آزادی مارچ اپڈیٹس

10629774_815304165176956_5551272694349538279_n.jpg

اب یہ15-18سال میں بچوں سے پوتے پوتیاں اور پڑپوتے پڑپوتیاں تو بنانے سے رہا بیچارہ۔
ہماری زبان میں کہتے ہیں "جمدی دا انگورای سَئیئ آ ریندیہ" یعنی پیدا ہوتی کا پھل ہی نظر آ جاتا ہے۔
آگے آگے دیکھیے جناب ہوتا ہے کیا۔
45-50سال پہلے تو بھٹو صاحب بھی اکیلے تھے۔
35-40 سال پہلے نواز شریف نے بھی حمزہ، مریم اور شہباز کے بغیر سب شروع کیا تھا۔
65 سال پہلے خان عبدل غفار خان بھی اسفند یار ولی اور ولی خان کو سیاست میں نہیں لائے تھے۔
 

ابن عباس

محفلین
اب یہ15-18سال میں بچوں سے پوتے پوتیاں اور پڑپوتے پڑپوتیاں تو بنانے سے رہا بیچارہ۔
ہماری زبان میں کہتے ہیں "جمدی دا انگورای سَئیئ آ ریندیہ" یعنی پیدا ہوتی کا پھل ہی نظر آ جاتا ہے۔
آگے آگے دیکھیے جناب ہوتا ہے کیا۔
45-50سال پہلے تو بھٹو صاحب بھی اکیلے تھے۔
35-40 سال پہلے نواز شریف نے بھی حمزہ، مریم اور شہباز کے بغیر سب شروع کیا تھا۔
65 سال پہلے خان عبدل غفار خان بھی اسفند یار ولی اور ولی خان کو سیاست میں نہیں لائے تھے۔
یعنی ہم سب عمران خان کے پوتے پوتیاں اور پڑپوتیاں اور اس کی خاندانی سیاست جو کہ پتا نہیں ہوتی بھی ہے یا نہیں دیکھنے کیلئے 30 ،40 سال انتظار کریں۔ یا حیرت o_O
 
آخری تدوین:
ذرا دو چار گالیاں ثبوت کے ساتھ یہاں پیش کیجئے ۔ ووٹ چرانے والے چور کو کیا کہتے ہیں؟
چور کو چور نہ کہو
شریف کہو
بات صرف یہ ہے کہ آپ کس منہ سے اس پارلیمان کے اندر تشریف لے کے گئے ہیں جسکو آپ جعلی قرار دیتے ہیں؟ کس منہ سے قریشی صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے کارکنوں سے کہا کہ یہ عمارت میرا سیاسی کعبہ ہے- ایک صوبے کا وزیراعلٰی اپنا کام کاج چھوڑ کے بیس دن سے دھرنے میں بیٹھا ہے- کیا یہ چوری اور بے ایمانی نہیں ہے؟ جو پارلیمنٹ جعلی ہے ، اس سے آپکے اراکین تنخواہ اور مراعات کیوں لے رہے ہیں؟ خٹک صاحب نے استعفٰی کیوں نہیں دیا؟ وہ کس حیثیت میں وفاق کے خلاف کھڑے ہیں؟
 
پی ٹیوی جیسا قومی ادارہ کہ جس کے دو شیشے ٹوٹ گئے تو وہ سرعام سب کو دکھاتا رہا لیکن اس کے انہی شیشوں کے باہر جو 500 سے زائد افراد ذخمی کردیئے گئے کہ جنکے ٹیکسوں سے ہر ماہ بطور بتھہ یہی پی ٹی وی جیسا قومی ادارہ وصول کرتا ہے کیا وہ اس قابل بھی نہ تھے کہ یہ پی ٹی وی ذرا انہی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر جھانک انکی بھی فوٹیج دکھا دیتا ۔۔لب لباب رؤف کلاسرہ
دو شیشے؟ بھائی جان ، لوٹ مار ہوئی ہے باقائدہ- نشریات بند رہی ہیں-
 

زرقا مفتی

محفلین
بات صرف یہ ہے کہ آپ کس منہ سے اس پارلیمان کے اندر تشریف لے کے گئے ہیں جسکو آپ جعلی قرار دیتے ہیں؟ کس منہ سے قریشی صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے کارکنوں سے کہا کہ یہ عمارت میرا سیاسی کعبہ ہے- ایک صوبے کا وزیراعلٰی اپنا کام کاج چھوڑ کے بیس دن سے دھرنے میں بیٹھا ہے- کیا یہ چوری اور بے ایمانی نہیں ہے؟ جو پارلیمنٹ جعلی ہے ، اس سے آپکے اراکین تنخواہ اور مراعات کیوں لے رہے ہیں؟ خٹک صاحب نے استعفٰی کیوں نہیں دیا؟ وہ کس حیثیت میں وفاق کے خلاف کھڑے ہیں؟

آپ پہلے گالیاں ثبوت کے ساتھ پیش کریں ورنہ مزید گفتگو سے معذرت
 

صائمہ شاہ

محفلین
کنٹرول کس کو کہ رہی ہیں آپ محترمہ؟ پولیس اگر کچھ کرے تو درندگی ، ظلم، بربریت- پولیس کچھ نہ کرے تو انقلابی ، وردی میں ملبوس پولیس والوں کو سڑکوں پہ لٹا کے ڈنڈے ماریں، ایس ایس پی کو زخمی کیا جائے- انقلابی، وردی پوش پولیس والوں کی تلاشی لیں- آپ ذرا روشنی ڈالیں کہ کنٹرول کس طرح سے کیا جائے-
ماڈل ٹاون میں بھی شائد عوام ہی پولیس کی وردی میں تھی اور قادری نے شائد گلو بٹ کا بھیس بدل رکھا تھا عمران اور قادری کو تو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایا جا ہی رہا ہے عوام کو تو بخش دیں کہ آپ بھی عوام ہی ہیں ( عین ممکن ہے آپ کا تعلق کاروباری طبقے سے ہو شرفا کی طرح تب یقیناً آپ عوام میں شمار نہیں ہوتے )
اگر روشنی عوام کو ہی ڈالنی ہے تو گورنمنٹ کا کیا کردار ہے ؟
اتنے دنوں سے بہت سے مراسلات دیکھ چکی ہوں اور حسب عادت یہاں کوئی سچ کو سچ مان کر جھوٹے کو جھوٹا نہیں کہتا تو کیا فائدہ ایسی فضول بحث میں پڑنے کا جس میں صرف آپ کا نظریہ ہی صحیح ہے
آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے آپ شرفا کو شریف مانتے ہیں تو ضرور فالو کریں انہیں ، میں یہاں آپ کا یا کس اور کا نظریہ جمہوریت بدلنے نہیں آئی لیکن جس طرح آپ آزاد ہیں اپنی رائے کے اظہار کے لئے وہی آزادی مجھے بھی حاصل ہے یوں بھی میں نے صرف زرقا کی بات کا جواب دیا تھا مجھے قطعاً دلچسپی نہیں یہ جاننے میں کہ میاں صاحب کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
ماڈل ٹاون میں بھی شائد عوام ہی پولیس کی وردی میں تھی اور قادری نے شائد گلو بٹ کا بھیس بدل رکھا تھا عمران اور قادری کو تو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایا جا ہی رہا ہے عوام کو تو بخش دیں کہ آپ بھی عوام ہی ہیں ( عین ممکن ہے آپ کا تعلق کاروباری طبقے سے ہو شرفا کی طرح تب یقیناً آپ عوام میں شمار نہیں ہوتے )
اگر روشنی عوام کو ہی ڈالنی ہے تو گورنمنٹ کا کیا کردار ہے ؟
اتنے دنوں سے بہت سے مراسلات دیکھ چکی ہوں اور حسب عادت یہاں کوئی سچ کو سچ مان کر جھوٹے کو جھوٹا نہیں کہتا تو کیا فائدہ ایسی فضول بحث میں پڑنے کا جس میں صرف آپ کا نظریہ ہی صحیح ہے
آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے آپ شرفا کو شریف مانتے ہیں تو ضرور فالو کریں انہیں ، میں یہاں آپ کا یا کس اور کا نظریہ جمہوریت بدلنے نہیں آئی لیکن جس طرح آپ آزاد ہیں اپنی رائے کے اظہار کے لئے وہی آزادی مجھے بھی حاصل ہے یوں بھی میں نے صرف زرقا کی بات کا جواب دیا تھا مجھے قطعاً دلچسپی نہیں یہ جاننے میں کہ میاں صاحب کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں
بنیادی طور پر ایسی ابحاث ضد اور انا پرستی کی اعلی مثالیں ہیں ۔بیشتر کو نہیں معلوم کہ وہ کس کی اور کیوں حمایت کر رہا ہے ۔ کسی کو عمران خان سے کیا لینا یا نواز شریف کو کیا دینا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ملک و قوم میں اپنی ایسی باتوں سے کیا جوہری تبدیلیاں لانا مقصود ہیں ۔ آپ نے کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلی اس کے بعد آپ کی تمام تر یہ کوشش رہے گی کہ اپنی بات کو صحیح کیسے ثابت کرنا ہے ۔ ( خواہ وہ بات حقائق کو یکسر مسترد کرتی ہو ) ۔ ہر ممکن کوشش ہوگی کہ مخالف کی صحیح بات کی دھجیاں کیسے اکھاڑیں جائیں ۔اور اپنی رائے اس پر کیسے ٹھونسی جائے ۔اور اس کے لیئے دلائل اور گفتگو کے آداب کو ایک طرف رکھ کر بازاری زبان کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جس کے سامنے کم از کم ایک شریف آدمی ٹہر نہیں سکتا ۔
