تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

نور وجدان

لائبریرین
10۔بچپن میں کونسی اور کیسی سوچ اکثر آپ کو اسیر کیے رکھتی تھی ؟ کیا جو آپ نے بچپن میں سوچا اسے مستقبل میں حاصل کر پائے ۔؟
بچپن کا دور کچھ تجربات کے حوالے سے بہت خوابناک ہے۔پرائمری سکول میں گھر سے سکول جاتے ہوئےمیں مسمی چھیل کر اُس کی پھانکیں کھاتا ہوا جا رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ برابر میں چلنے والا ایک بچہ للچائی ہوئی نظروں سے میرے ہاتھ میں موجود مسمی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں نے ہاتھ میں موجود نصف کے قریب مسمی اُس کے حوالے کردیا جسے اُس نے خوشی خوشی لے لیا۔ میں حیران رہ گیا کہ ایسا کرتے ہی میرا دل جیسے اچانک خوشی کی تیز روشنیوں میں نہا گیا۔ یہ میرے لیے ایک عجیب سا تجربہ تھا یا مجھے اس کی ایسی توقع نہیں تھی یہ معمولی سا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ پہلا بچہ جیسا کہ عموما" زیادہ لاڈلا ہوتا ہے سو میں بھی تھا اور سکول کو تو جیسے تیسے برداشت کر لیا مگر گھر آنے کے بعدہوم ورک کبھی نہیں کیا۔ اب وہ وقت ایسا نہیں تھا کہ جب سرکاری سکولوں کے باہر بھی "مار نہیں پیار " کے دل خوش کن بورڈ لگائے جاتے تھے۔اساتذہ ( اور شائد والدین بھی)تعلیم کے شعوری نفاذ سے زیادہ عملی حکمت عملی کو کارگرسمجھتے تھے اور مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک کو وقت اور وسائل کی شدید فضول خرچی جانتے ہوئے کبھی اس کے مرتکب نہ ہوتے تھے تو نتیجہ سکول میں میری پے در پے مولا بخش سے تواضع کی صورت میں نکلا۔ اب سکول سے چھُٹی ہونے کی خوشی اور سرشاری کا نشہ مجھےاگلے دن صبح سکول روانگی تک سرشار رکھتا لیکن سکول کی طرف جاتے ہی گویا قدم من من بھاری ہو جاتےکہ آج پھر خیر نہیں۔ آپ میں سے یقینا" کچھ باخبر ایسے ہوں گے جو جانتے ہوں گے کہ سردیوں کی صبح میں نرم و نازک ٹھٹھرتے ہاتھوں پر پڑنے والی چوبی ضربات کیسے ہوشربا اثرات رکھتی ہیں۔خیر اُس وقت تک کےاپنے سارے علم کو یکجا کرکے میں نے اپنی مشکل کا حل تین کلمات کے ورد کی صورت میں نکالا"یا اللہ مدد، یا علی مدد، یا رسولﷺ مدد" ۔ سکول کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے سکول بیگ میں موجود اپنی اُجلی سفید ،بے داغ کاپیوں اور بے پناہ دھڑکتے دل کے ساتھ میں ان کلمات کا ورد کرتے سکول میں داخل ہوتا۔ وقتِ مقررہ پر کاپیاں چیک ہوتیں کام نہ کرنے والوں کی تواضح کو قطار بنتی اور اس قطار میں شامل بچے ایک ایک کر کے آگے بڑھتے اور آہ و فغاں کے نغمے ایک کورس میں گاتے ہوئے اپنے ہاتھ بغلوں میں دبا کر اچھلتے کودتےاپنی نشستوں کی طرف بڑھتے جاتےمگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھےاس جادواثر ورد کے بعد پھرکبھی یہ تکلیف نہ سہنی پڑی ۔ باری آتے ہی ماسٹر جی سر کے اشارے سے مجھےآگے جانے کا کہتے اور میں خراماں خراماں اپنے بستے کے پاس پہنچ جاتا۔یہ سلسلہ پرائمری سکول کے سارے دور میں چلتا رہا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو کبھی مار پڑی اور نہ ہی میری رائیٹنگ سپیڈ بنی۔یہ معاملہ صرف سکول کی مار سے استثنٰی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کے اثرات زندگی کے ہر پہلو پر نظر آئے دل جس چیز کو چاہتا اُس دن وہی پکی ہوتی ۔ جو پھل کھانا ہوتا شام کو ابا جی وہ لے کر آتے ۔ امتحان میں اچھے نمبر آتے (البتہ مقررہ وقت میں پرچہ حل کرنے میں مجھے بہت دقت ہوتی ۔ عادت جو نہ تھی)۔ایک عجب سا سماں تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر طرف بس اپنی ہی حکومت ہے۔ ایک اور تجربہ یہ ہوا کہ گرمیوں کی دوپہر میں سکول واپسی پر میں گھر داخل ہوتے ہی اپنی تختی اور بستہ ایک طرف پھینکتا اور کمرے میں رکھی اپنی چارپائی پر لیٹ جاتا سامنے کی دیوار میں ایک روشندان تھا جس میں میں سے باہر کا روشن نیلگوں آسمان نظر آتا تھا۔ نیم روشن سے کمرے سے آسماں کی بے کراں وسعتوں میں گھورتے ہوئے حیران سے ذہن میں تین سوالوں کی تکرارایک بازگشت کی طرح گونجتی "میں کون ہوں؟، میں کیاہوں ؟، میں کہاں ہوں؟" اور پھر کچھ ہی دیر میں ایسا محسوس ہو تا گویا میرے بدن سے میری روح ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں میرے جسم سے باہر آ گئی ہے۔ میں خود کو گوشت پوست کے ایک مجسم ڈھیر کی حالت میں دیکھ سکتا تھا اور متعجب ہوتا تھا کہ یہ کیا صورت ہے؟ جیسے ہی مجھے یہ احساس ہوتا کہ میں اپنے جسم کے باہر سے خود کو دیکھ رہا ہوں میں خوفزدہ ہو جاتا کہ اگر میں اپنے جسم میں واپس نہ جا سکا تو کیا ہوگا۔اس خوف کے زیرِ اثر میں واپس بحالی کی طرف آتا اور چند ثانئے خود کو اور اپنے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رفتہ رفتہ مجھے یاد آتا کہ یہ میں ہوں، یہ میرا گھر ہے اور یہاں میرے ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ لوگ میرے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں میں اُن کے حلیے اور حرکات و سکنات کی ایک جھلک دیکھ کر اُن کے بارے میں جان سکتا تھا کہ یہ اچھا انسان ہے یا نہیں۔ مجھے یہ یقین حاصل تھا کہ میں جس موضوع پر سوچنا چاہوں اُس کی گہرائی تک پہنچ سکتا ہوں۔ ایک اور عجب بات کہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ریت ،مٹی ، گرد وغیرہ کے باریک ترین نظر آنے والے ذرات میں بھی ایک جہان آباد ہے اور ان ذرات کی الگ الگ کہانیاں ہیں داستانیں اور بیک گراؤنڈ ہیں اور اگر میں زیادہ دلچسپی لوں توان کی تفصیلات مجھ پر ظاہر ہو جائیں گی۔ ۔مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ ساری کائناتیں میرے لیے بنی ہیں ۔ میں ہی اس کا مرکز و محور ہوں۔
ایک خیال جو لا شعوری طور ذہن میں گڑ چکا تھا وہ یہ تھا کہ "آئی ایم ناٹ این آرڈینری پرسن"۔
پھر ایک وقت آیا اوراس سارے قصے کا خاتمہ ہو گیا۔ہوا یوں کہ شومئی قسمت میں نےکہیں پڑھ لیا کہ مسلمان صرف اللہ سے مدد مانگتا ہے اور غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے جو کہ گناہِ عظیم ہے ۔ میں اپنی غیر دانستہ جسارتوں پر گھبرا کر رہ گیااور کلمات کی حیثیت مشکوک ہو گئی ذہن کی اس تبدیلی سے کلمات فوری طور پر غیر موثرہوگئے۔پھر ان کے پڑھنے سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اگر وہ غلط تھا تو یہ غلط تر لگا کہ آپ کو حاصل ایک دنیا آن واحد میں زیر و زبر ہوجائےنہ کوئی وارننگ نہ کوئی واپسی کاراستہ(کم ازکم ابھی تک نہیں ملا)۔ اناللہ و انا علیہ راجعون۔
بچپن میں یہی چاہا تھا کہ بڑے ہو کر دنیا کی سیر کریں گے اور نگر نگر آباد خدا کی بستیاں اور بیاباں دیکھیں گے۔سو بڑے ہونے کا انتظار ابھی باقی ہے۔
دانائی اسی کو کہتے ہیں کہ ہم گہرائی میں ڈوب کے آگے کا جہان دیکھ لیں... اس کو احساس کی دولت کہتے.ہیں ...کبھی کسی کی شخصیت کا اندازے میں غلطی ہوئی ...؟ ایک حساس روح کی صدا یہی ہوتی ہے "میں کون ہوں ؟کہاں ہوں؟ کیوں ہوں؟ اس کے جوابات پانے کے ابتدائی مشاہدے کو تفصیل سے بیان کیا آپ نے ... کیا اک بھی جواب ملا؟ اکثر احساس اس قدر حاوی ہوجاتا ہے ہم سمجھتے.ہیں روح جسم سے الگ ہے مگر روح الگ کہاں ہوتی ہے بس اک احساس ہی ہوتا ہے ... جیسے جیسے آپ کا احساس جسم کو واپس شعور کی حالت میں پہنچاتا آپ کو احساس ہوجاتا کہ آپ اپنے گھر میں ... ان سولات کے جوابات پانے کی تگ و دو نہیں کی آپ نے؟

کلمہ کیساتھ شک کا تعلق سمجھ نہیں آیا ...کوئی بھی کلمہ پڑھنا شرک کے مترادف کیسے ہوا؟
 
سوال نامہ:

1) آپ کے نام کا آپ کی زندگی پر کیا اثر ہے؟

2) اگر زاہد حسین ایک اصطلاح ہوتی تو اس کے اصطلاحی معانی کیا ہوتے؟

3) آپ نے آج تک کن غیر نصابی یا غیر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیا؟

4) اردو محفل کا اپ کی زندگی میں کیا کردار ہے؟

5) اردو محفل پر اور حقیقی زندگی میں آپ کے نام کے علاوہ کیا کیا چیزیں فرق ہیں؟

6) آپ کے خیال میں کن تین شخصیات نے دنیا پر سب سےزیادہ اثرات مرتب کیے؟

7) انتہائی قنوطیت کے وقت کیا کرتے ہیں؟

8) اگر آپ کو وقت میں جانا پڑے تو پیچھے جائیں گے یا آگے اور کیوں؟

9) تاریخ کا کون سا ایک واقعہ نہ ہوتا تو ہم بحثیت قوم قدرے بہتر انداز میں جی رہے ہوتے؟

10) اپنی زندگی کا نچوڑ ہمیں چند الفاظ میں بتائیے نیز یہ بھی کہ وقت کا صحیح استعمال کرنے کے لیے کیا طریقہ اپنایا جائے جس پر قائم رہا جا سکے.

11) آپ کی پسندیدہ کتب کون سی ہیں؟

12) اگر آپ کے پاس اپنے رہائش کے شہر اور ملک کے انتخاب کا اختیار ہوتا تو آپ کہاں رہتے؟

