اس سے پہلے کہ یہ جسم فنا ہو جائے
اس سے پہلے کہ خاکسترِ جاں بھی نہ رہے
اس سے پہلے کہ کوئی حشر بپا ہو جائے
خاک ہونے سے بچا لے کوئی میری آنکھیں
اپنے چہرے پہ لگا لے کوئی میری آنکھیں
کون مگر سہہ سکے گا میری آنکھوں کے عذاب
کس میں یہ حوصلہ ہو گا کہ ہمیشہ دیکھے
ان کی پلکوں کی صلیبوں پہ اترتے ہوئے خواب
جن کی کِرچوں کی چبھن روح تلک اُتر جاتی ہے
زندگی زندگی بھر کے لیے کُرلاتی ہے
احمد فراز
ایک عرصہ پہلے کسی کتاب میں یہ نظم پڑھی تھی۔ کچھ پوسٹ کرنے کا موڈ تھا تو بزورِ حافظہ ٹائپ کردی۔ ہو سکتا ہے کہیں کچھ بھول گئی ہوں۔ یاد آیا یا موقع ملاتو مجموعے میں دیکھ کر درست کر سکوں گی۔ ورنہ کیا کیا جا سکتا ہے سوائے پڑھنے کے۔