آزادی مارچ اپڈیٹس

ابن رضا

لائبریرین
بابا ایک بار پھر سوچ لیں‘
بدھ 3 ستمبر 2014
۔۔۔’پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں‘
جناب عمران خان
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
اسلام آباد۔
میری بیٹی منزہ کی عمر 14 برس ہے۔ اپنے دس سالہ تعلیمی دور میں وہ صرف ایک بار مسلسل پانچ دن سکول نہیں جا سکی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
خاندانی تقریبات ہوں یا سیر و تفریح کے مواقع، منزہ سکول پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، جناب خان صاحب کہ جب کل اسے پیغام ملا کہ اس کا سکول مزید ایک ہفتہ نہیں کھل سکے گا، تو وہ بجھ سی گئی۔
خان صاحب میری بیٹی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سکول نہ جا سکنا ہے۔ ایک اور وجہ ہے جس کا تعلق بھی براہ راست آپ ہی سے ہے، اس لیے وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
گذشتہ برس مئی میں جب انتخابات قریب آئے تو میں نے آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر ہمارے گھر میں خاصی گرما گرم سیاسی بحث چھڑ گئی۔ منزہ میرے اس فیصلے کے سخت خلاف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلا تو منزہ نے مجھ سے کہا ’بابا ایک بار پھر سوچ لیں۔‘
میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
میں نے سوچا کہاں میرا 20 سالہ صحافت کا تجربہ اور کہاں یہ کل کی بچی اور اس کی سیاسی سمجھ بوجھ۔ میں پولنگ بوتھ میں گیا اور آپ کے امیدوار کے نام پر مہر لگائی۔
اگلے چند ماہ میں منزہ کو آپ کے نظریات اور نئے پاکستان کے فائدے گنواتا رہا۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ وہ ان باتوں سے مرعوب ہو رہی ہے لیکن میں اسے اچھے مستقبل کی خوشخبری سناتا رہا۔
گذشتہ چند روز سے منزہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ میں جب رات کو گھر جاتا ہوں تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا۔ جو مناظر اس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹیلی وژن پر دیکھے ہیں، اس کے بعد میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔
میں یقین نہیں کر پا رہا کہ 13 برس کی منزہ نے آپ کے نظریات کے بارے میں جو خدشات ایک برس پہلے ظاہر کیے تھے، وہ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
عمران خان صاحب، میں اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو گیا ہوں۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں۔
آپ کے نام یہ خط منزہ بھی پڑھے گی، اس لیے میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ سچ ہے۔ امید ہے آپ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کریں گے۔
آپ کا ووٹر
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/09/140903_imran_voter_letter_zz.shtml
منزہ کو تو صرف سکول جانے کا مسئلہ درپیش ہے تنزیلہ کی بیٹی کیا کرے جس کے سر سے ماں کا سایہ ہی چھین لیا گیا ؟؟؟
 
بے شک آپ کی ہر بات درست ہے میں تو پہلے ہی کہہ چکی ہوں مگر ایک نظر اپنے اس مراسلے پر بھی ڈال لیجییے جہاں آپ نے سارا ملبہ ہی عوام کے سر ڈال دیا تھا
میں ایک ادنیٰ سی نوکری کرتی ہوں جس کا سب سے اہم فیکٹر ہی کراوڈ کنٹرول ہے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی کہہ رہی ہوں اور پھر جب کراوڈ سیاسی ہو اور اندھے عقیدت مندوں سے بھرا ہو تو ہفتوں بعد بھی حکومت کا بغیر کسی سوجھ بوجھ کے ان پر حملہ کرنا کوئی اعلیٰ مثال نہیں ہے
ایک اور چیز ہوتی ہے کنٹینجنسی جہاں کسی بھی صورتحال سے نبٹنے کے لیے متبادل راستے تعین کیے جاتے ہیں آزادی مارچ سے لیکر اس انتشار تک حکومت کے پاس خاصہ وقت تھا کنٹینجنسی پلانز کے لئے مگر اسوقت کو اقتدار بچانے کے گٹھ جوڑ کے لئے استعمال کیا گیا کیونکہ غریبوں کا کیا ہے یہ تو تھوک کے حساب سے موجود ہیں پاکستان میں چند ہزار اگر حکومتی تشدد کا نشانہ بن بھی گیے تو کونسی قیامت آگئی

مگر میں کیا جانوں آپ بہتر جانتے ہیں اس لیے
میں سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ کسی کو تو ہارنا ہے اس بحث میں آپ لوگ تو ہارنے سے رہے

یہ بات درست ہے
دراصل اس قسم کے فورمز میں کوئی درست بات کرنا ایک مشکل کام ہے۔ کہ کوئی نہ کوئی اکر ضرور نگیٹ کرے گا۔
مجھے تو اب اس قسم کے فورم سے الجھن ہورہی ہے
 