:)
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ نے جتنے نپے تلے انداز سے جواب دیا ، کمال کیا ہے:) یہ سچ بتایا ہے کہ نرم دلی سے ردعمل جو معاشرہ دیتا ہے وہ شعور کو ٹھیس پہنچاتا ہے ... "میں " اور نرم دلی دونوں متضاد ... نرم دلی نے آپ کی بہت مدد کی تو سودزیاں کے احساس کو کیسے مینج کرتے ہیں آخر خسارہ تو سب کے ہاتھ کسی نہ کسی صورت آتا ہے .؟... یہ دُنیا ہے، دنیا اک راستہ دیتی ہے ...اپنا ... نہ چلو تو توازن نہیں رہتا ..اب کس عوامل نے آپ کو اک متوازن شخصیت کے روپ میں ہم سے متعارف کرایا؟
یہ آپ کا حسنِ نظر ہےورنہ ایسا کچھ بھی خاص نہیں ہے۔انسان کے متعلق یہی کہا گیا ہے کہ یہ خسارے میں ہے ماسوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے سو خسارے سے بچنے کے لیے ہمیں خیر و بھلائی سے منسلک رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایسی گارنٹی حاصل کرنے کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ سب بہت خوب ہی رہے گا۔دنیا ایک مشکل جگہ ہے کیوں کہ یہ بہت ان پریڈکٹیبل بھی ہے اور بہت سے لگے بندھےایسے قواعد کی پابند بھی نظر آتی ہے جو شائد ہر کسی کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن جہاں ہمارے پاس چوائس محدود ہو وہاں ہم اپنی ذات میں مطابقت کی لچک تلاش یا پیداکرتے ہیں۔ متوازن رہنے کے لیے لوگوں کی تنقید کو تعمیری انداز میں استعمال کریں اور اگر لوگ آپ پر تنقید کرنے کی تکلیف نہیں کرتے تو خود اپنی ذات میں عیب تلاش کریں اور انہیں ختم یا غیر موثر کرنے کی کوشش کریں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اس جواب میں تو حل بھی موجود ہے ....:redheart:
کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی توانائی جذبات ہیں .:redheart::redheart::redheart:.. یہ جذبات ہی ہوتے ہیں جو بل گیٹس بناتے ہیں تو کہیں بدھا جیسے متلاشی ویرانوں میں بھاگ جاتے ہیں ... تو کچھ ایسے ہوتے ہیں جو احسن التقویم پر فائز ہوتے ہیں ... آپ کے نزدیک جذبات اور یقین میں کیا تعلق ہے ؟
میں سمجھتا ہوں کہ جذبات ہماری سوچ کی قابلِ محسوس شکل ہیں ۔سوچ ہمیں عمل پر اُکساتی ہےاور جذبات، سوچ کی اس کوشش کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔جب یہ شدت اس حد کو پہنچ جائے کہ ہمیں اپنی سوچ پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دلیل یا رکاوٹ اہم نہ لگے تو ہم حالتِ یقین میں ہوتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
حضرت یعقوب علیہ سلام کی بینائی چلی گئی روتے روتے مگر وہ آپ کے بیٹے وقت مقرر سے پہلے پتھر ہی رہے تھے . کیا آنسوؤں میں کمی تھی یا پتھر بہت سخت تھے ؟ ورنہ آب بھی پڑے پتھر پر مسلسل پڑے تو سوراخ ہوجاتا ہے ... آپ کے آنسوؤں نے کسی پتھر کو موم کیا ...محبوب تو آنسو نہیں دیکھ سکتا نا ...:)
میں ایک جلیل القدر نبی کے بارے میں اپنی آوارہ خیالی کے اظہار پر متامل ہوں۔جو بنیادی حقائق میں نبیوں کے بارے میں جان سکا ہوں اُن کے مطابق انبیاء معصوم ہیں وہ گناہوں سے پاک ہیں۔ اُن کا ہر عمل مشیتِ ایزدی کے طابع ہے۔اُن کی بعثت کا بنیادی مقصد لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔انبیاء کرام نے لوگوں کو احکامِ الٰہی کی تعلیم دینے میں شدید قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ اُنہیں ناحق قتل کیا گیا، اُنہیں ناصرف مالی نقصان پہنچایا گیا بلکہ شدید جسمانی اور جذباتی ایذائیں بھی دی گئیں۔خُدا جو ہر چیز پر قادر ہے اگر چاہتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ سب لوگ سچے اور پکے مسلمان پیدا ہوتے اور دین و ایمان اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کر کے مرتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ نواسہ رسول جگر گوشہء زہرا میدانِ کربلا میں خود اور اپنے پیاروں کو پیاس سے نڈھال دیکھتےہوئے شہیدہوئے۔ ہم خُدا کے فیصلوں کی ریاضیاتی اور نہ ہی کوئی جذباتی تشریح کر سکتے ہیں۔انسانوں کے لیے قوانین بنانے والا خود ہر قانون کی قید سے پاک ہے۔وہ بے نیاز ہے ۔اگر ہم خود کو کسی قابل سمجھتے ہیں تو ہمیں اُس کی بے نیازی سے ڈرنا چاہیے اور اگر خوف ہمارے اعصاب شل کرنے لگے تو ہمیں یاد کر لیناچاہیے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوی ہےاور پھر یہی کہ وہ بے نیاز ہے۔
اگر بات کسی عام انسان کی ہوتی تو میں سوچتاکہ بیٹے کے غم میں رونا خُدا کی محبت میں رونے سے الگ چیز ہے۔ایک معصوم نبی کی دُعا و التجاکی قبولیت میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے؟شائد یہ بتانا مقصود ہو کہ دعا کی قبولیت مانگنے والے کے مقام و مرتبے پر منحصر نہیں بلکہ خالصتا" اُس کی عطا کی محتاج ہے۔
اب تک ایک دو بار میں نے آنسوؤں کےہتھیار کو استعمال کیااور پھر اس کا مثبت نتیجہ بھی دیکھا ہے۔ بدقسمتی سے یہ کچھ دنیاوی معاملات میں اُس کی مدد کے لیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ میرا کامل یقین ہے کہ ہم خُدا کو اپنے کسی بھی عمل سے اپنی احتیاجات کے پورا کرنے کا پابند نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سےاُس کی صفتِ بے نیازی کی نفی ہو گی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
دانائی اسی کو کہتے ہیں کہ ہم گہرائی میں ڈوب کے آگے کا جہان دیکھ لیں... اس کو احساس کی دولت کہتے.ہیں ...کبھی کسی کی شخصیت کا اندازے میں غلطی ہوئی ...؟ ایک حساس روح کی صدا یہی ہوتی ہے "میں کون ہوں ؟کہاں ہوں؟ کیوں ہوں؟ اس کے جوابات پانے کے ابتدائی مشاہدے کو تفصیل سے بیان کیا آپ نے ... کیا اک بھی جواب ملا؟ اکثر احساس اس قدر حاوی ہوجاتا ہے ہم سمجھتے.ہیں روح جسم سے الگ ہے مگر روح الگ کہاں ہوتی ہے بس اک احساس ہی ہوتا ہے ... جیسے جیسے آپ کا احساس جسم کو واپس شعور کی حالت میں پہنچاتا آپ کو احساس ہوجاتا کہ آپ اپنے گھر میں ... ان سولات کے جوابات پانے کی تگ و دو نہیں کی آپ نے؟