یہ ہمارا المیہ ہےکہ ہم دوسرے کی بات کو اہمیت تو دینا دور کی بات اس کی بات سننا تک بھی گوارا نہیں کرتے ۔چلیں کم از کم ایک لمحے ٹہر کے اس سے یہی پوچھ لیں کہ" بھئی آپ اپنا نقطعہِ نظر تو سمجھائیں ۔ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی ۔ " یہاں اردو محفل سے نکل کر ملک کے بازاروں ، محلوں اور مختلف قسم کی محفلوں میں بھی یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھ لیں ۔ کس طرح ایک دوسرے پر لے دے ہوتی ہے ۔ سب حمام میں ننگے ہوتے ہیں ۔ مگر سامنے والا ہی صرف برہنہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ نظر خود پر پڑتی ہی نہیں ۔
قوم ہر معاملے میں تقسیم ہے ۔ خواہ وہ سیاسی میدان ہو یا مذہبی نظریات کا اکھاڑا ۔ سب کو اپنی بات منوانی ہے ۔ اور اس کے لیئے وہ ہر سب کچھ کرے گا خواہ اخلاقی قدریں بھی پامال ہوجائیں ۔
موجودہ صورتحال بھی قوم کی اس ذہنی پستی کا بدترین مثال ہے ۔ دنیا میں دیگر ا قوام اپنے مفادات اور معاشرے میں ترقی کی بنیاد پراپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتیں ہیں ۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ایسا شخص برسر اقتدار میں لایا جائے جو ان کی خوشحالی کا ضامن ہو۔ وہ نہ کسی خاندان کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اثرو رسوخ کو ۔ پھر ایسا شخص آکر وہاں حکومت کرتا ہے اور پھر عدلیہ اور پارلیمنٹ قوم کی اس ذہنی روش کو فالو کرتی ہے ۔ جس کی بنیاد پر قوم نے ایسی حکومت کو چُنا ۔ مگر چونکہ پاکستانی قوم کو اپنی منزل کا نہیں معلوم اس لیئے وہ ہر اُس ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جوذرا بھی متحرک ہو تی ہے ۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اصل میں ٹرین کس سمت کی طرف رواں دواں ہے ۔ یہ سیاسی ناپختگی کا مظہر ہے ۔ یہ سیاسی شعور کا فقدان ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اس احساس کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ جس کو سامنے رکھ کر انسان اپنے اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے اور پھر اس کو بنیاد بنا کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیئے سوچ و بچار کرتا ہے ۔ پھر ایسے ہی انسان سے ایسی قوم اور وہ رہنما پیدا ہوتے ہیں ۔ جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں ۔
اس دھاگے پر آپ دیکھ لیں کہ زیادہ تر اس بات کی ہی تکرار نظر آئے گی کہ وہ جس سیاسی لیڈر کی حمایت کر رہا ہے وہی ٹھیک ہے اور باقی سب چور اور لیٹرے ہیں ۔ مگر جس المیے کی میں نے بات کی وہ یہی ہے کہ اس کو خود نہیں معلوم کہ وہ کسی کی حمایت کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے ۔ کسی کے نظریئے اور فارمولے کو سمجھنے سے پہلے اس بات کا تو تعین ہو کہ اس کی اپنا خود نظریہ کیا ہے ۔ اس کی ملکی سطح پر ترقی کی ترجیحی اصطلاحات کیا ہیں ۔ وہ کیسا ملک چاہتا ہے ۔ وہ اپنی قوم کو کہاں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے ۔ مگر اس کے قطعِ نظر وہ شخصیت پرستی کا شکار ہوکر صرف وہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جو دراصل اُسے نظر نہیں آرہا ہوتا ہے ۔ بس یہی ہمارا المیہ ہے اور یہی ہمارا مستقبل ہے ۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ قوم رہنماؤں سے نہیں بلکہ رہنما قوموں سے بنتے ہیں ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بنیادی طور پر ایسی ابحاث ضد اور انا پرستی کی اعلی مثالیں ہیں ۔بیشتر کو نہیں معلوم کہ وہ کس کی اور کیوں حمایت کر رہا ہے ۔ کسی کو عمران خان سے کیا لینا یا نواز شریف کو کیا دینا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ملک و قوم میں اپنی ایسی باتوں سے کیا جوہری تبدیلیاں لانا مقصود ہیں ۔ آپ نے کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلی اس کے بعد آپ کی تمام تر یہ کوشش رہے گی کہ اپنی بات کو صحیح کیسے ثابت کرنا ہے ۔ ( خواہ وہ بات حقائق کو یکسر مسترد کرتی ہو ) ۔ ہر ممکن کوشش ہوگی کہ مخالف کی صحیح بات کی دھجیاں کیسے اکھاڑیں جائیں ۔اور اپنی رائے اس پر کیسے ٹھونسی جائے ۔اور اس کے لیئے دلائل اور گفتگو کے آداب کو ایک طرف رکھ کر بازاری زبان کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جس کے سامنے کم از کم ایک شریف آدمی ٹہر نہیں سکتا ۔