منزہ کو تو صرف سکول جانے کا مسئلہ درپیش ہے تنزیلہ کی بیٹی کیا کرے جس کے سر سے ماں کا سایہ ہی چھین لیا گیا ؟؟؟

مسئلے جس طرح پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی ختم ہوتے ہیں یعنی وقت اور محنت کے ساتھ
ایک دن میں انقلاب نہیں اتے، گراس روٹ لیول پر کام کرنا پڑے گا

پاکستان میں تعلیم عام کی جاوے۔ اگر یہ پبلک سیکٹر میں نہیں ہورہا تو پبلک کو خود کام کرکے اس کو عام کرنا پڑے گا۔ تعلیم اور صعنت ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان میں صعنت کو بڑھاوا دینا پڑے گا۔ صعنت کو سیاسی استحکام اور امن درکار ہوتا ہے تاکہ سرمایہ محفوظ رہے۔ پاکستان کو جاگیر داروں (مثلا سردار احمد علی، کھر، شجاعت و دوسروں سے) اور فوجی مداخلت کاروں کے ایجنٹز (جیسے مزاری، رشید) سے اور گدی نشینوں (جیسے قریشی) سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ جب صعنت بڑھے گی تو تعلیم عام ہوگی اور وسائل نچلے طبقے تک جاویں گے
 

ظفری

لائبریرین
مسئلے جس طرح پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی ختم ہوتے ہیں یعنی وقت اور محنت کے ساتھ
ایک دن میں انقلاب نہیں اتے، گراس روٹ لیول پر کام کرنا پڑے گا

پاکستان میں تعلیم عام کی جاوے۔ اگر یہ پبلک سیکٹر میں نہیں ہورہا تو پبلک کو خود کام کرکے اس کو عام کرنا پڑے گا۔ تعلیم اور صعنت ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان میں صعنت کو بڑھاوا دینا پڑے گا۔ صعنت کو سیاسی استحکام اور امن درکار ہوتا ہے تاکہ سرمایہ محفوظ رہے۔ پاکستان کو جاگیر داروں (مثلا سردار احمد علی، کھر، شجاعت و دوسروں سے) اور فوجی مداخلت کاروں کے ایجنٹز (جیسے مزاری، رشید) سے اور گدی نشینوں (جیسے قریشی) سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ جب صعنت بڑھے گی تو تعلیم عام ہوگی اور وسائل نچلے طبقے تک جاویں گے
سرمایہ محفوظ کرنے کی آڑ میں سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے ۔ وہ واقعی قابلِ تحسین ہے ۔ اب سمجھ آیا کہ نواز شریف کی اتنی حمایت کیوں ہو رہی ہے ۔ :ohgoon:
 

زرقا مفتی

محفلین
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سب نے نواز شریف سے یہ کہا


میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
میں نے اس سے یہ کہا
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو 'یقین'ہے یہ 'گماں'
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
حبیب جالب
 
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سب نے نواز شریف سے یہ کہا


میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
میں نے اس سے یہ کہا
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو 'یقین'ہے یہ 'گماں'
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
حبیب جالب

یہ ضیا، مشرف کے لیے ہے
 
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سب نے نواز شریف سے یہ کہا


میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
میں نے اس سے یہ کہا
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو 'یقین'ہے یہ 'گماں'
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
حبیب جالب

