اب آتے ہیں سلسلہ سوالات کی جانب تو آپ نے کافی مشکل پرچہ ترتیب دیا ہے خیر کوشش کر دیکھتے ہیں اپنی سی
آپ کا پہلا سوال
1۔ شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ٹھیس پُہنچے ۔ آپ کی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہوں نے آپ کو ٹھیس پہچائی اور دکھ سے ہمکنار کرتے حقیقتِ حال تک پہنچایا ؟
شعور یا آگہی انسانی شخصیت کا ہمہ جہت مظہر ہے۔ اس کے حصول کا انحصار میری ناقص رائے کے مطابق زندگی کے محض جذباتی رُخ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ ہماری تربیت، ماحول، فطری رحجانات اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ ہمارے تجربات اس کے حصول میں کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جذبات کو ہماری زندگی میں زیادہ اہمیت تب حاصل ہوتی ہے جب ہم خود کو بہت کمزور یا بہت طاقتور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ٹھیس پہنچنے کا تعلق اُمید اور توقعات سے ہے جو لوگ دوسروں سے زیادہ اُمیدیں اور توقعات نہیں باندھتےانہیں کسی جذباتی دھچکے کا امکان اتنا ہی کم ہو جاتا ہے لیکن عمومی انسانی فطرت ہےکہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کرکے آپ شعوری یا لاشعوری طور پر جواب میں بھلے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔ ہم بحثیت ایک نارمل انسان جذبات سے کٹ کر نہیں رہ سکتے کیوں کہ زندگی کی اعلیٰ اقدار انسانوں کے جذباتِ خیر سگالی اور باہمی احترام کی مرہونِ منت ہیں۔ لطیف جذبات کا سرگم اپنے متنوع رنگوں کی رم جھم سے دنیا بھر کے فنونِ لطیفہ کی آبیاری کرتا ہے تاہم جیسا کہ عملی زندگی میں سب اچھا نہیں ہوتا تو سمجھدارانہ اور متوازن طرزِ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی داخلی دنیا کو عملی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں اور جہاں جہاں ضروری ہو اس مسابقت بھری دوڑ کی دنیا میں اپنا مناسب مقام بنانے کی جدوجہد کریں۔
گو کہ اللہ تعالیٰ نے مناسب عقل عطاکی ہے کہ میں بہت سارےمعاملات کے نتیجہ کا پیشگی اچھا اندازہ لگا لیتا ہوں مگر جہاں جہاں میں نے اپنی غیر ضروری نرم دلی کو عملی زندگی کے تقاضوں پر ترجیح دی وہاں وہاں مجھے اُس کی قیمت کبھی خوش دلی سے، کبھی نیم دلی سے تو کبھی توعا" کرہا" ادا کرنا پڑی۔ بہرحال یہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اُس کی عطا نے کسی قلق کو دل میں ٹکنے نہیں دیا۔ فی زمانہ مروت لحاظ اور بالخصوص اعتماد کی کچھ نہ کچھ قیمت چکانا پڑتی ہےاور ان صفات کا کاروبارِ زندگی میں بس اُتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنا آپ کی طبیعت یا جیب برداشت کر سکے۔حال ہی میں مکان کی تعمیر کے سلسلے میں درجنوں افراد سے واسطہ رہا اور یہ جان کر تعجب اور افسوس ہوا کہ شائد ہی ان میں سے کوئی پیشہ ورانہ یا کاروباری دیانتداری کے تقاضوں پر پورا اُترتا ہوگا۔
ہم خود اور ہمارے قریبی رشتے یعنی ماں، باپ، بہن، بھائی، شریکِ حیات اور اولاد بھی وقت، مزاج اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور زندگی کے کھیل میں آپ کا کردار کافی مشکل کا شکار ہو سکتا ہے اگر آپ کے یہ چاہنے والے ایک دوسرے کے لیے ایثار اور تواضع کی کشادہ روش چھوڑ کر حقوق اور اختیارات کے تنگ دائروں میں چلنے پر اصرار کریں۔ حساس اور مثالیت پسند لوگوں کے لیے متوازن اور کامیاب زندگی گزارنا ایک کٹھن کام ہے۔ مگر اللہ کریم آسانی دینا چاہے تو ساری مشکلیں ہموار ہو جاتی ہیں