آغازِ فارسی کلاس

صاحبان، کچھ ایسے نکات یہاں سامنے آ گئے ہیں جن پر پہلے بھی بات ہوتی رہی ہے، مثال کے طور پر:
۔1۔ فارسی میں نون غنہ ہے یا نہیں،
۔2۔ یائے مجہول (بڑی یے) ہے یا نہیں،
۔3۔ ذال ہے یا نہیں،
۔4۔ لفظ کے آخر میں ی یا ہمزہ،
۔5۔ نیست جیسے الفاظ میں آخری ساکن۔

اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے کہ فارسی سے عربی کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرا تو خیال ہے ایسا نہیں ہو سکتا،اگر رَولا ڈالنا ہو تو اور بات ہے۔ ایک بات تو خیر سامنے کی ہے کہ اردو کو باضابطہ طور پر بگاڑا جا رہا ہے، الفاظ کی املاء کو ”سادہ“ بنانے کے لئے ذال، زے، ضاد، ظاء؛ ثاء، سین، صاد پر انگشت نمائیاں ہو رہی ہیں، ”بالکل“ کو ”بلکل“ لکھنے والے بہت ہیں۔ پاکستانی پنجابی کا حال اس سے بھی گیا گزرا ہے، اب تو ایک طبقہ یہ کہنے لگا ہے کہ گرمکھی اپنا لو؛ اس کو ”پاکستان بنانا غلطی تھی“ جیسے بے تکے دعووں کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔

میرا ایک ذاتی تجربہ فارسی کے حوالے سے ہوا، جس کی رو دادِ غم کا کچھ حصہ ”القرطاس“ پر پیش کر چکا ہوں، فیس بک پر دو درویش ایک عرصہ تک اردو کی تہذیب کے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے تو یار لوگ ان کو نظر انداز کرنے لگے۔ لگتا ہے وہ دونوں درویش بھی اب چپکے ہو رہے ہیں۔ ادھر اردو محفل پر کچھ احباب نے فارسی سکھانے کا بیڑا اٹھایا مگر یہ پروگرام بھی بظاہر تعطل کا شکار ہے۔

اپنے اٹھائے ہوئے نکات پر تو بعد میں کچھ عرض کروں گا۔ یہ عربی فارسی اردو سے بے زاری کا رویہ جو ابھی بہت واضح نہیں، واضح ہو رہا ہے۔ اس کا کیا کیجئے گا؟
 

یونس عارف

محفلین
اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے کہ فارسی سے عربی کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرا تو خیال ہے ایسا نہیں ہو سکتا،

آپ کا خیال بالکل درست ہے اس لیے فارسی سے عربی کو نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھائی عربی کے تمام حروف فارسی میں ہیں۔ ان کے علاوہ :گ ۔ چ ۔ ژ ۔ پ بھی فارسی میں ہیں مگر عربی میں نہیں ہیں۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ہماری ثقافت ہماری زبان میں جاری ہے اس لیے ہم کو اپنی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
 
محترمی جناب یونس عارف صاحب
میں تو پہلے ہی اس امر کا سرگرم حامی ہوں کہ زبان کوئی بھی ہو، اس کا ایک تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہوتا ہے۔ ہماری اردو کے ثقافتی اجزاء میں فارسی اور عربی کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسی طرح فارس کی تہذیب میں عربی کی اہمیت ہے۔ پاکستان کی مقامی زبانوں میں بھی یہ عناصر نمایاں ہیں۔
ہم اپنی اصل سے جدا ہو ہی نہیں سکتے اور نہ ہمیں ایسا سوچنا چاہئے۔ کم از کم میں زبان کے حوالے سے، وہ عربی ہو، فارسی ہو، اردو ہو، یا پنجابی؛ کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوں۔
خوش رہئے۔
فقط :::: محمد یعقوب آسی، ٹیکسلا، پاکستان
 

فرخ منظور

لائبریرین
ابھی چند دن پیشتر فیس بک پر اختر عثمان صاحب اور عطا تراب صاحب سے میری یہی بحث ہو رہی تھی اور دونوں اصحاب اس بات پر مصر تھے کہ "ذ" عربی زبان کا حرف ہے اور فارسی کے حروف تہجی میں نہیں ہے اس لئے لفظ "پذیر" ذ کی بجائے "ز" سے لکھا جانا چاہیے یعنی پزیر۔ میں نے کہا کہ اب فارسی میں "ذ" داخل ہو چکا ہے اب اسے آپ نکالیں گے کیسے؟ :)
 
اس تناظر میں بہت پہلے میں نے فیس بک پر ایک بحث چھیڑی تھی۔ جناب محمد وارث نے گزاشتن (چھوڑ دینا) اور گذاردن (پیش کرنا) کے حوالے سے اپنے کومنٹس میں کچھ ایسی بات لکھی تھی (اگر میں بھول نہیں رہا تو) کہ لفظ ”گذارش“ ذال سے لکھا جائے گا۔ نماز گزار وہ ہے جو نماز کو چھوڑ دے، اور نماز گذار وہ ہے جو نماز پڑھے۔
بھول چوک معاف، مجھے اس بات چیت کا ریکارڈ مل نہیں رہا۔ محمد وارث صاحب درست کروا دیں تو بہت نوازش۔
 
ایک بات سمجھنا چاہتا ہوں نون غنہ کے حوالے سے، آجکل مثنوی معنوی پڑھ رہا ہوں، اگر نون غنہ نہیں ہے تو یہ محسوس کیا کہ بیشمار اشعار پڑھنے میں بے وزن ہوجاتے ہین اور روانی بھی نہیں رہتی۔ ۔ ۔کیا یہ بات درست ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اس تناظر میں بہت پہلے میں نے فیس بک پر ایک بحث چھیڑی تھی۔ جناب محمد وارث نے گزاشتن (چھوڑ دینا) اور گذاردن (پیش کرنا) کے حوالے سے اپنے کومنٹس میں کچھ ایسی بات لکھی تھی (اگر میں بھول نہیں رہا تو) کہ لفظ ”گذارش“ ذال سے لکھا جائے گا۔ نماز گزار وہ ہے جو نماز کو چھوڑ دے، اور نماز گذار وہ ہے جو نماز پڑھے۔
بھول چوک معاف، مجھے اس بات چیت کا ریکارڈ مل نہیں رہا۔ محمد وارث صاحب درست کروا دیں تو بہت نوازش۔

آسی صاحب یہ بحث رشید حسن خان کی کتاب املا کیسے لکھیں میں تفصیل سے ہے۔

چھوڑنا، چلے جانا وغیرہ کے معنی میں جو فارسی مصادر (گذشتن، گذاشتنن، گذاردن) و الفاظ ہیں وہ ذال کے ساتھ ہیں، جیسے گذشتہ، راہ گذر، در گذر، عمر، گذشتہ، یارانِ گذشتہ، گذر گاہ وغیرہ
عرض کرنا، پیش کرنا کے ضمن میں جو مصدر ہے (گزاردن) وہ زے کے ساتھ ہے جیسے عبادت گزار، نماز گزار، شکر گزار، خدمت گزار وغیرہ

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک بات سمجھنا چاہتا ہوں نون غنہ کے حوالے سے، آجکل مثنوی معنوی پڑھ رہا ہوں، اگر نون غنہ نہیں ہے تو یہ محسوس کیا کہ بیشمار اشعار پڑھنے میں بے وزن ہوجاتے ہین اور روانی بھی نہیں رہتی۔ ۔ ۔کیا یہ بات درست ہے؟

صرف ہمارے لیے کہ یہاں نون غنہ کا کوئی وزن نہیں اور نون معلنہ (جس کا اعلان کیا جائے) اسکا وزن ہے۔ جدید ایرانی تلفظ نون غنہ اور نون معلنہ کے بین بین ہوتا ہے، ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ غنہ ہے یا معلنہ۔ لیکن ہمارا پریس جدید املا کے تناظر میں اس چیز کا خیال نہیں رکھتا اور غنہ کو معلنہ سے لکھتے ہیں، اور بڑی یے کو چھوٹی یے لکھتے ہیں کہ ایران میں بڑی یے بھی نہیں لکھی جاتی، اسلیے اکثر کتابوں میں مے (بادہ) کو می لکھتے ہیں اور یہاں پڑھنے والوں کو کوفت ہوتی ہے۔
 
میرے پاس اس سلسلے میں دو مضمون ہیں، ابھی فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ یہاں پوسٹ ہونے جوگے ہیں بھی یا نہیں۔ شاید کسی لمحہء جوش میں یہ رندانہ اقدام کر ہی ڈالوں۔
تاہم ان کی طوالت کے پیشِ نظر شاید یہ تاگا مناسب نہ ہوں، کسی اور حساب میں رکھوں گا۔ محمد وارث صاحب کچھ فرمائیے گا؟
 

زیف سید

محفلین
صرف ہمارے لیے کہ یہاں نون غنہ کا کوئی وزن نہیں اور نون معلنہ (جس کا اعلان کیا جائے) اسکا وزن ہے۔ جدید ایرانی تلفظ نون غنہ اور نون معلنہ کے بین بین ہوتا ہے، ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ غنہ ہے یا معلنہ۔ لیکن ہمارا پریس جدید املا کے تناظر میں اس چیز کا خیال نہیں رکھتا اور غنہ کو معلنہ سے لکھتے ہیں، اور بڑی یے کو چھوٹی یے لکھتے ہیں کہ ایران میں بڑی یے بھی نہیں لکھی جاتی، اسلیے اکثر کتابوں میں مے (بادہ) کو می لکھتے ہیں اور یہاں پڑھنے والوں کو کوفت ہوتی ہے۔

اصل میں بات یہ ہے کہ قدیم فارسی میں نون غنہ موجود تھا لیکن جدید فارسی والوں نے اسے وائے مجہول اور یائے مجہول کی طرح ترک کر دیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نونِ غنہ اور معلن میں عروضی فرق موجود ہے۔ سو جدید فارسی والے نونِ غنہ سے پہلے آنے والے لمبے مصوتے (long vowel) کو چھوٹا کر دیتے ہیں، یعنی وزن 2 کو وزن 1 کر دیتے ہیں۔ یہ تو ہوئی تھیوری، اب ذرا پریکٹیکل کی طرف آئیے۔ خیام کی رباعی ہے:

اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
وین حرفِ معما نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ پردہ گفتگوی من و تو
چون پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ لال الفاظ میں نونِ غنہ ہے جس کے اعلان سے مصرعے وزن سے گر جاتے ہیں۔ اس کا حل جدید فارسی والوں نے یہ نکالا ہے کہ وین میں لمبی ی کو گرا دیتے ہیں اور اسے وِن پڑھتے ہیں، جس سے وزن پورے کا پورا رہتا ہے۔ اسی طرح چون میں و کو پیش کی آواز کے ساتھ چُن پڑھتے ہیں۔

مزید مثالیں دیکھیئے:

دوستاں > دوستن
آسماں > آسمن
آں > اَن
نکتہ چیں > نکتہ چِن
دیں > دِن
خوں > خُن

علیٰ ہٰذا القیاس

۔۔۔۔

زیف
 
لال الفاظ میں نون غنہ ہے ہائیں لال تو ایرانی فارسی میں بہرے (ڈورا) کو کہتے ہیں۔۔اوہ اچھا اچھا اب سمجھا لال یعنی خط احمر یعنی سرخ روشنائی اوہ اوہ روحانی بابا آپ بہت دیر سے بات سمجھتے ہو۔:eek:
 

زیف سید

محفلین
لال الفاظ میں نون غنہ ہے ہائیں لال تو ایرانی فارسی میں بہرے (ڈورا) کو کہتے ہیں۔۔اوہ اچھا اچھا اب سمجھا لال یعنی خط احمر یعنی سرخ روشنائی اوہ اوہ روحانی بابا آپ بہت دیر سے بات سمجھتے ہو۔:eek:

روحانی بابا، آپ بات بے شک دیر سے سمجھتے ہوں، لیکن آپ کو لال کہنے کی گستاخی نہیں کی جا سکتی۔ ہاں لالا ضرور کہا جا سکتا ہے، بلکہ لولوئے لالا
:grin:

زیف
 

یونس عارف

محفلین
اردو میں کہتے ہیں : ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی۔
یہ کہاوت فارسی میں اس طرح ہوگی:یک دست صدا نداره ۔ یا۔ از یک دست صدا بر نمی آید (صرف ایک ہاته سے کوئی آواز نہیں ہوگی)
یک:ایک
دست: ہاتھ
صدا:آواز
نداره: نہیں ہے

میں بھی اپنے عزیز استاد اور دوست سید محمد نقوی کو فارسی سیکھانے کے سلسلے میں مدد کرونگا۔ البتہ میں خود ان کا شاگرد ہوں اور ان سے بہت کچھ سکھوں گا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
روحانی بابا، آپ بات بے شک دیر سے سمجھتے ہوں، لیکن آپ کو لال کہنے کی گستاخی نہیں کی جا سکتی۔ ہاں لالا ضرور کہا جا سکتا ہے، بلکہ لولوئے لالا
:grin:

زیف


سید صاحب ! ویسے فارسی میں "لال" بہرے/ ڈورے کو نہیں کہتے بلکہ گونگے کو کہتے ہیں جبکہ بہرے" ڈورے کے لیے "کر" کا لفظ استعمال ہوتا ہے " کربودن" بہرا ہونا
روحانی بابا واقعی دیر سے سمجھتے ہیں خواجہ نصیرالدین طوسیکی ایک رباعی آپ کی نذر کرتا ہوں:

گفتم کہ دلم ز علم محروم نہ شد
کم ماند ز اسرار کہ مفہوم نہ شد
اکنوں کہ بہ چشم عقل در می نگرم
معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد

ویسے میں نے اس رباعی کو بہ تغیر مصرع ثالث حکیم عمر خیام نیشاپوری سے بھی منسوب پایا ہے

گفتم کہ دلم ز علم محروم نہ شد
کم ماند ز اسرار کہ مفہوم نہ شد
ہفتاد و دو سال از عمر عزیزم گذشت
معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد
یہ رباعیات میں نے حافظہ کے زور پر لکھی ہیں ممکن ہے ایک آدھ لفظ آگے پیچھے ہو گیا ہو اس لیے پیشگی معذرت
 

زیف سید

محفلین
سید صاحب ! ویسے فارسی میں "لال" بہرے/ ڈورے کو نہیں کہتے بلکہ گونگے کو کہتے ہیں جبکہ بہرے" ڈورے کے لیے "کر" کا لفظ استعمال ہوتا ہے " کربودن" بہرا ہونا
روحانی بابا واقعی دیر سے سمجھتے ہیں خواجہ نصیرالدین طوسیکی ایک رباعی آپ کی نذر کرتا ہوں:

گفتم کہ دلم ز علم محروم نہ شد
کم ماند ز اسرار کہ مفہوم نہ شد
اکنوں کہ بہ چشم عقل در می نگرم
معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد

[/SIZE]
[/SIZE]

رباعی عنایت کرنے کا شکریہ۔ اگر برا نہ منائیں تو تیسرے مصرعے میں لفظ در کی جگہ من کر لیں، یعنی:

اکنوں کہ بہ چشمِ عقل من می نگرم

زیف
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے پاس اس سلسلے میں دو مضمون ہیں، ابھی فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ یہاں پوسٹ ہونے جوگے ہیں بھی یا نہیں۔ شاید کسی لمحہء جوش میں یہ رندانہ اقدام کر ہی ڈالوں۔
تاہم ان کی طوالت کے پیشِ نظر شاید یہ تاگا مناسب نہ ہوں، کسی اور حساب میں رکھوں گا۔ محمد وارث صاحب کچھ فرمائیے گا؟

آسی صاحب جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ اگر علیحدہ اور تفصیلی مضامین ہیں اسی "تعلیم و تدریس" کے فورم میں نیے موضوعات شامل کر دیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اصل میں بات یہ ہے کہ قدیم فارسی میں نون غنہ موجود تھا لیکن جدید فارسی والوں نے اسے وائے مجہول اور یائے مجہول کی طرح ترک کر دیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نونِ غنہ اور معلن میں عروضی فرق موجود ہے۔ سو جدید فارسی والے نونِ غنہ سے پہلے آنے والے لمبے مصوتے (long vowel) کو چھوٹا کر دیتے ہیں، یعنی وزن 2 کو وزن 1 کر دیتے ہیں۔ یہ تو ہوئی تھیوری، اب ذرا پریکٹیکل کی طرف آئیے۔ خیام کی رباعی ہے:

اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
وین حرفِ معما نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ پردہ گفتگوی من و تو
چون پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ لال الفاظ میں نونِ غنہ ہے جس کے اعلان سے مصرعے وزن سے گر جاتے ہیں۔ اس کا حل جدید فارسی والوں نے یہ نکالا ہے کہ وین میں لمبی ی کو گرا دیتے ہیں اور اسے وِن پڑھتے ہیں، جس سے وزن پورے کا پورا رہتا ہے۔ اسی طرح چون میں و کو پیش کی آواز کے ساتھ چُن پڑھتے ہیں۔

مزید مثالیں دیکھیئے:

دوستاں > دوستن
آسماں > آسمن
آں > اَن
نکتہ چیں > نکتہ چِن
دیں > دِن
خوں > خُن

علیٰ ہٰذا القیاس

۔۔۔۔

زیف

زیف صاحب آپ نے درست کہا۔

ایرانی اہلِ زبان ہیں انہیں اپنی زبان میں تبدیلیاں کرنے کا پورا حق ہے۔

مسئلہ برصغیر کا ہے، یہاں تلفظ ابھی تک سعدی و حافظ و فیضی و عرفی و بیدل و غالب کے دور کا ہے لیکن ہمارا پریس جدید ایرانی املا کے تتبع میں املا جدید ہی کرتا ہے نون غنہ و معلنہ کا لکھنے میں خیال نہیں رکھتے (جب کہ تلفظ کرتے ہیں)، یہی مسئلہ یائے معروف و مجہول کا ہے، می (زمانے کیلیے) جیسے "می بینی" تو لکھتے ہیں لیکن مے (بادہ) کو بھی ایرانیوں کی طرح می لکھتے ہیں، وہ تو سمجھ جاتے ہیں کہ کہاں کونسا مطلب ہے لیکن یہاں شعر کا مطلب زیر و زبر ہو جاتا ہے۔
 
Top