ظلم کی روک تھام
ظالم اور مظلوم کے سامنے ہماری
ذمہ داری
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) سے فرمایا:
" كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً، وَلِلْمَظْلُومِ عَوْناً"، "ہمیشہ ظالم کے دشمن بنو اور مظلوم کے مددگار بنو"۔ [نہج البلاغہ، مکتوب ۴۷]
اس حدیث سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ دین اسلام کی نظر اتنی وسیع ہے کہ اس بات کو کسی خاص قوم، قبیلہ، دین، مذہب اور گروہ میں محدود نہیں کردیا، بلکہ سب ظالموں سے دشمنی کرنا ذمہ داری ہے اور ہر مظلوم کی مدد کرنا ذمہ داری ہے۔
۲۔ ہر انسان کی اس لحاظ سے دو ذمہ داریاں ہیں: ظالم سے دشمنی اور مظلوم کی مدد۔
۳۔ انسان کسی طرف سے اپنی ذمہ داری کو نظرانداز نہ کرے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ صرف مظلوم کی مدد کو کافی سمجھے، بلکہ ظالم سے دشمنی بھی ضروری ہے، اور ادھر سے ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف ظالم سے دشمنی کو کافی سمجھ لے، بلکہ مظلوم کی مدد بھی ضرور کرے۔
۴۔ ظالم سے دشمنی کرنا صرف مظلوم کی ذمہ داری نہیں، بلکہ سب لوگوں کی ذمہ داری ہے، لہذا اگر کسی آدمی پر یا کسی قوم پر ظلم ہورہا ہے تو سب لوگوں کو چاہیے کہ ظالم سے دشمنی کریں اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دیں۔
۵۔ جو ظالم ہم پر ظلم کرتا ہے، ہم صرف اسی سے دشمنی نہ کریں، بلکہ اس ظالم سے بھی دشمنی کریں جو دوسرے لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔
۶۔ اگر ہم مظلوم کو مدد کرتے ہوئے ظالم کے ظلم سے نہ بچائیں تو حقیقت میں ظالم کو مظلوم پر ظلم کرنے میں مدد کی ہے۔
۷۔اگر ظالم کے ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے توظالم کی مدد کی ہے، جبکہ ذمہ داری یہ ہے کہ اس سے دشمنی کی جائے۔
۸۔ مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ اس کی مدد کرنا لوگوں کی ذمہ داری ہے، جبکہ مظلوم کی مظلومیت پر خاموش رہنا، ظالم کی مدد ہے، کیونکہ وہ مزید ظلم کرنے کی جرات کرے گا۔
۹۔ ظالم کے ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا، صرف اسی مظلوم کی مدد نہ کرنے تک رک نہیں جائے گا، بلکہ مستقبل میں کئی دوسرے مظلوموں کی مظلومیت کا باعث بنے گا، کیونکہ ظالم جرات کرے گا کہ دوسرے لوگوں پر بھی ظلم کرے۔
۱۰۔ ظالم سے دشمنی کرنے اور مظلوم کی مدد کرنے میں قریب ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ جو ظالم جہاں بھی ظلم کررہا ہے اس سے دشمنی رکھنی چاہیے، چاہے قریب ہو یا دور، اور جس مظلوم پر جہاں بھی ظلم ہورہا ہے اس کی مدد کرنی چاہیے، چاہے قریب ہو یا دور۔
نہج البلاغہ، مکتوب ۴۷۔