اِ ک تماشہ شروع ہوتا ہے ،
کردار اپنے اپنے رول سنبھال لیتے ہیں
کبھی میں اس کی، تو کبھی اُس کی حمایت شروع کردیتا ہوں
اس حمایت میں جذباتی ہو کے اپنے ہی بہن بھائیوں سے جھگڑ لیتا ہوں
کردار بھی بہت شیطان ہیں ۔
سب کچھ سمجھتے ہیں ۔
ظاہر ایسے ہی کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے کا خون ہی تو پی جائیں گے
کبھی ملیں تو نوچ ہی تو ڈالیں گے۔
"پھر جب تماشے کے اختتام پہ کردارہنسی خوشی، اپنی جھولی بھر کر، اپنی اپنی راہ لیتے ہیں"
میں تنہا رہ جاتا ہوں
تو مجھے احساس ہوتا ہے
کہ
میں
میں تو صرف بےوقو ف بن رہا تھا
سچا پیار، مال ، وقت اور مستقبل ، دونوں ہی کھو چکا
رہا وہیں کا وہیں
لے کے پچھتاوا
پھر چل پڑتا ہوں کسی روزگار کی تلاش میں
پھر اک نئے تماشے کی تلاش میں