زرقا مفتی
آخر اپ کیوں غیرمتفق ہیں ۔ کوئی جواب تو ہو؟
 

زرقا مفتی

محفلین
بنیادی طور پر ایسی ابحاث ضد اور انا پرستی کی اعلی مثالیں ہیں ۔بیشتر کو نہیں معلوم کہ وہ کس کی اور کیوں حمایت کر رہا ہے ۔ کسی کو عمران خان سے کیا لینا یا نواز شریف کو کیا دینا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ملک و قوم میں اپنی ایسی باتوں سے کیا جوہری تبدیلیاں لانا مقصود ہیں ۔ آپ نے کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلی اس کے بعد آپ کی تمام تر یہ کوشش رہے گی کہ اپنی بات کو صحیح کیسے ثابت کرنا ہے ۔ ( خواہ وہ بات حقائق کو یکسر مسترد کرتی ہو ) ۔ ہر ممکن کوشش ہوگی کہ مخالف کی صحیح بات کی دھجیاں کیسے اکھاڑیں جائیں ۔اور اپنی رائے اس پر کیسے ٹھونسی جائے ۔اور اس کے لیئے دلائل اور گفتگو کے آداب کو ایک طرف رکھ کر بازاری زبان کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جس کے سامنے کم از کم ایک شریف آدمی ٹہر نہیں سکتا ۔
یہ ہمارا المیہ ہےکہ ہم دوسرے کی بات کو اہمیت تو دینا دور کی بات اس کی بات سننا تک بھی گوارا نہیں کرتے ۔چلیں کم از کم ایک لمحے ٹہر کے اس سے یہی پوچھ لیں کہ" بھئی آپ اپنا نقطعہِ نظر تو سمجھائیں ۔ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی ۔ " یہاں اردو محفل سے نکل کر ملک کے بازاروں ، محلوں اور مختلف قسم کی محفلوں میں بھی یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھ لیں ۔ کس طرح ایک دوسرے پر لے دے ہوتی ہے ۔ سب حمام میں ننگے ہوتے ہیں ۔ مگر سامنے والا ہی صرف برہنہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ نظر خود پر پڑتی ہی نہیں ۔
قوم ہر معاملے میں تقسیم ہے ۔ خواہ وہ سیاسی میدان ہو یا مذہبی نظریات کا اکھاڑا ۔ سب کو اپنی بات منوانی ہے ۔ اور اس کے لیئے وہ ہر سب کچھ کرے گا خواہ اخلاقی قدریں بھی پامال ہوجائیں ۔
موجودہ صورتحال بھی قوم کی اس ذہنی پستی کا بدترین مثال ہے ۔ دنیا میں دیگر ا قوام اپنے مفادات اور معاشرے میں ترقی کی بنیاد پراپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتیں ہیں ۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ایسا شخص برسر اقتدار میں لایا جائے جو ان کی خوشحالی کا ضامن ہو۔ وہ نہ کسی خاندان کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اثرو رسوخ کو ۔ پھر ایسا شخص آکر وہاں حکومت کرتا ہے اور پھر عدلیہ اور پارلیمنٹ قوم کی اس ذہنی روش کو فالو کرتی ہے ۔ جس کی بنیاد پر قوم نے ایسی حکومت کو چُنا ۔ مگر چونکہ پاکستانی قوم کو اپنی منزل کا نہیں معلوم اس لیئے وہ ہر اُس ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جوذرا بھی متحرک ہو تی ہے ۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اصل میں ٹرین کس سمت کی طرف رواں دواں ہے ۔ یہ سیاسی ناپختگی کا مظہر ہے ۔ یہ سیاسی شعور کا فقدان ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اس احساس کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ جس کو سامنے رکھ کر انسان اپنے اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے اور پھر اس کو بنیاد بنا کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیئے سوچ و بچار کرتا ہے ۔ پھر ایسے ہی انسان سے ایسی قوم اور وہ رہنما پیدا ہوتے ہیں ۔ جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں ۔
اس دھاگے پر آپ دیکھ لیں کہ زیادہ تر اس بات کی ہی تکرار نظر آئے گی کہ وہ جس سیاسی لیڈر کی حمایت کر رہا ہے وہی ٹھیک ہے اور باقی سب چور اور لیٹرے ہیں ۔ مگر جس المیے کی میں نے بات کی وہ یہی ہے کہ اس کو خود نہیں معلوم کہ وہ کسی کی حمایت کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے ۔ کسی کے نظریئے اور فارمولے کو سمجھنے سے پہلے اس بات کا تو تعین ہو کہ اس کی اپنا خود نظریہ کیا ہے ۔ اس کی ملکی سطح پر ترقی کی ترجیحی اصطلاحات کیا ہیں ۔ وہ کیسا ملک چاہتا ہے ۔ وہ اپنی قوم کو کہاں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے ۔ مگر اس کے قطعِ نظر وہ شخصیت پرستی کا شکار ہوکر صرف وہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جو دراصل اُسے نظر نہیں آرہا ہوتا ہے ۔ بس یہی ہمارا المیہ ہے اور یہی ہمارا مستقبل ہے ۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ قوم رہنماؤں سے نہیں بلکہ رہنما قوموں سے بنتے ہیں ۔

ہمارا معاشرے تقسیم ہوچکا ہے
پہلے ہم لسانی مذہبی صوبائی تقسیم یا تعصب کی بات کرتے تھے
پھر رجعت پسندی یا مذہبی انتہا پسندی سامنے آ گئی اور اب
ہم سیاسی بنیادوں پر بھی تقسیم ہو گئے
اک جانب روایتی سیاست کے حامی ہیں اور دوسری جانب تبدیلی یا بہتری کے خواہشمند
سیاسی بحثوں میں تشدید غالب ہے
معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ بھی خطر ناک حد تک بڑھ گیا ہے
گفتگو میں تحقیر ، تضحیک اور تنافر نمایاں ہوتے جا رہے ہیں

