آزادی مارچ اپڈیٹس

17950.jpg

نصرت جاوید
بابا جینیون صحافی ہے-
 

ابن رضا

لائبریرین
قیصرانی
دنیا کے سب سے بڑے انویسٹر ملک کے صدر کو یہاں آنے کی ضرورت کیا ہے ؟
ہم ملک کے عظیم لیڈران کے ساتھ رقص و سرود و دھمال کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں یہ کافی نہیں ملکی ترقی کے لیے؟
اصلاح فرما لیجیے وہ انویسٹ کرنے نہیں قرضہ دینے آ رہے تھے.
 
اصلاح فرما لیجیے وہ انویسٹ کرنے نہیں قرضہ دینے آ رہے تھے.
قیصرانی بھائی اوپر آپ کو ٹیگ کیے گئے جملے کو یوں پڑھا جائے۔
دنیا کے سب سے بڑے انویسٹر ملک کے صدر کو یہاں آ کر قرض دینے کی ضرورت کیا ہے ؟
ہم ملک کے عظیم لیڈران کے ساتھ رقص و سرود و دھمال کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں یہ کافی نہیں ملکی ترقی کے لیے؟
ابن رضا بھائی
یہ اصلاح ٹھیک ہے ؟



 

زرقا مفتی

محفلین
چین اپنے جیو سٹر یٹیجک مفادات کے لئے پاکستان میں گوادر سے شاہراہ ریشم تک سڑک بنانا چاہتا ہے ۔ دورہ ملتوی ہوا ہے منصوبہ ترک نہیں ہو سکتا ۔
اس کی وجہ دھرنا نہیں ہے وہاں کے سیکیورٹی حکام نے پاکستان کو غیر محفوظ ملک قرار دیا ہے
یہ وہی پرانی وجہ ہے جس کی بدولت کوئی کرکٹ کھیلنے بھی پاکستان نہیں آتا
حکومت جب خود لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرے گی ۔ ان تنظیموں کے ارکان کو پولیس میں بھرتی کرے گی امن امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرے گی تو ایسا ہی ہوگا
پاکستان اسوقت حالت جنگ میں ہے
ضرب عضب آپریشن جاری ہے
دہشت گرد کوئی بھی کاروائی کر سکتے ہیں
 

عزیزامین

محفلین
کوئی اس فورم میں یا آپ کے شہر یا گاوں سے یا آپ کے جاننے والوں میں آزادی یا انقلاب مارچ میں گیا ہے؟
 
قطعی طور پر سیاسی معاملات کبھی کبھار ایسے مراحل میں داخل ہو جاتے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے صرف جنگ کی منطق استعمال کرنا پڑتی ہے۔ 14 اگست 2014ء سے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کو بھی آپ صرف فیصلہ کن جنگوں کے تناظر میں سمجھ سکتے ہیں۔
جنگوں میں سب سے اہم فریقین کے چند طے شدہ اہداف ہوا کرتے ہیں۔ میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ ان دھرنوں کا حتمی ہدف صرف نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانا نہیں تھا۔ اصل مقصد 2013ء کی مئی میں ہوئے انتخابات کو ’’جعلی‘‘ ثابت کرنا تھا۔ موجودہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے برقرار رہنے کا اس وقت ہرگز کوئی جواز باقی نہ رہتا اگر ان کے نتائج کو ایک بار ’’منظم دھاندلی‘‘ ثابت کر دیا جاتا۔ عمران خان اسپتال سے صحت یاب ہو کر جب اس قومی اسمبلی میں تشریف لائے تو ان کا حتمی ہدف یہی ایک پوائنٹ تھا۔ فیصلہ کن جنگ لڑنے سے پہلے آپ مگر اپنے حریف کو مختلف جھانسوں سے جنھیں ماہرینِ حرب Deception Plan پکارا کرتے ہیں مخمصے کا شکار بنایا کرتے ہیں۔ وہ طے ہی نہیں کر پاتا کہ اس کے دشمن کا حتمی ہدف کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے ’’صرف چار حلقوں‘‘ کا آڈٹ ایسا ہی ایک جھانسہ تھا۔ بظاہر بے ضرر دِکھنے والے اس مطالبے کا حقیقی مقصد نامزد کردہ چاروں حلقوں میں سازشی منصوبہ بندی کے ساتھ مبینہ طور پر منظم دھاندلی کو ثابت کرنا مقصود تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایسی دھاندلی ثابت ہو جاتی تو اپوزیشن کی دوسری جماعتیں اور خاص کر پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے چند سرکردہ رہ نما بھی اپنے حلقوں سے آئے نتائج کے آڈٹ کی دہائی دینے پر مجبور ہو جاتے۔ یہاں مجھے یہ دعویٰ بھی کر لینے دیجیے کہ 1985ء سے خود کو محلاتی سازشوں کے بارے میں اپنے تئیں ماہر بنے چوہدری نثار علی خان اس منصوبے کو سمجھ ہی نہ پائے۔
عمران خان کی حلف اٹھائے جانے کے بعد ہوئی طویل تقریر کے فوراََ بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں اور قیادت سے کوئی مشورہ کیے بغیر قومی اسمبلی کے اسپیکر سے جواب دینے کے لیے مائیک مانگ لیا۔ میں اس دن قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود تھا۔ وزیر داخلہ کی جوابی تقریر سنتے ہوئے مجھے یہ طے کرنے میں کوئی دیر نہ لگی کہ چوہدری صاحب درحقیقت Trap میں آ گئے ہیں۔
مئی 2013ء کے انتخابی عمل کا شدت سے دفاع کرنے کے بجائے انھوں نے کمال اعتماد اور فراخ دلی سے بلکہ 4 کے بجائے 40 حلقوں کے نتائج کا آڈٹ کرنے کی پیش کش کر ڈالی۔ یہ پیش کش کرتے ہوئے انھوں نے انتخابی عمل کے دوران استعمال ہوئی سیاہی کا مناسب ذکر کیے بغیر یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ قومی اسمبلی کے بے شمار حلقے ایسے ہیں جہاں پول ہوئے 50 سے 60 ہزار ووٹوں کی مناسب تصدیق ممکن ہی نہیں۔ وزیر داخلہ کے اس اعتراف کا عمران خان تواتر کے ساتھ اپنی تقریروں میں حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنے بیان کی وضاحت کے لیے بعد ازاں ایک دو پریس کانفرنسیں بھی کیں مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
وزیر داخلہ کی نیت پر کوئی شبہ کیے بغیر میں خالصتاََ سیاسی وجوہات کی بناء پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اس ضمن میں دوستانہ رویہ اختیار کرنے والے رویے کو سمجھ سکتا ہوں۔ چوہدری صاحب کی اصل ترجیح ان دنوں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا تھی۔ عمران خان کئی برسوں سے خود بھی اس سوچ کے شدید حامی تھے۔ لہذا حکومت اور عمران خان باہم مل کر طالبان کے خلاف آپریشن والے مطالبے کی شدت میں کمی لا سکتے تھے۔ بات مگر مذاکرات کرنے یا نہ کرنے والے سوال تک محدود نہ تھی۔ شمالی وزیرستان میں کوئی فوجی آپریشن نہ کرنے کا اصل جواز پورے پاکستان میں پھیلے Sleepers Cells کے ذکر کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا۔
ان Cells کا مسلسل ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی اکثریت کو یہ سمجھا دیا گیا کہ جیسے ہی پاکستانی ریاست شمالی وزیرستان میں اپنی رٹ بحال کرنے کے ارادے سے داخل ہو گی تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں دہشت گردی کے ڈرامائی واقعات ہونا شروع ہو جائیں گے۔ Sleepers Cells کا خوف پھیلانے کے بعد پھر کہانی یہ بھی چلائی گئی کہ شمالی وزیرستان میں گھسنے سے پہلے ان Cells کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔ اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک نام نہاد قومی سلامتی پالیسی وضع ہوئی جس کا حقیقی مقصد پاکستان کے تمام جاسوسی اداروں کو امریکا کے Homeland Security نام پر بنے ادارے کے اندر اکٹھا کرنا تھا۔
وہ قائم ہو جاتا تو وزیر داخلہ پاکستان میں انٹیلی جنس کے تمام اداروں کے حتمی سربراہ بن جاتے۔ نیت درست اور ارادے نیک تھے کہ مگر قومی سلامتی پالیسی کے مجوزہ ادارے کی تشکیل نے قومی سلامتی کے چند دوسرے حلقوں میں شدید شبہات پیدا کر دیے۔ ایک حوالے سے وہ کش مکش شروع ہو گئی جسے انگریزی میں لکھنے والے ریاستی اداروں کے مابین Turf Wars پکارا کرتے ہیں۔ ایسی کش مکش کے تیز تر ہونے سے کہیں پہلے مگر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہو گیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مطالبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان کو اس آپریشن کی شدید مخالفت کرنا چاہیے تھی۔ ایسی مخالفت کے ’’سنگین نتائج‘‘ کا مگر انھیں بخوبی علم تھا۔ انھیں لیکن سیاست میں بھی تو رہنا تھا۔ اسی لیے آپریشن اور اس کے خلاف اپنے کئی برس پرانے موقف کو بھلا کر وہ ’’چار حلقوں‘‘ کی دہائی دینا شروع ہو گئے۔
اسی دہائی کو مگر خلقِ خدا کی اکثریت نے کوئی پذیرائی نہ بخشی۔ بات بنتی اور ہدف حاصل ہوتا نظر نہ آیا تو جون کے مہینے میں لندن میں ملاقاتوں کے طولانی دور شروع ہو گئے جن کے نتیجے میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک بار پھر پاکستان لوٹ کر اس ملک کو ’’ظلم اور کفر پر مبنی جمہوری نظام‘‘ سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کے عزم کا اظہار کر دیا۔ ان کے اس اعلان نے یقینی طور پر نواز حکومت کو حواس باختہ کر دیا۔ حواس کھو دینے کے اسی عالم میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو گیا اور اس کے لیے 14 اگست کے دھرنوں کو روکنے کے تمام اخلاقی جواز ختم ہو گئے۔ اخلاقی قوت سے محروم ہونے کے بعد نواز حکومت اس قابل ہی نہ رہی کہ ریاستی جبر اور سیاسی اقدامات کی آمیزش کے ساتھ اسلام آباد آتے دھرنوں کو کماحقہ Tackle کر سکتی۔
نواز شریف ان دھرنوں کو جھیل پائے تو صرف اس وجہ سے کہ اسلام آباد میں در آئے Storm Troopers اس شہر میں داخل ہونے کے بعد بے پناہ عوامی ہجوم کے ساتھ مکمل انتشار کے طاقتور نمونے نہ دکھا پائے۔ دھرنوں کے دن پھیلتے چلے گئے اور بالآخر اس مقام پر پہنچے جسے ماہرینِ حرب Saturation Point کہا کرتے ہیں۔ اس مقام پر جامد ہو جانے کے بعد بھی دھرنے والے اپنے اہداف حاصل کر سکتے تھے اگر پاکستان قومی اتحاد کی 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی طرح لاہور، کراچی، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں ’’محض لاٹھی گولی کی طاقت‘‘ پر چلتی حکومت کو بے نقاب کیا جا سکتا۔
اسی ناکامی کے بعد تحریک انصاف اور منہاج القرآن کو واپسی کے باعزت راستے درکار تھے۔ میرے اس کالم کے لکھنے تک حکومت اور پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن باہم مل کر ایسے ہی راستے فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بظاہر معاملات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ ’’جنگ‘‘ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھوڑی دیر کے لیے مؤخر ہو گئی ہے۔

