حکومت کے اعمال کا بدلہ ریاست یا ملک سےلینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
رہی ہجوم کی نفسیات کی بات تو اُنہیں دن بدن بھڑکایا اور اُکسایا جا رہا ہے ۔ لوگوں کو نفرت کی آگ میں دھکیل کرتشدد پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم پھر بھی اسے ہجوم کی نفسیات ہی کہیں گے۔
17 دن سے تو ہجوم پر امن تھا
آپ ایک بات یکسر فراموش کر رہے ہیں کہ دو دن میں حکومت نے 43 لوگ قتل کئے ہیں اور 700 زخمی کئے ہیں جن میں 80 کی حالت نازک ہے ۔ کھانے اور پانی کی فراہمی بند ہے ۔ کل ریاستی دہشت گردی کا بہیمانہ مظاہرہ دیکھنے میں آیا ۔
حکومت کہتی ہے کہ 6-7 ہزار کا مجمع تھا۔
6-7 ہزار لوگ اپنا دھرنا چند سو گز آگے لے جانے لگے تو عورتوں پر فائرنگ اور شیلنگ کی گئی جو جلوس میں پیچھے تھے
اتنے مجمعے کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے کتنے شیل درکار تھے ۔
چھ سات گھنٹے مسلسل شیلنگ کی گئی۔
ہجوم نے سانس لینے کے لئے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں پناہ لی ۔
وہاں موجود فوج کے جوانوں نے مرد حضرات کو باہر نکال دیا اور عورتوں بچوں کو پناہ دی اور طبی امداد بھی فراہم کی
علیمہ خان اور کچھ دوسری خواتین کھانا لے کر آئیں تو ان پر بھی تشدد کیا گیا کھانا بھی لوٹ لیا گیا
نفرت کی آگ حکومت نے بھڑکائی ہے
اگر حکومت چار حلقے کھول دیتی انتخابی اصلاحات کر دیتی ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کو انصاف فراہم کر دیتی تو کوئی تحریک جنم ہی نہ لیتی ۔ حکومت کی نااہلی ہے ۔
نواز شریف رمضان میں عمرے کے لئے بارہ دن سعودی عرب مقیم رہے اب تیس دن کے حج پر چلے جاتے اور دھاندلی کی تحقیقات ہونے دیتے اگر سچے ہیں تو ڈرتے کیوں ہیں
مسلم لیگ پنجاب میں پہلے بھی ڈمی وزیر اعلی مقرر کرتی رہی ہے
غلام حید ر وائیں اور پھر دوست محمد کھوسہ
اب بھی کسی ڈمی کو مقرر کر کے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کروا لیتی
شریفین نے شخصی اقتدار کے لئے ملک کو داؤ پر لگا رکھا ہے ۔ اگر انہیں ہٹایا نہیں گیا تو پورے ملک کو پولیس سٹیٹ بنا دیں گے ۔ کل چودہ مارے تھے پھر چودہ سو ماریں گے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا