آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
ISLAMABAD: An additional sessions judge has ordered the Secretariat police to register a case against Prime Minister Nawaz Sharif and 10 others while disposing of a petition filed by Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) over the alleged killing of three political activists on August 30.

The court had done so while disposing of a petition filed by the party and had directed the police to follow the law after which the police registered the case under Section 7 of the ATA and PPCs 302, 324, 148, 149.

http://www.dawn.com/news/1134695/court-orders-fir-against-pm-nawaz-10-others
 

زرقا مفتی

محفلین
Byh0eTbCMAAYosE.jpg



لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف کی تقریر کے دوران اس وقت بد نظمی پیدا ہو گئی جب ایک خاتون نے کھڑے ہو کر ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حمزہ شہباز شریف کو لاہور کے الحمرہ ہال میں سیاحت کے حوالے سے منعقد پروگرام کی تقریب سے 11 بجے خطاب کے لئے آنا تھا لیکن وہ 2 گھنٹے کی تاخیر سے ایک بجے تقریب میں پہنچے اور جب حمزہ شہباز تقریر نے تقریر شروع کی تو ہال میں موجود ایک خاتون نے کھڑے ہو کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے جس پر حمزہ شہباز کو اپنی تقریر مختصر کر کے تقریب سے جانا پڑا۔ اس کے بعد حمزہ شہباز جب ہال سے باہر جا رہے تھے تو پورا ہال ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

شرکاء کا کہنا تھا کہ ہم یہاں صبح 8 بجے سے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں نہ ہی ہمیں پانی اندر لے کر آنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کھانے کی اشیاء، گرمی سے برا حال ہو گیا ہے اور حمزہ شہباز 2 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کو سیاحت کے موضوع پر گفتگو کرنی تھی لیکن وہ ادھر بھی اپنی سیاست چکماتے رہے اور دھرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے جس پر شرکاء آپے سے ہار آ گئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔

http://www.express.pk/story/291319/
 
آخری تدوین:

آبی ٹوکول

محفلین
گو نواز گو کا نعرہ ایک سے زیادہ گوگل زبانوں میں۔۔
اخرج نواز اخرج
Fuera Nawaz Fuera
gaan Nawaz gaan.
shkoni Nawaz shkoni.
যান নওয়াজ যান.
գնալ Nawaz գնալ.
getmək Nawaz gedin.
gehen Nawaz gehen
ісці Наваз ісці.
idi Nawaz ići.
отида Наваз отида.
ಹೋಗಿ ನವಾಜ್ ಹೋಗಿ.
anar Nawaz anar.
adto Nawaz moadto
jít Nawaz jít.
纳瓦兹·去走。
納瓦茲·去走。
이동 나와 즈 이동합니다.
ale Nawaz ale.
go Nawaz ići.
gå Nawaz gå.
ísť Nawaz ísť.
pojdi Navaza iti.
iri Nawaz iri.
minna Nawaz minna.
go Nawaz joan.
Siirry Nawaz mennä.
aller Nawaz aller.
mynd Nawaz fynd.
ir Nawaz ir.
წასვლა nawaz წასვლა.
πάει Ναουάζ πάει.
જાઓ નવાઝ જાઓ.
je Nawaz tafi.
ללכת נוואז ללכת.
जाने नवाज जाना.
mus nawaz mus.
ga Nawaz gaan.
megy Navaz menni.
gaa nawaz gaa.
pergi Nawaz pergi.
Nawaz dul dul.
Nawaz fara fara.
Nawaz go go.
ナワズゴーゴー。
Nawaz pindhah pindhah.
Nawaz ໄປໄປ.
Ite, ite Nawaz.
nawaz go go.
Наваз одат оди
Nawaz haere haere.
नवाज जा जा.
Наваз очиж явна.
नवाज जाओ।
نواز بروید.
nawaz ir ir.
ਨਵਾਜ਼ ਜਾਣ ਜਾਣ.
Nawaz go go.
Nawaz go go.
Nawaz go go.
Nawaz go go.
Наваз идти идти.
Наваз го го.
Nawaz tago.
Nawaz go go.
Nawaz go go.
nawaz pumunta pumunta.
นาวาซไปไป
நவாஸ் போய்.
నవాజ్ గో గో.
nawaz go go.
Наваз йти йти.
نواز جاؤ.
nawaz đi đi.
נאַוואַז גיין גיין.
Nawaz lọ lọ.
Nawaz hamba go.
 