کلمہ کیساتھ شک کا تعلق سمجھ نہیں آیا ...کوئی بھی کلمہ پڑھنا شرک کے مترادف کیسے ہوا؟
مجھے مختلف معتبرکتابوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ راہِ سلوک کے مسافر ان بظاہر عجیب و غریب معاملات یعنی جسم سے الگ ہو کر افلاک و عالم کی سیر وغیرہ کے مراحل طے کرتے ہیں اورایک مخصوص سطح پر پہنچ کر یہ ایک عام سی بات ہے۔میرے کیس میں یہ کام ایک کم عمر بچے کے ساتھ بغیر کسی طلب و آگاہی کے ہو گیا تو بچےکی گھبراہٹ فطری بات تھی۔اپنے تجربے کی روشنی میں مجھے توجسم کی حقیقت محض ایک انٹرفیس یا رابطہ کارسے زیادہ نظر نہیں آتی۔
یااللہ مدد کے ساتھ ساتھ یا علی مدد اور یا رسولً مدد کہنے کو شرک قرار دینے کی بابت جو خیالات اُس وقت میرے سامنے آئےاُن کی روشنی میں مجھے لگا کہ شائد میں نے کچھ غلط کیا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
1) آپ کے نام کا آپ کی زندگی پر کیا اثر ہے؟
میرا خیال ہے کہ میرے نام کے پہلے لفظ زاہد کی بہت سےمشکل مقامات پر لاج رہنے میں خالصتا" اللہ کی کرم نوازی ہےورنہ میں نےزندگی کے خاص رُخ سے ہٹنے کے بعد خود کو ایک عام اور کمزور سا بندہ ہی پایا ہے۔نام کا دوسرا حصہ حُسین بہت اہم اثرات رکھتا ہےکہ اس کی وجہ سےہر ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد کی خواہش رہتی ہے اور اس کے مقابلے میں مصلحت ایک ناقابلِ قبول طرزِ عمل اور بزدلانہ و مجرمانہ راہِ فرار محسوس ہوتی ہے۔ تو باقی اندازہ آپ خود لگا لیں کہ یہ ستم ظریفانہ سا کمبینیشن اس ناتواں پر کیا کیا ستم نہ ڈھاتا ہو گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
2) اگر زاہد حسین ایک اصطلاح ہوتی تو اس کے اصطلاحی معانی کیا ہوتے؟
یہ نام اب بھی ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے جس کے معنی حضرت امام حسین علیہ السلام کے زُہد کی پیروی کرنے والا انسان ہو سکتے ہیں۔تاہم ہم عامیوں کے نام بڑے اور کام چھوٹے ہوتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
3) آپ نے آج تک کن غیر نصابی یا غیر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیا؟
امّی جان بتاتی ہیں اور کچھ تو مجھے یاد بھی ہے کہ بچپن میں مجھے دلہنیں دیکھنے کا شوق تھا۔محلے میں ہونے والی ہر شادی کے بعد میری فرمائش ہوتی کہ مجھے دلہن دکھائی جائے۔ پھر سکول دور سے بالی وڈ اور ہالی وڈ کی سرپرستی شروع کر دی، لالی وڈ البتہ آج تک ہماری کم ذوقی کا شکار ہے۔پھر کتب بینی کا جو چسکہ پڑا تو لائبریریاں فتح کر ڈالیں۔کئی بار ابّو کے ہاتھوں درگت بنی کہ میں آوارہ کتابیں بہت پڑھتا ہوں۔طبعیت میں جوش تھا تو اس قدر کہ ننجا بننے کی دھن سر پر سوار رہتی تھی اور تایا جی کےبھینسوں والے احاطے میں موجود کمرے کی چھت پر کنکر جمع کرکے اکیلے ہی پڑوسیوں کی چھت پر موجود کئی کئی لڑکوں سے سنگ باری کا مقابلہ شروع کرنا اور اُنہیں شکستِ فاش دینی اہم شغل رہا۔ سکول میں آدھی چھٹی کے وقت پٹھو گرم کھیلنا اور میدان کی فضا میں تیرتی گیند کو چھونے کی اجازت نہ دینا۔سانس روکنے کے مقابلوں میں اوّل آنا۔پھر طبیعت نے رُخ بدلا تو کرکٹ کھیلنا محض اس لیے چھوڑ دیا کہ مخالف ٹیم نےاپنے چوکوں اور چھکوں سے بھری دوپہر میں میدان کے ہر کونے میں دوڑنےپر مجبور کیا اور جب باری آئی تو موصوف پہلی گیند پر آؤٹ ۔میٹرک کے بعد ٹیکنالوجی کالج میں الیکٹرونکس ٹیکنالوجی میں داخلہ مطلوب تھا کسی نے کہا کہ الیکٹرونکس کا میرٹ آج کل بہت ہائی ہے کھیلوں کی سیٹ پر بھی اپلائی کر دو۔ مشورہ دل کو لگا مگر پتا چلا کہ میرےہردلعزیز کھیلوں پٹھو گرم اور لڈو کو سرے سے کھیل ہی تسلیم نہیں کیا جاتا لا حولہ ولا قوت۔ کرکٹ کا میں پہلے ہی بائیکاٹ کر چکاتھا سو قرعہ فال ہاکی کے نام نکلا۔ سب سے زیادہ پریشانی اُس وقت ہوئی جب پتا چلا کہ یہ تو نیکر پہن کر کھیلنا پڑے گی۔ طبیعیت اس فحاشی اور عریانی کو کھیل کا حصّہ بنائے جانےپر سخت کوفت کا شکار ہوئی۔ تاہم میرے جیسے اور بھی تھے جو مانگے کی ہاکی لے کر شلوار قمیض میں وہاں پُہنچے ہوئے تھے۔شلوار قمیض کے ساتھ ٹیسٹ کھیلنے کی اجازت ملی تو بہت خوشی ہوئی تاہم یہ خوشی اُس وقت ہوا ہو گئی جب ہاکی کے ساتھ گیند کے پیچھے بھاگنا پڑا۔ اس کا بالکل کوئی تجربہ نہ تھا ۔ نتیجا اس کا یہ نکلا کہ اب دونوں ٹیمیں گیند کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف گول کرنے کے لیے میدان میں اِدھر سے اُدھر بھاگ رہی تھیں اور میں نہ مٹنے والے پندرہ بیس فٹ کے فاصلے پر اُن کے پیچھے ایسے بھاگ رہا تھا جیسے سلطان راہی اپنا مشہورِ زمانہ مولا بخش لے کر دشمنوں کے بزدل گروہ کے پیچھے بھاگتا ہے۔ خاندان میں اپنی عمر سے کوئی پانچ سات سال بڑی ایک مہربان ہستی کی خوش کلامی و خوش اطواری کا مداح ہوا تو ساری دوپہر اُن کے دولت خانے پر پڑے لڈو کھیلتے رہنا معمول بن گیا۔ محترمہ کی والدہ نے اس کھیل میں میری غیر معمولی لگن دیکھی تو ہماری حوصلہ شکنی پر آمادہ ہو گئیں ۔ آہ!!! مگر وقت نے ثابت کیا کہ ہم اتنے کم حوصلہ ہرگز نہ تھے۔ذرا سی مزاحمت سامنے آتے ہی یہ سلسلہ ایک افلاطونی عشق میں تبدیل ہوگیا۔ بڑوں کو ہماری باہمی دلچسپی معنی خیز محسوس ہونے لگی ایک دن سردیوں کی چمکتی دوپہر میں اُن کی چھت پر دیگر افراد کے ساتھ دھوپ میں بیٹھےہم دونوں بھی خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ میری کسی بات پر محترمہ بے ساختہ کھلکھلا کرہنس پڑیں۔ میری پرنانی صاحبہ جو کہ ساتھ ہی بیٹھیں تھیں ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور ایک جملہ دہرایا "چٹے دند ہسنوں نئیوں رہندے تے لوکی پیہڑے شک کردے"۔ بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ کسی فلمی گانے کا بول تھا جو موقع کی مناسب سے ادا کیا گیا ۔ خیر یہ داستانِ طلسم ہوشربا پھر کہیں سہی۔ہائی سکول سے فراغت کے بعد ایک کلاس فیلو کی سربراہی میں خدمتِ خلق کی ایک تنظیم آرگنائز کی اور اُس کی سرگرمیوں میں حصّہ لیا۔ الحمدللہ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ کافی مستحکم ہو چکا ہے اور آج اس کے موجودہ مقام پر نظر ڈالتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
4) اردو محفل کا اپ کی زندگی میں کیا کردار ہے؟
مثبت کردار ہے ۔ اس لیے کہ یہاں اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت کے پیشِ نظر اِن کی ترتیب و تنظیم کا موقع بھی ملتا ہے اوربعض دفعہ اس عمل سے گزرنے کے بعد حاصل ہونے والی تحریر مجھے زیادہ فائدہ مند اور عمل انگیز لگتی ہے۔پھرمعلوماتِ عامہ و خواصہ کے اعتبار سے جو کنٹری بیوشن احباب کی جانب سے ہوتی ہے اُس کا نعم البدل ملنا مشکل ہے۔یہ اُردو زبان وادب کی خدمت کی ایک مخلصانہ کوشش ہے اس لیے بھی یہاں آ کر خوشی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
4۔آپ کی ایجوکیشن اور انسٹیوٹ؟آپ کی ڈیٹ آف برتھ اور اسٹار؟
میں نے انسٹیٹیوٹ آف سادرن پنجاب سے کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کیا ہے اور آگےپی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ہے۔
کمپیوٹر سائنس کے کس ٹاپک میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے مختلف معتبرکتابوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ راہِ سلوک کے مسافر ان بظاہر عجیب و غریب معاملات یعنی جسم سے الگ ہو کر افلاک و عالم کی سیر وغیرہ کے مراحل طے کرتے ہیں اورایک مخصوص سطح پر پہنچ کر یہ ایک عام سی بات ہے۔میرے کیس میں یہ کام ایک کم عمر بچے کے ساتھ بغیر کسی طلب و آگاہی کے ہو گیا تو بچےکی گھبراہٹ فطری بات تھی۔اپنے تجربے کی روشنی میں مجھے توجسم کی حقیقت محض ایک انٹرفیس یا رابطہ کارسے زیادہ نظر نہیں آتی۔
یااللہ مدد کے ساتھ ساتھ یا علی مدد اور یا رسولً مدد کہنے کو شرک قرار دینے کی بابت جو خیالات اُس وقت میرے سامنے آئےاُن کی روشنی میں مجھے لگا کہ شائد میں نے کچھ غلط کیا ہے۔

انسان کا ربط جب براہ راست منسلک ہوجائے تو شرک کی اپنی ہی تعریف بن جاتی ہے. مسالکی بدعات نے معاملات مزید مشکل ترین کردیئے ہیں ...

جب میرے پاس میرا دوست سامنے بیٹھا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے اس کی تکریم اولاًً جائز ہے .. شیخ سعدی فرما گئے ہیں

ع: بعد از خُدا بزرگ توئی قصہ مختصر

تو معاملہ محبت و عشق کی حدود کا ٹھہرتا نظر آتا ہے جبکہ میں نے اپنے قواعد و گرامر بنالیے ہیں تو کیا کیا جاسکتا ہے ... تاریخ گواہ ہے کہ عشق کے فسانے حضرتِ انسان کا نام اس فانی دُنیا میں لافانی کرگئے ... اب دیکھیے بُو علی قلندر فرماتے ہیں ...


حیدریم قلندرم مستم
بندہِ خدا علی ہستم

ان کی محبت کی انتہا یہیں پر تھیں اور اپنی حدود کا دائرہ قائم کرتے دارِ فنا سے بقا کو چلے گئے مگر جذبات کے قیمتی موتی و سیپیاں تاحل سلامت ہیں ..ہم ہیں کہ ان کو سنتے اور سردھنتے ہیں .. خواجہ معین الدین چشتی بہت اعلی پائے کے بُزرگ تھے اور ان کی خدمات کا اندازہ ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے ... اللہ نے ان کا مقام بُلند رکھا .. سوچتی ہوں وہ جناب داتا گنج بخش کے لیے کیا فرما گئے .. ان کی حدود کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا اور اپنا آئنہ ایسے دیکھا ...


گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہ رہنما

یہاں ڈھیروں ڈھیر مثالیں مل جائیں گی مگر بات اتنی ہی کہ جس کی، جس جگہ تک پُہنچ ہوتی ہے اسکو اس جہاں کی خواہش ہوتی ہے باقی کا علاقہ ممنوعہ ہوجاتا ہے .. یہ سب اپنے اپنے پیمانے سے نکلا نور ہے جو ہمیں ایسا سوچنے، سمجھنے پر مجبور کردیتا ہے ...

آپ کے نام کے ساتھ زاہد بھی ہے اور حسین بھی .. حُسین نام سے جس گہری نسبت کا آپ نے اظہار کیا ہے میں اس عقیدت کے ساتھ پڑے پھولوں کی خوشبو محسوس کرتی رہی ہوں ...مجھے اس نسبت سے کافی خوشی سی محسوس ہوتی ہے .. شاید نسبت کا دوسرا نام قربانی سے منسوب ہے .. امامِ حُسین علیہ سلام سے جس کو بھی نسبت ٹھہرے گی اس کی وجہ یہی معتبر ٹھہرے گی ...

جس آفاقی نوعیت کے مشاہدات و تجربات آپ بچپن کی عمر کے حوالے سے بتاتے ہیں تو بس آپ تو اقبال کے شعر کے مطابق "سُراغِ زندگی " تبھی پاچکے تھے .. رفاعہِ عامہ کے جن کاموں میں آپ کی ذات منسلک ہے شاید قدرت نے آپ کو خود کو پروو کرنے کا بہترین موقع دے دیا ہے اور اس عمل کی دنیا میں آپ کی رفتار بھی سماج سے مطابقت رکھتی ہے ..