پارلیمان میں دیکھئے تو انجمن بقائے باہمی کا اجلاس جاری ہے
آئین ۔ قانون ۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے بلند وباگ دعوے کئے جا رہے ہیں
مگر عوام کی بات کوئی نہیں کر رہا جس سے ووٹ لے کر یہ پارلیمان میں آتے ہیں
بلدیاتی انتخابات کا کوئی ذکر نہیں کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو سکیں

عوام کے مسائل کی طرف پارلیمان تب ہی توجہ دے گی جب اسے عوامی احتساب کا ڈر ہو گا
عوام کو خود بھی یہ احساس نہیں کہ جب تک وہ حکومت کے احتساب کی ہمت پیدا نہیں کریں گے حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوگی ۔ پارلیمان اپنے روایتی انداز میں سو سال بھی چلتی رہی تو عوام کے لئے کچھ نہیں بدلے گا سوائے چہروں کے

پارلیمان ایک ایسا سیاسی کعبہ ہے جس میں موروثی اور شخصی اقتدار کے بت ایستادہ ہیں جب تک کوئی ابراھیم ان بتوں کو پاش پاش نہیں کرے گا اس کا تقدس بحال نہیں ہوگا
 

زرقا مفتی

محفلین
21 دن بعد
10644967_840445229331232_9068492738601254777_n.jpg
 

آبی ٹوکول

محفلین
ویسے کل کا دنیا نیوز کا عمران خان اینکر پرسن کا پروگرام دیکھیئے کہ جس میں اینکر پرسن اور بابر اعوان دونوں نے جاوید ہاشمی کی بیماری کہ دوران ہاسپیٹلائز ہونے کہ دورانیہ میں اس اسکرپٹ کو لکھے جانے کا اشارہ دیا ہے جو کہ آج پی ٹی آئی ،فوج اور عدلیہ کہ خلاف سب سے بڑی سازش بن چکا ہے
 
کیا ہوگیا ہے آپ کو؟؟؟؟
ایمل کانسی والا کیس یاد ہے۔۔۔
امریکن اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ گنجا چند ڈالر میں اپنی ماں کو بیچ دیتا۔ اس کو اتنے ڈالر دینے کی کیا ضرورت تھی۔
پھر یہ باتیں کچھ معنی نہیں رکھتیں۔
 
ویسے کل کا دنیا نیوز کا عمران خان اینکر پرسن کا پروگرام دیکھیئے کہ جس میں اینکر پرسن اور بابر اعوان دونوں نے جاوید ہاشمی کی بیماری کہ دوران ہاسپیٹلائز ہونے کہ دورانیہ میں اس اسکرپٹ کو لکھے جانے کا اشارہ دیا ہے جو کہ آج پی ٹی آئی ،فوج اور عدلیہ کہ خلاف سب سے بڑی سازش بن چکا ہے
ہر طرف سے اپنی اپنی پسند کے اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اس موضوع پر اگر اسدعمرسےلئے گئے انٹرویوز کو دیکھا جائے تو وہ بھی کہ رہا تھا کہ ایسے شکوک پارٹی میں موجود اور لوگوں کو بھی ہیں،لیکن ایسی کوئی بات ہےنہیں۔
اور ہاشمی تو اس بارے میں زیادہ حساس تھا۔وہ تو دھرنے میں شامل ہونے سے پہلے ہی ناراض ہو کر چلا گیا تھا، پھر عمران کی یقین دہانی پر واپس آیا تھا۔
ویسے ہاشمی نے جس خدشے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعی پورا ہوا ،یعنی کہ تشددہوگا اوروہ ہوا۔اس معاملے میں عمران کی سمجھ ہاشمی سے پیچھے ہی رہی۔
اس کے علاوہ ہاشمی نہیں گیا تھا، عمران نے اس سے کہا تھا کہ اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں۔
یہ ساری چیزیں اگر دیکھی جائیں تو سازش تو کوئی نظر نہیں آتی، ہاں ہاشمی کے اس بیان کے بعد اگر فوج کا موڈ "قوم کی امنگوں " کے مطابق کام کرنے کا تھا بھی، تو وہ انہیں موقوف کرنا پڑگیا۔
 
ویسے کل کا دنیا نیوز کا عمران خان اینکر پرسن کا پروگرام دیکھیئے کہ جس میں اینکر پرسن اور بابر اعوان دونوں نے جاوید ہاشمی کی بیماری کہ دوران ہاسپیٹلائز ہونے کہ دورانیہ میں اس اسکرپٹ کو لکھے جانے کا اشارہ دیا ہے جو کہ آج پی ٹی آئی ،فوج اور عدلیہ کہ خلاف سب سے بڑی سازش بن چکا ہے
بات تو پھر گھوم گھام کے خان صاحب کی مردم شناسی پہ ہی ختم ہونی ہے برادر۔
 
آخری تدوین:
Top