے۔ اس کو قائم رکھنے پر اصرار ایک فضول اور مہنگی ضد ہے۔ عمران خان اپنی ضد پو ری کر سکتے ہیں یا تبدیلی کی ضرورت۔ دونوں کو یکجا کریں گے تو اپنے خلاف خود ہی سازش کریں گے۔