حسینی

محفلین
بالکل صحیح ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ کیا وہ احتجاج کرنے والے ڈنڈوں میں چھے انچ کی میخیں لے کر آئے تھے ؟ کیا وہ احتجاج کرنے والے اپنے ساتھ کرین لے کر آئے تھے جس سے سرکاری عمارت کا گیٹ اکھاڑا جاسکے ؟ پارلیمنٹ میں خیمے وہاں بھی لگے تھے ؟ ٹی وی سٹیشن پر وہاں بھی قبضہ کیا گیا تھا ؟ کیا وہاں بھی احتجاجی سیکرٹریٹ کے ملازمین کے کارڈ چیک کر کے واپس کرتے تھے ۔ کیا وہاں بھی ایس ایس پی کے سر پر میخوں والے ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا تھا ؟ کیا وہاں کی آرمی کے سربراہ کی ٹیلفون کال پر دھرنے کے سربراہ فورآ نہ دن دیکھا نہ رات ایسے ہی خوشی خوشی سیاسی اور جمہوری عمل کو فروغ دینے گئے تھے؟ ۔ اور اگر یہ مضمون حقائق پر مبنی ہے تو کبھی جھوٹ نہ بولنے کا دعویٰ کرنےوالا کپتان یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ 45 دن کا دھرنا دے کر ہم نے ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا جبکہ اس مضمون کے مطابق وہاں دھرنا 73 روز جاری رہا ۔ اب اللہ جانے جھوٹا کون ہے ۔

سوالات اٹھانا تو نہایت آسان کام ہے۔۔۔ لیکن حل بتانا مشکل۔
مقابل میں یہ بھی ذرا سوچیے۔۔۔۔ کہ لاتوں کے بوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔۔ ظالم شاید مظلوم کی چیخ سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کیا احتجاج کرنے والے خصوصا منہاج القرآن والے مظلوم نہیں ہیں؟۔۔۔ کہ جن کے کم از کم چودہ لوگوں کو دن دیہاڑے حکومت کی سرپرستی میں نہایت بے دردی سے شہید کیا گیا۔۔۔ اور لگ بھگ سو شدید زخمی۔
اک خاتون ایسی تھیں جن کے منہ میں سیدھی گولی چلائی گئی۔۔ دو، اڑھائی ماہ ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دیا۔۔ ایسے میں عوام انصاف کہاں سے مانگیں؟ مجرموں کو ابھی تک گگرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا نواز گورنمنٹ کی موجودگی میں ممکن ہے قاتلوں کو سزا ملے؟ کیا یہ گورنمنٹ انصاف کے راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہی؟
کیا عمران کا مطالبہ کہ پاکستان میں فری اینڈ فئیر الیکشن ہو درست نہیں؟ کیا موجودہ حکومت دھاندلی کی بنیاد پر وجود میں نہیں آئی؟ ایسے میں اس کو کیا اخلاقی وقانونی حیثیت رہ جاتی ہے؟ پس ان سے استعفی کا مطالبہ کیوں نادرست ہے؟
کیا عوام کی رائے اسی طرح چوری ہوتی رہے گی؟
کیا پی پی، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام اور بہت سی پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں دھاندلی کا اعتراف نہیں کیا؟؟ پھر بھی اس ظالم حکومت کا کیوں ساتھ دے رہے ہیں؟

اتنے سارے لوگ، اتنے دنوں سے ، پر امن اپنے آئینی حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔۔۔ یقینا ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔۔۔ نہ کہ حوصلہ شکنی۔
 

حسینی

محفلین
ISLAMABAD: An additional sessions judge has ordered the Secretariat police to register a case against Prime Minister Nawaz Sharif and 10 others while disposing of a petition filed by Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) over the alleged killing of three political activists on August 30.