یہ ہمارا المیہ ہےکہ ہم دوسرے کی بات کو اہمیت تو دینا دور کی بات اس کی بات سننا تک بھی گوارا نہیں کرتے ۔چلیں کم از کم ایک لمحے ٹہر کے اس سے یہی پوچھ لیں کہ" بھئی آپ اپنا نقطعہِ نظر تو سمجھائیں ۔ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی ۔ " یہاں اردو محفل سے نکل کر ملک کے بازاروں ، محلوں اور مختلف قسم کی محفلوں میں بھی یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھ لیں ۔ کس طرح ایک دوسرے پر لے دے ہوتی ہے ۔ سب حمام میں ننگے ہوتے ہیں ۔ مگر سامنے والا ہی صرف برہنہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ نظر خود پر پڑتی ہی نہیں ۔
قوم ہر معاملے میں تقسیم ہے ۔ خواہ وہ سیاسی میدان ہو یا مذہبی نظریات کا اکھاڑا ۔ سب کو اپنی بات منوانی ہے ۔ اور اس کے لیئے وہ ہر سب کچھ کرے گا خواہ اخلاقی قدریں بھی پامال ہوجائیں ۔
موجودہ صورتحال بھی قوم کی اس ذہنی پستی کا بدترین مثال ہے ۔ دنیا میں دیگر ا قوام اپنے مفادات اور معاشرے میں ترقی کی بنیاد پراپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتیں ہیں ۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ایسا شخص برسر اقتدار میں لایا جائے جو ان کی خوشحالی کا ضامن ہو۔ وہ نہ کسی خاندان کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اثرو رسوخ کو ۔ پھر ایسا شخص آکر وہاں حکومت کرتا ہے اور پھر عدلیہ اور پارلیمنٹ قوم کی اس ذہنی روش کو فالو کرتی ہے ۔ جس کی بنیاد پر قوم نے ایسی حکومت کو چُنا ۔ مگر چونکہ پاکستانی قوم کو اپنی منزل کا نہیں معلوم اس لیئے وہ ہر اُس ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جوذرا بھی متحرک ہو تی ہے ۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اصل میں ٹرین کس سمت کی طرف رواں دواں ہے ۔ یہ سیاسی ناپختگی کا مظہر ہے ۔ یہ سیاسی شعور کا فقدان ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اس احساس کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ جس کو سامنے رکھ کر انسان اپنے اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے اور پھر اس کو بنیاد بنا کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیئے سوچ و بچار کرتا ہے ۔ پھر ایسے ہی انسان سے ایسی قوم اور وہ رہنما پیدا ہوتے ہیں ۔ جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں ۔
اس دھاگے پر آپ دیکھ لیں کہ زیادہ تر اس بات کی ہی تکرار نظر آئے گی کہ وہ جس سیاسی لیڈر کی حمایت کر رہا ہے وہی ٹھیک ہے اور باقی سب چور اور لیٹرے ہیں ۔ مگر جس المیے کی میں نے بات کی وہ یہی ہے کہ اس کو خود نہیں معلوم کہ وہ کسی کی حمایت کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے ۔ کسی کے نظریئے اور فارمولے کو سمجھنے سے پہلے اس بات کا تو تعین ہو کہ اس کی اپنا خود نظریہ کیا ہے ۔ اس کی ملکی سطح پر ترقی کی ترجیحی اصطلاحات کیا ہیں ۔ وہ کیسا ملک چاہتا ہے ۔ وہ اپنی قوم کو کہاں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے ۔ مگر اس کے قطعِ نظر وہ شخصیت پرستی کا شکار ہوکر صرف وہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جو دراصل اُسے نظر نہیں آرہا ہوتا ہے ۔ بس یہی ہمارا المیہ ہے اور یہی ہمارا مستقبل ہے ۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ قوم رہنماؤں سے نہیں بلکہ رہنما قوموں سے بنتے ہیں ۔
متفق
کبھی کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا
شرحِ خواندگی کیا ہے
بیروزگاری کی کیا شرح ہے
ایوریج سیلری کتنی ہے
غریبوں کی بھلائی کے لئے کیا کام کئے
عورتوں اور بچوں کی بہبود کے لئے کیا کیا
فارن پالیسی کیا ہے
نظام تعلیم کو کیسے بہتر بنایا جائے
کیونکہ یہ سوال عوام کی ترجیحات میں ہیں ہی نہیں اگر ہماری قوم کو کچھ آتا ہے تو شخصیت پرستی وہ بھی مردہ ضمیر سیاستدانوں کی
 