http://www.express.pk/story/285474/
 
ذرا ایبٹ اباد کے رزلٹ کے بارے میں بھی سوچیے
اور کارگل کے بھی

1948 قائد اعظم نے حکم دیا۔ رزلٹ نافرمانی
1965- خفیہ جنگ شروع کی۔ رزلٹ پاکستان پر حملہ اور شکست
1971- اپریشن شروع کیا۔ رزلٹ ملک ٹوٹ گیا
1980-88 افغانستان میں مداخلت۔ رزلٹ طالبان
2001 امریکہ کی مدد۔ رزلٹ ذلت و رسوائی
2007 لال مسجد شہید کی بچیاں مار دیں رزلٹ خودکش حملے
 
اعتزاز احسن نے ایک مناسب بات کی
کہ اگر یہ جتھہ بازی جاری رہی تو کل کوئی اور پرعزم جتھہ اکر پارلمینٹ کا گھیراو کرے گا کہ شیعہ کو کافر قرار دو۔
اگر یہ جتھہ بازی کی سیاست جاری رہی تو لوگ ایک دوسرے سے لڑپڑیں گے
قادری کے ساتھ جو پیچھے کھڑے ہوتے ہیں ان کو یہ بات سمجھ جانا چاہیے
 
چین اپنے جیو سٹر یٹیجک مفادات کے لئے پاکستان میں گوادر سے شاہراہ ریشم تک سڑک بنانا چاہتا ہے ۔ دورہ ملتوی ہوا ہے منصوبہ ترک نہیں ہو سکتا ۔
اس کی وجہ دھرنا نہیں ہے وہاں کے سیکیورٹی حکام نے پاکستان کو غیر محفوظ ملک قرار دیا ہے
یہ وہی پرانی وجہ ہے جس کی بدولت کوئی کرکٹ کھیلنے بھی پاکستان نہیں آتا
حکومت جب خود لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرے گی ۔ ان تنظیموں کے ارکان کو پولیس میں بھرتی کرے گی امن امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرے گی تو ایسا ہی ہوگا
پاکستان اسوقت حالت جنگ میں ہے
ضرب عضب آپریشن جاری ہے
دہشت گرد کوئی بھی کاروائی کر سکتے ہیں
یہ ساری باتیں تو دنیاجہان میں ہر ایک کو پتہ ہیں- چین کے صدر نے اپنا دورہ رکھا ہی کیوں تھا؟ اور اسکی سیکیورٹی کی ٹیم کو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی ، یہ ساری باتیں ہمارا چوکس میڈیا چوبیس گھنٹے نشر کرتا ہے۔ گھر بیٹھے
 

زرقا مفتی

محفلین
PM just started his much awaited address to the parliament.

“We should all vow to stand together for the supremacy of the constitution and the rule of law.” he urges

Nawaz says the opposition and the government have decided to stick together for Pakistan.

“More than my government, what is dear to me is the unity between the two sides of lower house,” Nawaz says.

“Being the prime minister is no bed of roses,” he tells his lawmakers.

The premier laments dignitaries cancelling their visits to Pakistan due to the current political turmoil.

PM Nawaz says he is sad over the misunderstanding caused because of certain statements made my Nisar against Aitzaz and PPP in a press meetup last night.

http://tribune.com.pk/story/757347/...and-plan-to-undermine-democracy-says-qureshi/

مشترکہ اجلاس میں نواز شریف کو معذرت کرنی پڑی

BwwTzfnCQAAuJ9F.jpg
 
آخری تدوین:
Top