The court had done so while disposing of a petition filed by the party and had directed the police to follow the law after which the police registered the case under Section 7 of the ATA and PPCs 302, 324, 148, 149.

http://www.dawn.com/news/1134695/court-orders-fir-against-pm-nawaz-10-others
عدالتی احترام کا شور مچانے والے اس حکم کو بھی ہوا میں اڑا دیں گے۔۔۔۔
اسلام آباد کے اسکولوں سے پولیس کو نکالنے کا بھی عدالت حکم دے چکی ہے۔۔۔ لیکن کافی پس وپیش کے بعد کچھ اسکولوں سے مجبورا اتنے دنوں بعد پولیس کو نکال دیا۔۔۔
پریشر کرنا چاہتے تھے کہ اسکولز دھرنے والوں کی وجہ سے بند ہیں۔۔۔ حالانکہ دھرنے والے ایس جگہ پر ہیں جہاں عام عوام کا پہلے ہی داخلہ ممنوع تھا۔۔ عام عوام کو اس سےرفت وآمدوغیرہ میں فرق کیا پڑنا ہے؟
 

حسینی

محفلین
لندن پلان اے بی سی۔ ساختہ رائے ونڈ...ایازا میر
239483_s.jpg

لندن کو بدنام کیوں کرتے ہیں؟جس طرح کے زیرک منصوبے اور چالبازیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، ان کے سوتے سورج تلے اُسی سرزمین سے پھوٹتے ہیں جسے مقامی زبان میں رائے ونڈ کہتے ہیں ۔ پنجاب کی ذہین فطین انتظامیہ، جس کے سربراہ خادم ِ اعلیٰ ہیں اور جس کے من میں یہ روشن خیال سمایا کہ علامہ قادری کو سبق سکھانا چاہئے، لند ن میں نہیں ، لاہور میں اپنی موجودگی رکھتی ہے۔ علامہ صاحب کے ماڈل ٹائون کے ایک کنال کے گھر کے باہر لگائے جانے والے بیرئیرز، جن کو لگانے کی اجازت لاہور ہائی کورٹ سے حاصل کی گئی تھی، کو ہٹانے کے لئے کیا جانے والا پررعونت فیصلہ گریٹر کونسل لندن کا نہیں، پنجاب حکومت کا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والی فورس، جو پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو سبق سکھانے آئی ، لندن میٹروپولیٹن پولیس نہیں بلکہ ایسے کاموں کی مہارت اور تاریخ رکھنے والی پنجاب پولیس تھی۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ لندن میں دنیا کے عظیم ترین تھیٹر پائے جاتے ہیں لیکن وہ تمام مل کر بھی ہز ہائی نس گلو بٹ جیسا ایک کردار بھی پیش نہیں کرسکتے... این سعادت بزورِ بازو( بشمول ڈنڈا) است۔ ڈنڈا لہراتے ہوئے گلو بٹ کے مناظر جو کیمرے کی آنکھ نے امر کردئیے، لندن اور اس کے مضافات کے ہرگز نہیں۔ چاہے لندن پولیس نے نشانے بازی کی جتنی بھی مہارت حاصل کررکھی ہو، وہ خواب میں بھی لاہور پولیس کامقابلہ نہیں کرسکتی... گن فائر سے دو خواتین سمیت چودہ افراد ہلاک اور نوے کے قریب زخمی۔ براہ ِراست فائرنگ کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں ، جن میں نوجوان آدمی بھی شامل تھے اور عورتیںبھی،پر بیہمانہ طریقے سے تشدد کرنا ہمارے ماحول کاہی خاصا ہے، لندن کو اس سے معذور ہی سمجھیں۔ اور پھر یہ کوئی انہونی تھی اور نہ ہی کوئی انوکھا واقعہ تھا، بلکہ یہ رائے ونڈ محل کی اہم دفاعی اور خفیہ اداروں کے ساتھ خودساختہ محاذآرائی کی وسیع ترتصویر کا ایک خاکہ تھا۔ مشرف کیس کی کاٹھ کی ہنڈیا.... پہلے اس پر راضی ہوگئے کہ اگر وہ ایک مرتبہ عدالت کے سامنے پیش ہوجائیںتو اُنہیں باہر جانے کی اجازت دے دی جائے گی اور پھر اس مفاہمت سے مکر گئے.... رائے ونڈ محل کے جوشیلے ماحول میں چولہے پر چڑھائی گئی تھی۔ یہ دریائے ٹیمز کے کنارے بننے والی باربی کیو نہیں تھی۔ اگر مشرف کیس برطانیہ کا کوئی مسئلہ ہوتا تو انگریز اس سے مختلف انداز میں نمٹتے۔ وہ کم از کم اتنا خیال ضرور رکھتے کہ اس دوران ہر وہ شخص جس کی شکل پرویز رشید، خواجہ آصف اور سعد رفیق سے تھوڑی سی بھی ملتی جلتی ہے، وہ نہ تو ٹی وی کیمروں کے سامنے آئے اور نہ ہی اپنی زبان کو زحمت دے۔ ان میںسے سعد رفیق کی فخریہ پیشکش کا جواب نہیں ہوتا....’’مرد کا بچہ بن‘‘ ۔ یہ جملہ مشرف کے لئے بولا گیا تھا جب وہ عدالت کے سامنے پیش نہیںہورہے تھے۔دوسری طرف اہل ِ برطانیہ کی پیش کش ، تین جاسوس، نارمن وزڈن، پیٹر سیلرزوغیرہ جیسے کھیل ہوتے ہیں لیکن وہ ان کے کرداروں کا رائے ونڈ کابینہ سے کیا مقابلہ۔
ماڈل ٹائون کیس دائرکرنے سے انکارلندن میں ہوا تھا؟ مانا کہ تاریخ انگریزوںکی چالبازیوںسے بھری پڑی ہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام پر مبنی وسیع وعریض سلطنت ایسے ہی تو قائم نہیںہوگئی تھی لیکن محال ہے کہ لندن میں ایسا پلان بنے کہ چودہ افراد کو سفاکی سے گولی ماردی جائے اور اس کا مقدمہ بھی درج نہ ہونے دیا جائے۔ کسی برطانوی شہری کو یہ بات بتائیں (قتل کا مقدمہ درج نہ ہونے والی) اور پھر اس کا جواب سن کر یاد رکھیں۔ یہاں دو ماہ تک صوبائی حکومت نے پوری کوشش کی کہ مقدمہ درج نہ ہو، لیکن پھر ایک دلیر سیشن جج صاحب نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔اس کے بعد بھی اس میں نامزد وزراء لاہور ہائی کورٹ میں چلے گئے جہاں ایک فاضل جج صاحب نے ایسا فیصلہ سنا دیا کہ عدالتی تاریخ اس کی مثل پیش کرنے سے قاصر ۔ اُنھوںنے پولیس کوہدایت کی کہ اُس وقت ملزموں کو گرفتار نہ کیا جائے جب تک ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ مل جائیں۔ اگر اس کو سند بنالیا جائے تو پھر قتل کا ہر ملزم خوشی سے شادیانے بجاسکتا ہے۔
کیا پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے لاہور کے ہر انتخابی حلقے میں کی جانے والی دھاندلی کا پلان MI 6نے لندن میں بنایا تھا؟لندن والے بچارے تو دھاندلی کے ایسے گرُ خواب میں بھی نہیں سیکھ سکتے۔ یہاں ہر پولنگ اسٹیشن پولیس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اتنی پولیس کبھی انتخابات کے موقع پر نہیں دیکھی گئی۔ انتخابات سے پہلے تمام واقعاتی شواہد مل رہے تھے کہ شہری علاقوں میں حمایت کی چلنے والی ہوا کا رخ عمران خان کی طرف ہے، لیکن شام تک ہوا تو کیا رُت ہی بدل گئی۔ تمام شہرحیرت سے انگلیاں کاٹ رہا تھا کہ ووٹ جس کو بھی ڈالے گئے تھے، گنتی رائے ونڈکی حمایت میں ہی ہوئی۔
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے عمران خان نے ہر قانونی اور عدالتی دروازہ کھٹکھٹا کے دیکھ لیا۔ وہ صرف چار انتخابی حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کررہے تھے، اور دوبارہ گنتی کا آئین میں طریقہ موجود ہے، لیکن کسی نہ کسی بہانے سے اُنہیں ٹالا جاتا رہا۔ مجبور ہوکر اُنہیں اپنے آئینی حق کے لئے سڑکوں پر آنا پڑا۔ کیا یہ کسی لندن پلان کا حصہ تھا؟