ماڈل ٹاون میں بھی شائد عوام ہی پولیس کی وردی میں تھی اور قادری نے شائد گلو بٹ کا بھیس بدل رکھا تھا عمران اور قادری کو تو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایا جا ہی رہا ہے عوام کو تو بخش دیں کہ آپ بھی عوام ہی ہیں ( عین ممکن ہے آپ کا تعلق کاروباری طبقے سے ہو شرفا کی طرح تب یقیناً آپ عوام میں شمار نہیں ہوتے )
اگر روشنی عوام کو ہی ڈالنی ہے تو گورنمنٹ کا کیا کردار ہے ؟
اتنے دنوں سے بہت سے مراسلات دیکھ چکی ہوں اور حسب عادت یہاں کوئی سچ کو سچ مان کر جھوٹے کو جھوٹا نہیں کہتا تو کیا فائدہ ایسی فضول بحث میں پڑنے کا جس میں صرف آپ کا نظریہ ہی صحیح ہے
آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے آپ شرفا کو شریف مانتے ہیں تو ضرور فالو کریں انہیں ، میں یہاں آپ کا یا کس اور کا نظریہ جمہوریت بدلنے نہیں آئی لیکن جس طرح آپ آزاد ہیں اپنی رائے کے اظہار کے لئے وہی آزادی مجھے بھی حاصل ہے یوں بھی میں نے صرف زرقا کی بات کا جواب دیا تھا مجھے قطعاً دلچسپی نہیں یہ جاننے میں کہ میاں صاحب کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں
محترمہ میں نے تو کسی میاں ، شریف ، کاروباری ، عوام وغیرہ کا ذکر نہیں کیا- آپ سے صرف یہ پوچھا تھا کہ کنٹرول کی تعریف کیا ہے آپکی نظر میں؟ اور اگر آپ کنٹرول کی تعریف ہی نہیں کرنا چاہ رہی ہیں یا آپکے دماغ میں کوئی تجویز سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو آپ کسی کے کیے ہوئے کنٹرول کو کیسے درست یا غلط قرار دے سکتی ہیں؟
ماڈل ٹاؤن سانحے کا جو کوئی بھی ذمےدار ہے ، اسکو پھانسی لگائی جانی چاہیے۔
ایک اور بات، دنیا کی کمزور سے کمزور ریاست کی رٹ کو جب چیلنج کیا جائے گا تو ریاست اپنی پوری توانائی کے ساتھ مزاحمت کرے گی۔ ماڈل ٹاؤن والے سانحے میں حکومت نے نااہلی کامظاہرہ کیا تھا تو اب بھگت رہی ہے- لیکن پی ٹی وی پہ حملہ، پولیس والوں پہ تشدد ، توڑ پھوڑ ، جلاو گھیراو کر کے آپ لوگ اپنا مقدمہ مضبوط نہیں کر رہے بلکہ کمزور کر رہے ہیں- خان صاحب جب اس ملک کے وزیراعظم ہوں گے تو انکی قیادت میں کھیلنےوالے یہی لوگ ہوں گے ، یہی پولیس، یہی پی ٹی وی ، یہی پارلیمنٹ- آپکا جھگڑا ایک شخص یا گروہ سے ہے، ریاست سے نہیں ہے- نواز شریف نے اعلٰی عدلیہ پہ حملہ کیا تھا، آج تک صفایئاں دیتا پھر رہا ہے، نواز شریف مٹ جائیگا، ادارے اور ریاست قائم رہے گی۔امید کرتا ہوں آپ میری بات سمجھ گئے ہونگے۔ :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
محترمہ میں نے تو کسی میاں ، شریف ، کاروباری ، عوام وغیرہ کا ذکر نہیں کیا- آپ سے صرف یہ پوچھا تھا کہ کنٹرول کی تعریف کیا ہے آپکی نظر میں؟ اور اگر آپ کنٹرول کی تعریف ہی نہیں کرنا چاہ رہی ہیں یا آپکے دماغ میں کوئی تجویز سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو آپ کسی کے کیے ہوئے کنٹرول کو کیسے درست یا غلط قرار دے سکتی ہیں؟
ماڈل ٹاؤن سانحے کا جو کوئی بھی ذمےدار ہے ، اسکو پھانسی لگائی جانی چاہیے۔
ایک اور بات، دنیا کی کمزور سے کمزور ریاست کی رٹ کو جب چیلنج کیا جائے گا تو ریاست اپنی پوری توانائی کے ساتھ مزاحمت کرے گی۔ ماڈل ٹاؤن والے سانحے میں حکومت نے نااہلی کامظاہرہ کیا تھا تو اب بھگت رہی ہے- لیکن پی ٹی وی پہ حملہ، پولیس والوں پہ تشدد ، توڑ پھوڑ ، جلاو گھیراو کر کے آپ لوگ اپنا مقدمہ مضبوط نہیں کر رہے بلکہ کمزور کر رہے ہیں- خان صاحب جب اس ملک کے وزیراعظم ہوں گے تو انکی قیادت میں کھیلنےوالے یہی لوگ ہوں گے ، یہی پولیس، یہی پی ٹی وی ، یہی پارلیمنٹ- آپکا جھگڑا ایک شخص یا گروہ سے ہے، ریاست سے نہیں ہے- نواز شریف نے اعلٰی عدلیہ پہ حملہ کیا تھا، آج تک صفایئاں دیتا پھر رہا ہے، نواز شریف مٹ جائیگا، ادارے اور ریاست قائم رہے گی۔امید کرتا ہوں آپ میری بات سمجھ گئے ہونگے۔ :)
بے شک آپ کی ہر بات درست ہے میں تو پہلے ہی کہہ چکی ہوں مگر ایک نظر اپنے اس مراسلے پر بھی ڈال لیجییے جہاں آپ نے سارا ملبہ ہی عوام کے سر ڈال دیا تھا
میں ایک ادنیٰ سی نوکری کرتی ہوں جس کا سب سے اہم فیکٹر ہی کراوڈ کنٹرول ہے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی کہہ رہی ہوں اور پھر جب کراوڈ سیاسی ہو اور اندھے عقیدت مندوں سے بھرا ہو تو ہفتوں بعد بھی حکومت کا بغیر کسی سوجھ بوجھ کے ان پر حملہ کرنا کوئی اعلیٰ مثال نہیں ہے
ایک اور چیز ہوتی ہے کنٹینجنسی جہاں کسی بھی صورتحال سے نبٹنے کے لیے متبادل راستے تعین کیے جاتے ہیں آزادی مارچ سے لیکر اس انتشار تک حکومت کے پاس خاصہ وقت تھا کنٹینجنسی پلانز کے لئے مگر اسوقت کو اقتدار بچانے کے گٹھ جوڑ کے لئے استعمال کیا گیا کیونکہ غریبوں کا کیا ہے یہ تو تھوک کے حساب سے موجود ہیں پاکستان میں چند ہزار اگر حکومتی تشدد کا نشانہ بن بھی گیے تو کونسی قیامت آگئی