وزیر ِ اعظم نواز شریف اور ان کے نابغہ ٔ روزگار، فخر شاہجہان بھائی کا کیا ہے، وہ اپنے مسائل کے لئے داعش یا باکوحرم کو مورد ِ الزام ٹھہراسکتے ہیں، لیکن اس تمام معاملے پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی تمام بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اپنے پائوں سے کانٹا نکالے بغیر بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کی عادت نے اُنہیں یہ دن دکھائے ہیں۔ اس میں لندن پلان نہیں، اپنے خبط کا شاخسانہ کارفرماہے۔ اگر سچ بولنے پر کوئی انعام ہوتا تو اُس پر فنانس منسٹر اسحٰق ڈار کا حق ہوتا.... بالکل جیسے پاکستانی فٹ بال ٹیم آسانی سے جرمنی یا برازیل کو ہرا کر اکثر ورلڈ کپ جیت لیتی ہے۔ مسٹر ڈار کی طرف سے کیے گئے بہت سے معاشی تجزئیے فکشن کے عالمی ادب میں جگہ پاسکتے ہیں۔ وہ ایسے دعوے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ پاکستان میں معاشی انقلاب آیا ہی چاہتا تھا بس دھرنوں اور فلڈ نے کام خراب کردیا۔ہمارے ہاں بہت سے معتبر ماہر ین ِ معاشیات موجود ہیں۔ ان کے تجزئیے پڑھیں تو ڈارصاحب کے دعووں کی قلعی کھل جائے گی۔
حکمران خاندان، جو اس سرزمین کو دور دور تک اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے، کو سمجھ نہیں آرہی کہ بنیادی مسلۂ ہے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر ابھی بھی ضیا دور میں جی رہے ہیں جب اقتدار اور مالیات میں عقد ِ ثانی ہوا کرتا تھا۔ بنک قرضہ جات حاصل کرنے اور معاف کرانے جیسے معاشقوں کی بھی گنجائش موجود تھی اور سیاسی طاقت سے ہی کاروبار پر بہار آتی تھی اور گلوں میں رنگ بھرتے تھے۔تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس دور میں ان معاملات میں رائے ونڈکی ہمسری کاشاید ہی کوئی دعویدار ہو۔ 1990 کی دہائی میںبنکوں کے کنسورشیم سے چار بلین روپے کے حاصل کردہ قرض سے آج تک ایک پائی واپس نہیں کی۔ یہ تو ان کے ہنر کی ایک ادنیٰ سی کہانی ہے ، ورنہ اس الف لیلیٰ کے دفتر کے دفتر سیاہ ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل، جس میں آئی ایس آئی اور دیانت داری کے پیکر جنرل (ر) اسلم بیگ نے مہران بنک کے یونس حبیب سے رقم لے کر پی ایم ایل (ن) کے رہنمائوں، جن میں ہمارے دوست جاوید ہاشمی بھی شامل تھے، میں تقسیم کی۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے تعلیم یافتہ افراد کو آج سے پہلے سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اسی طرح نوجوان، طلبہ اور پیش ور افراد بھی روایتی طرز ِ سیاست سے بیزارتھے ، لیکن یہ لوگ اب عمران خان کی دوٹوک باتوں اور علامہ قادری کی شعلہ بیانی کو سن رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے اندر جذبے تحریک پارہے ہیں۔ یادرہے، یہ پاکستانی لوگ ہیں اور ان میں بیشتر کبھی لندن نہیں گئے ۔ اس لئے یہ کسی لندن پلان کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ یہ پاکستان میں برپا ہونے والی تبدیلی کے آثار ہیں۔ آپ اس کا نام جو مرضی پلان رکھ لیں، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو پرانے تخت الٹے جانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
[This post is dedicated to all PTI Women who show up at the Dharna and support the movement openly ; we are proud of you]

"Whoever works righteousness, man or woman, and has faith, verily to him will We give a new life that is good and pure, and We will bestow on such their reward according to their actions." Quran 4:124.

Today I received a signal from Allah that I am on the right path. I knew from the beginning that this path would have its obstacle but did not experience it first hand up until now.

On Sept. 26 PTI-USA staged the largest foreign political protest in US history. People came from all over the United States. Elders, Families, teenagers, children showed up to make their voice heard against the fake government of Nawaz Sharif. Go Nawaz Go was chanted for well over 8 hours and it was arguably the most impactful protest against Nawaz Sharif outside of the Pakistan.

I came along with my wife who has very little interest in Pakistani politics but from the very day that this protest was announced I was surprised by the way she supported me in helping organize this protest. She went out to get material for the dupattas, ordered a special IK kurta for herself and stayed up the night before the protest helping me with the placards. This was a very proud moment for me and on the day of the protest I was gleaming after hearing her chant Go Nawaz Go.

We took many photos together and one of them was posted by the PTI Social Media team on an official page. It was a very proud moment for me and my wife. I felt as though her political life was in its infant stages. This happiness continued till the afternoon of 27th September when I received a message from her at work that look what comments she was getting on that photo.

After looking at the comments I was ashamed at the comments that some people had put. It really upset me that a happy loving couple who showed up to support their country and political party could be hurled such shameful abuses by people. Some of the comments were so upsetting and personal that it was very hard to control my anger. We have a baby on the way and people stooped to such a low level to comment on our future bundle of joy. After a few minutes of pondering over what happened it hit me that Hazrat Ali R.A said, “Surely silence can sometimes be the most eloquent reply.” I decided not to stoop to the low level of the trolls commenting.

It said that behind every successful man their is a woman and behind PTI’s success it is all the mothers and sisters who have stood up against the status quo. These PMLN trolls always try to hurl abuses against women thinking that they are weak but they are PTI’s strength. They say behind every successful man their is a woman and behind PTI’s success it is all the mothers and sisters who have stood up with Imran Khan. I know that being followers of Imran Khan we are working for Naya Pakistan, a Pakistan where women would be given the respect that they deserve, a Pakistan where women would be the backbone to a prosperous Pakistan.

I do not wish to respond to the abuses hurled at me and my wife today. My answer would to take a look at the passion of all our females coming to the dharnas and the love for NAYA PAKISTAN in their eyes. Tabdeeli Aa Nahi Rahi, Tabdeeli Aa Gayi Hai. Our love for Imran Khan is even greater than it was yesterday because of all the hate we have received. We must be doing something right. The day is not far when all these abusers would be hiding in their sack waiting for their master to come rescue them and those masters would be begging for forgiveness from the people of Pakistan.

I would like to end this by a quote of Hazrat Ali R.A. “Jiska Raabta Khuda ke Saath Ho Woh Nakaam Nahi Hota, Nakaam Woh Hota Hai Jiski Umeeden Dunya se Waabasta Hoti Hai.”

Basit Irfan (New York)

Note: PTI Social Media Team strongly condemns PMLN supporters for stooping this low. We also ask PTI supporters to take the high road. We will prevail in this struggle. To the Women of PTI, thank you from the bottom of our hearts for staying strong! Thank you Basit for this note!

10407624_860345657341189_5352653098943148774_n.jpg
 
لاہور سے چلے لاہور واپس

کھیل لمبا ہو گیا ہے
نصرت جاوید ہفتہ 27 ستمبر 2014

291119-NusratJawedNEW-1411752754-345-640x480.JPG

nusrat.javeed@gmail.com
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ عمران خان، منیرؔ نیازی کی ذات اور کلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ ان کی سیاست کا انداز مگر ان کی شاعری سے کافی متاثر نظر آتا ہے۔ شاعر نیازی کو ہمارے قدیم شہر آسیب زدہ اور بدشکل لوگوں سے بھرے نظر آتے تھے۔ اسی لیے ’’شہر سنگدل‘‘ کو تباہ کرنے کے بعد وہ نئی بستیاں آباد کرنے کی خواہش میں مبتلا رہے۔ سیاست دان نیازی کو ’’پرانا پاکستان‘‘ نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کی سفاک گرفت میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔
وہ اس کی جگہ اقبالؔ کے شاہینوں کا ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لگن میں مبتلا ہوئے کئی دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام نجی چینل دن میں کئی بار اپنی معمول کی نشریات روک کر انھیں خلقِ خدا سے مکالمہ کرتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ اس مکالمے کی وجہ سے اپنے گھروں میں بیٹھے لوگ بھی ’’نئے پاکستان‘‘ کے مجوزہ خدوخال پر غور کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں عمران خان کا مرتب کردہ ’’بیانیہ‘‘ اب گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ صحافیوں اور تبصرہ نگاروں میں اس بیانیہ کا تنقیدی جائزہ لے کر نسبتاََ غیر جانبدارانہ انداز میں بیان کرنے کی جرأت باقی نہیں رہی۔ وجہ ان کی وہ خوف ہے جو ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کی مسلسل مذمت کی وجہ سے عمران خان نے ان کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے۔
منیرؔ نیازی نے بھی اپنے ایک مصرعے میں ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ بے چارے تو اس خواہش کو پورا ہوتا نہ دیکھ پائے مگر عمران خان نے ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کے تذکرے سے اپنا مقصد ضرور حاصل کر لیا ہے۔ ’’معروضی اور متوازن‘‘ نظر آنے کی تمنا میں اب صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت بتدریج یہ اعتراف کرنا شروع ہو گئی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان نے ہماری سیاست کے بارے میں لوگوں کو بنیادی سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 30 سالوں سے باریاں لینے والے نااہل، بزدل اور بدعنوان سیاست دان ان سوالات کے مناسب جوابات تو کیا دیتے ان کا سامنا کرنے سے بھی کترانا شروع ہو گئے ہیں۔
میرا ذاتی مسئلہ مگر یہ ہے کہ مجھے سوالات اٹھانے کی دائمی بیماری لاحق ہے۔ اپنے اس ناقابل علاج مرض کی وجہ سے میں اکثر عمران خان کی سیاست کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا رہتا ہوں۔ عالمی اور مقامی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میرا ہمیشہ سے یہ اصرار بھی رہا ہے کہ سیاست بنیادی طور پر چند اہداف متعین کر کے انھیں حاصل کرنے کا کھیل ہے۔ اپنی اس رائے کی بدولت میں یہ کہتا رہا کہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں کے انتخابی نتائج کی مکمل چھان بین کا مطالبہ درحقیقت پاکستان میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی خاطر بلند کیا جا رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ مطالبہ غیر آئینی اور ناجائز وغیرہ بھی کبھی نہیں لگا۔ سیاست بنیادی طور پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اختیار شدہ داؤ پیچ کا نام ہے اور ہر وہ سیاست دان جسے عوامی مقبولیت کا زعم ہو جلد از جلد ریاستی قوت و اختیار کا مالک بننا چاہتا ہے۔
عمران خان یہی سب کرتے مجھے کبھی عجیب نظر نہ آئے۔ سیاست میں لیکن صرف اہداف ہی طے نہیں کیے جاتے۔ اصل کھیل ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنائی حکمت عملی کی صورت ہمارے سامنے کھل کر آتا ہے۔ نئے انتخابات کے حصول سے پہلے عمران خان کے لیے ضروری تھا کہ وہ مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ کو مکمل طور پر مشکوک بنا دیتے۔ اپنے اس مقصد کے حصول میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ بحران میں نواز حکومت کی حلیف نظر آتی ہے۔ مگر قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کی ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو سنیں تو مئی 2013ء کے انتخابی عمل کے بارے میں شکوک و شبہات شدید تر ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔
چوہدری اعتزاز احسن کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہوئی تقریر بھی ان شکوک کا ایک بھرپور دفاع تھا۔ ’’سیاسی جرگے‘‘ کے نام پر چند ’’جمہوریت دوست‘‘ سیاست دانوں کی آنیاں جانیاں بھی اصل میں نواز حکومت کو یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہ رہی ہیں کہ چند اختصاصی حلقوں کے انتخابی نتائج کا سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک بنچ کڑا جائزہ لے۔ اگر ان حلقوں میں دھاندلی کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں۔ مئی 2013ء کے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے کی یہ سب سے ہنر مند ترکیب ہے۔
اسی لیے تو اپنی تندوتیز تقاریر کے باوجود تحریک انصاف کے رہ نما ’’سیاسی جرگے‘‘ میں شامل لوگوں سے مذاکرات میں مسلسل مصروف رہے ہیں۔ عمران خان مگر ’’سیاسی جرگے‘‘ کی اس گہری واردات کو پوری طرح سراہنے کو تیار نہیں ہو رہے۔ نواز شریف سے فوری استعفیٰ حاصل کرنے پر بضد ہیں۔ اس ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک مرتبہ ’’ایمپائر‘‘ کی اُنگلی اٹھنے کی تمنا کا اظہار بھی کر بیٹھے اور اس تمنا نے سیاسی جرگے میں شامل ’’جمہوریت دوستوں‘‘ کو پریشان کر ڈالا اور وہ کچھ دیر کو مذاکراتی عمل سے الگ ہو گئے۔
بہرحال عمران خان اپنی سیاسی گیم کا پہلا راؤنڈ یعنی مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ کو زک پہنچانا جیت چکے ہیں۔ اب راؤنڈ دوسرا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس راؤنڈ کے دوران نواز شریف اب اپنی ضد دکھائیں گے۔ کھیلنے کو کچھ کارڈ ان کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے چند وہ نیویارک سے وطن واپسی کے بعد میز پر ہر صورت پھینکیں گے۔ شاید ان ہی کارڈز کے تدارک کے لیے عمران خان نے اتوار کو تخت لہور کے گڑھ میں جا کر اپنا جلوہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے نتائج حاصل نہ ہوئے تو رحیم یار خان سے لے کر اٹک تک کئی بڑے شہر ہیں جہاں ہفتہ وار جلسوں کے ذریعے عمران خان اپنے بیانیے میں مزید شدت و توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرا راؤنڈ ان جلسوں کی وجہ سے اب تک ہوئے پہلے راؤنڈ سے بھی طویل تر ہو سکتا ہے۔
نواز شریف کا استعفیٰ شاید اس راؤنڈ کے اختتام پر بھی نہ ملے۔ مگر اس راؤنڈ کی طوالت نواز حکومت کو مزید کمزور ضرور کر دے گی۔ خلقِ خدا کو نواز شریف کے ’’مینڈیٹ‘‘ کی صداقت سے خاص سروکار نہیں۔ اسے سستی اور مسلسل بجلی درکار ہے۔ سردیوں میں گیس کا بحران شدید تر ہوا تو حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو جائے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری اب چین سے آنا بھی مشکل نظر آ رہی ہے۔ IMF سے کیے وعدے نبھانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ امریکا افغانستان سے جان چھڑا رہا ہے۔ اس لیے Coalition Support Fund والے ڈالر بھی 2015ء کے آغاز سے ملنا بند ہو جائیں گے۔ ان تمام حالات کے بعد احتجاجی تحریک شدید سے شدید تر ہوتی چلی جائے گی۔ ’’دیوار سے لگے ہوئے‘‘ نواز شریف استعفیٰ مگر پھر بھی نہیں دیں گے۔ ان سے استعفیٰ ’’کوئی اور‘‘ ہی لے سکتا ہے۔ عمران خان سمیت سارے سیاستدان مل کر بھی نہیں۔
مستقبل میں کیا ہونا ہے یا ہو سکتا ہے اس کا ذکر فی الوقت غیر ضروری ہے۔ مجھے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یاد صرف اتنا دلانا ہے کہ 17 جون کے ماڈل ٹاؤن والے واقعہ کے بعد کم از کم تخت لہور کو شہباز شریف سے آزاد کروانا بالکل ممکن دِکھ رہا تھا۔ اگر یہ دونوں حضرات صرف اس ہدف پر اپنی ساری قوت مرکوز رکھتے تو اسلام آباد آنا چند روز کے لیے بآسانی مؤخر کیا جا سکتا تھا۔ شہباز شریف کے بغیر نواز شریف خود کو اسلام آباد میں کافی تنہاء اور بے بس محسوس کرتے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے نواز شریف کے اس Strategic Asset کو تباہ کرنے پر کوئی توجہ ہی نہ دی۔ براہِ راست نواز شریف کو نشانہ بنانے اسلام آباد آ گئے اور کھیل لمبا ہو گیا ہے۔
 
Top