مگر میں کیا جانوں آپ بہتر جانتے ہیں اس لیے
میں سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ کسی کو تو ہارنا ہے اس بحث میں آپ لوگ تو ہارنے سے رہے
 

جاسمن

لائبریرین
news-1409690698-4548.jpg

03 ستمبر 2014

آ بیل مجھے مار
دہشت گرد پہاڑوں میں چھپے ہوںتو ”ضرب عضب“ دارلخلافہ میں کھلے ہوں تو ”حسن سلوک“۔۔۔؟ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا پیمانہ امریکہ سے امپورٹ کیا گیا ہے۔ امریکہ میں غیرملکی باشندہ پٹاخہ بھی چلایا جائے تو دہشت گردی کہلاتا ہے اور گورا بم بھی مارد ے ”ذہنی مریض“ کہلاتا ہے ۔پاکستان کے پہاڑوں میں طاقت کا استعمال دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور شہری آبادی میں دہشت گردی کوسیاسی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے ؟طاہر القادری بیرون ملک سے امپورٹ کیا گیا ،اس کے غنڈوں نے پاکستان کی املاک ،سکیورٹی اور سکون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن پاک فوج نے ان دہشت گردوں کو بڑے پیار سے بہلا پھسلا کر باہر نکال دیا اور ان مبینہ مجرموں کے خلاف طاقت سے روک دیا ؟دہشت گردی کے مفہوم کی نہ امریکہ سے وضاحت ہو سکی اور نہ ہی اس لفظ کی 13برسوں میں پاک فوج وضاحت کر سکی ۔اسلام آباد وزیرستان بنا ہوا ہے اور فوج نے حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں؟پاک فوج خود تو گولے بارود ،توپیں ، بم استعمال کرے اور پولیس کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے ؟دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کیلوں والے ڈنڈے ،کلہاڑیاں،آریاں،پتھراور پولیس جوابی کاروائی کرے تو ظالم ؟ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے فوج کی طرح پولیس بھی مکمل اختیارات مانگتی ہے ۔پولیس کو کمزور اور پسپا ثابت کرنے کے پس پشت “سکرپٹ“ کارفرماہے۔ اسلام آباد جس قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،اس نے پاکستان کو کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ ہم تیس سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور متعدد مظاہروں میں شرکت کا موقع ملا ہے مگر یہاں کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ احتجاج کے لئے بھی پرمٹ کی ضرورت ہے ۔تمام شرائط کی منظوری کے بعد چند گھنٹوں کے لئے احتجاج کی اجازت ملتی ہے اور اس کے لئے بھی مخصوص مقام سے آگے پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں۔ وائٹ ہاﺅس کے سامنے مسلمانوں کا سب سے بڑا احتجاج نوے کی دہائی میں دیکھا۔پورے امریکہ سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان جمع تھے۔وائٹ ہاﺅس کے سامنے منظم طریقے سے نماز عصر ادا کی گئی۔حد نگاہ تک مسلمان دکھائی دے رہے تھے، اشتعال انگیزی تو درکنار وائٹ ہاﺅس کے جنگلے کے قریب بھٹکنے کی بھی اجازت نہ تھی۔یہ ٹرک والی جوڑی مثالیں مغرب کی دیتے ہیں اور حرکات ان کی ” مولا جٹ تے نوری نت“ جیسی ہیں۔سرکاری املاک میں دھاوا بول دیا اور 21روز سے پورے علاقے بلکہ پوری قوم کو یرغمال بنارکھا مگر حکومت اور عوام نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ دہشت گرد کھلے چھوڑ دئے جائیں تو صبر و تحمل کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں ”پرانا پاکستان“ بیچا جا رہا ہے۔”سونامی اورنیا پاکستان “الفاظ ہی منحوس ہیں۔نیا پاکستان بنانے کی بے صبری کی وجہ خان کی شادی ہے ۔ پرانا پاکستان خان نے اپنی نئی دلہن کو ”حق مہر“ میں پیش کرنا ہے۔پاکستانی قوم چہروں سے جلد اکتا جاتی ہے ۔نیا پاکستان کی صورت میں ایک اور نیا چہرہ سامنے آگیا تو ”دس سال“ تک کوئی نیا چہرہ دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ ہر ادارے میں چند عناصر ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جو طالبان کی سوچ کے حامل ہیں اور ملک میں جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ قادری جیسے لوگ ”گود لے“ رکھے ہیں۔ الطاف حسین نے بھی بہت دن پہلے بتا دیا تھا کہ وہ فقیر آدمی ہیں، گھر سے بھاگنے والی لڑکی کی خبر دے رہے ہیں۔ یہ سب گھر کے بھیدی ہیں۔ قادری کو بھی خواب آجاتے ہیں جبکہ معصوم خان مکمل طور پر چابی کا کھلونا بن چکا ہے۔ یہ کمبخت ٹرک لفٹر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ ٹرکوں والی جوڑی نے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی آبرو کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اعلان کر تے ہیں کہ قادری اور خان کے علاوہ پاکستان میں باقی سب ناپاک ہے۔ عمران خان کی روح قادری کے بدن میں حلول کر چکی ہے، خان قادری میں ضم ہو چکا ہے بلکہ اس پر قادری کا دم ہو چکا ہے۔ وزیراعظم بننے کے جنون میں لفٹر سے ایک بار پھر ”لڑک“ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر غلطی نظرانداز کر سکتا ہے مگر بدنیتی کے ساتھ لئے گئے یوٹرن سے نکلنے کے مواقع بار بار مہیا نہیں کرتا۔ باہر بیٹھ کر پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس دنیا میں سب سے خراب ملک پاکستان ہے۔ اس گندے پرانے پھٹیچر پاکستان کو بیچ کر نیا پاکستان خریدا جا رہا ہے کیوں کہ اس ملک کے صحافی بک چکے ہیں، پولیس کرپٹ ہے، فوج دوغلی ہے، ایجنسیاں بے ایمان ہیں، وزیراعظم ظالم ہے، اسمبلی ناپاک ہے، نظام فرعون ہے، عدلیہ بکاﺅ ہے۔ اس جوڑی نے چودہ اگست کے موقع پر منحوس پروگرام ترتیب دیا،پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا یوم آزادی ہے جس نے قوم سے ان کی حقیقی خوشیاں چھین لیں۔ جاوید ہاشمی جب بھی امریکہ آئے ہم سے ملاقات کا موقع ملا۔ آٹھ ماہ پہلے وطن واپسی پر ہم بھی اسی پرواز میں سوار تھے۔
مسلم لیگ نون سے علیحدگی کے حوالے سے ہم نے کہا کہ بوقت عصر روزہ توڑنا اور اس عمر میں دوسرا سیاسی نکاح کرنا کہاں کی دانشمندی ہے، اس سے بہتر تھا کہ آپ اللہ اللہ کرتے۔ ہاشمی صاحب نے کہا کہ اگر عمران خان میرے گھر چل کر نہ آتا اور مجھے پاکستان کے لئے کام کرنے کی گزارش نہ کرتا، میں کبھی چل کر نہ جاتا۔ میں بیکار بستر پر مرنا نہیں چاہتا تھا، میں نے تمام زندگی جہاد کیا ہے، خان نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا اور میرا مشن ایک ہے، ہم نوجوان نسل کو روشنیوں کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ میں خان کے ساتھ چل دیا ۔ہم نے کہا بھی کہ خان ہٹ دھرم اور انا پرست انسان ہیں اور آپ ایک منجھے ہوئے سیاسی رہنماءہیں، وہ میاں نواز شریف کو کمزور کرنے کے لئے آپ کو اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس کا فخریہ اعلان بھی کیاکہ ”نواز شریف میں نے تمہاری ایک اور وکٹ گرا دی“ہمیں لگتا ہے کہ آپ خان کے فیصلوں کے ماتحت ہیں۔ ہاشمی صاحب نے کہا ’جس روز مجھے یہ محسوس ہوا کہ خان نے میرے سیاسی تجربے کو انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے میں اس کو ٹھوکر مار کر چلا جاﺅں گا۔ اور آج پورے پاکستان نے دیکھا کہ ہاشمی نے خان کو ٹھوکر مار دی۔ خان کے”یوٹرن“ کو آٹھ ماہ کا عرصہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے سفر کا آغاز مخلصانہ اور آزادانہ تھا۔ خان کے جذبے اور خلوص کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا مگر شیطان نے کان میں ڈال دیا کہ مشرف، زرداری کے بعد وزارت اعظمیٰ کے تم ہی حق دار ہو (شیطان کو سب جانتے ہیں) خان صاحب نے اٹھتے بیٹھے ”شیروانی“ کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے، ادھر نواز شریف بھی ”شیر وانی“ سلوا چکے تھے۔ جیت کا اعلان ہوا، خان نے الیکشن قبول کر لئے اور وزیراعظم نواز شریف کو مبارکباد پیش کی۔ لیکن شیخ رشید ،جاوید ہاشمی اور دیگر قیادت پانچ سال کا عرصہ انتظار نہ کر سکتی تھی۔ سب بوڑھے ہیں، نہ جانے کس کی باری پہلے آجائے لہذا دھاندلی کو آلہ کار بنا کے مشکوک سفر شروع کر دیا گیا۔ ہاشمی صاحب نے کہا تھا کہ مشرف اورزرداری کے اقتدار کے بارے میں ان کی پیشگوئی صحیح ثابت ہوئی البتہ نواز شریف مدت پوری نہ کر سکیں گے۔ قریشی اور ہاشمی اپنی سابقہ قیادت سے ناراض تھے جبکہ مشرف کی باقیات بھی ”خیر خیرات“ کی امید پر زندہ ہے۔ شیخ رشید کی ”انٹری“ نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا۔ عمران خان بدل گئے۔ معاملات ہاتھ سے نکلتے محسوس ہوئے تو ہاشمی لوٹ گئے۔ ہاشمی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس سکرپٹ کا رائٹر کون ہے اور نہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں آنے کا شوق ہے البتہ تاریخی حقائق کے پیش نظر خفیہ ایجنسیوں میں کچھ عناصر کا سیاست میں ہمیشہ سے عمل دخل رہاہے۔ یہ صرف پاکستان کی صورتحال نہیں امریکہ میں بھی ”پینٹا گان“ کا وائٹ ہاﺅس پر مکمل اثرورسوخ ہے لہذا جمہوریت سکیورٹی اداروں کے مرہون منت ہے البتہ پاکستان میں جمہوریت ”آ بیل مجھے مار“ کے مصداق چل رہی ہے۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/03-Sep-2014/326398
 

جاسمن

لائبریرین
بابا ایک بار پھر سوچ لیں‘
بدھ 3 ستمبر 2014
۔۔۔’پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں‘
جناب عمران خان
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
اسلام آباد۔
میری بیٹی منزہ کی عمر 14 برس ہے۔ اپنے دس سالہ تعلیمی دور میں وہ صرف ایک بار مسلسل پانچ دن سکول نہیں جا سکی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
خاندانی تقریبات ہوں یا سیر و تفریح کے مواقع، منزہ سکول پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، جناب خان صاحب کہ جب کل اسے پیغام ملا کہ اس کا سکول مزید ایک ہفتہ نہیں کھل سکے گا، تو وہ بجھ سی گئی۔
خان صاحب میری بیٹی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سکول نہ جا سکنا ہے۔ ایک اور وجہ ہے جس کا تعلق بھی براہ راست آپ ہی سے ہے، اس لیے وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
گذشتہ برس مئی میں جب انتخابات قریب آئے تو میں نے آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر ہمارے گھر میں خاصی گرما گرم سیاسی بحث چھڑ گئی۔ منزہ میرے اس فیصلے کے سخت خلاف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلا تو منزہ نے مجھ سے کہا ’بابا ایک بار پھر سوچ لیں۔‘
میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
میں نے سوچا کہاں میرا 20 سالہ صحافت کا تجربہ اور کہاں یہ کل کی بچی اور اس کی سیاسی سمجھ بوجھ۔ میں پولنگ بوتھ میں گیا اور آپ کے امیدوار کے نام پر مہر لگائی۔
اگلے چند ماہ میں منزہ کو آپ کے نظریات اور نئے پاکستان کے فائدے گنواتا رہا۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ وہ ان باتوں سے مرعوب ہو رہی ہے لیکن میں اسے اچھے مستقبل کی خوشخبری سناتا رہا۔
گذشتہ چند روز سے منزہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ میں جب رات کو گھر جاتا ہوں تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا۔ جو مناظر اس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹیلی وژن پر دیکھے ہیں، اس کے بعد میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔
میں یقین نہیں کر پا رہا کہ 13 برس کی منزہ نے آپ کے نظریات کے بارے میں جو خدشات ایک برس پہلے ظاہر کیے تھے، وہ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
عمران خان صاحب، میں اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو گیا ہوں۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں۔
آپ کے نام یہ خط منزہ بھی پڑھے گی، اس لیے میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ سچ ہے۔ امید ہے آپ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کریں گے۔
آپ کا ووٹر
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/09/140903_imran_voter_letter_zz.shtml
 
Top