آپ کے مشاہدات شعور و لاشعور پر استوار ہوتے ہوں گے کیونکہ میری ذات جسم فانی سے روح کا رشتہ کافی مضبوط جانتی ہے مگر یہ بھی اپنے اپنے تجربات ہیں. شاید ہر ذات کا اپنا ذاتی تجربہ ہوتا ہے. ..میری والدہ قریب کی عمر چھ، سات سال ہی ہوگی جب ان کے والدین کے گھر چوری ہوگئی تھی ... سب پریشان تھے کدھر گیا وہ ٹیپ ریکارڈر .. ان کی حساسیت نے ان کو اس گمشدہ شے کی اصل جگہ مشاہدہ کرادی اور جب تصدیق کرائی گئی تو واقعتا وہ وہیں تھیں جہاں پر میری والدہ نے اُسے دیکھا تھا اور وہ کسی سبزی والے کی دکان سے گھر واپس لایا گیا ... یہ دنیا ہے اور یہاں ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کی عقلی توجیہ نہیں ہوتی ہے ..اس لیے آپ کی روح کا جسم فانی سے الگ ہونا حقیقت ہے مگر شعور کی وہ سطح جو بچپن میں تھی اس کی معراج آپ کہاں تک دیکھتے ہیں یہ سوال بھی قابلِ غور ہے .. آپ کی سوچ آپ کو کن جہانوں کی آج کل سیر کراتی ہے، یہ امر قابل دلچسپ ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میں ایک جلیل القدر نبی کے بارے میں اپنی آوارہ خیالی کے اظہار پر متامل ہوں۔جو بنیادی حقائق میں نبیوں کے بارے میں جان سکا ہوں اُن کے مطابق انبیاء معصوم ہیں وہ گناہوں سے پاک ہیں۔ اُن کا ہر عمل مشیتِ ایزدی کے طابع ہے۔اُن کی بعثت کا بنیادی مقصد لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔انبیاء کرام نے لوگوں کو احکامِ الٰہی کی تعلیم دینے میں شدید قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ اُنہیں ناحق قتل کیا گیا، اُنہیں ناصرف مالی نقصان پہنچایا گیا بلکہ شدید جسمانی اور جذباتی ایذائیں بھی دی گئیں۔خُدا جو ہر چیز پر قادر ہے اگر چاہتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ سب لوگ سچے اور پکے مسلمان پیدا ہوتے اور دین و ایمان اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کر کے مرتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ نواسہ رسول جگر گوشہء زہرا میدانِ کربلا میں خود اور اپنے پیاروں کو پیاس سے نڈھال دیکھتےہوئے شہیدہوئے۔ ہم خُدا کے فیصلوں کی ریاضیاتی اور نہ ہی کوئی جذباتی تشریح کر سکتے ہیں۔انسانوں کے لیے قوانین بنانے والا خود ہر قانون کی قید سے پاک ہے۔وہ بے نیاز ہے ۔اگر ہم خود کو کسی قابل سمجھتے ہیں تو ہمیں اُس کی بے نیازی سے ڈرنا چاہیے اور اگر خوف ہمارے اعصاب شل کرنے لگے تو ہمیں یاد کر لیناچاہیے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوی ہےاور پھر یہی کہ وہ بے نیاز ہے۔
اگر بات کسی عام انسان کی ہوتی تو میں سوچتاکہ بیٹے کے غم میں رونا خُدا کی محبت میں رونے سے الگ چیز ہے۔ایک معصوم نبی کی دُعا و التجاکی قبولیت میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے؟شائد یہ بتانا مقصود ہو کہ دعا کی قبولیت مانگنے والے کے مقام و مرتبے پر منحصر نہیں بلکہ خالصتا" اُس کی عطا کی محتاج ہے۔
اب تک ایک دو بار میں نے آنسوؤں کےہتھیار کو استعمال کیااور پھر اس کا مثبت نتیجہ بھی دیکھا ہے۔ بدقسمتی سے یہ کچھ دنیاوی معاملات میں اُس کی مدد کے لیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ میرا کامل یقین ہے کہ ہم خُدا کو اپنے کسی بھی عمل سے اپنی احتیاجات کے پورا کرنے کا پابند نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سےاُس کی صفتِ بے نیازی کی نفی ہو گی۔


پیمانہ جب توٹ جاتا تو کرچیاں حاصل ہوجاتی ہیں ... کبھی کبھی آواز، صدائیں اس کو توڑ دیتی ہیں تو کبھی زمین کی سختی .... کسی کی آہ و زاریاں ختم نہیں ہوتیں تو کسی کے دل میں رقت سے طوفان مچ جاتا ہے تو کسی کو سمندر جیسا سکون پسند ہوتا ہے چاہے اس کی لہریں جس قدر شور مچالیں .... انسانی خصائل و اطوار کی تشبیہات بھی اسی لیے ان سے دی جاتی ہیں کہ کہیں کچھ نہ کچھ یکساں ضرور ہوتا ہے ...

فیسبک معتبر حوالہ نہیں پر اچھی بات جہاں سے ملے لے لینی چاہیے ... اک انسان عاجزی سے دکھوں کا اظہار کرتے شکوہ زبان پر لانے کی سعی میں ہوتا ہی ہے کہ اس کو طائف میں قیام کا منظر دکھا دیا جاتا ہے جہاں سے احد کے میدان میں ہوتے مظالم کو دیکھ کر اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے کہ میرا دُکھ ...؟ میرا دکھ کچھ نہیں جو دکھ میرے نبی صلی علیہ والہ وسلم نے سَہا ہے ...

میرا دل کا پیمانہ چھوٹا ہے اس لیے کسی اک انسان کی محبت کے سوا کچھ ملتا نہیں ہے تو آپ کہیں گے مجھے زندگی نے محبت کے صدمات دیئے(بالفرض) آپ کا دل پانچ لگاتار محبتوں سے ٹوٹ گیا اور پھر آپ کو معراج ملی ... میری معراج کی انتہا آپ کی ابتدا ہوگی ... آپ کی معراج اللہ جانے ... انبیاء کا دل نرم، ملائم ریشم کی طرح اور یقین فولادی ہوتا ہے .. ان کے پاس "جذبہ " ودیعت کردہ اتنا ہوتا ہے کہ ساری انسانیت سے محبت کرسکیں اور اس محبت میں چوٹ سہیں .. یہ چوٹ، تکلیف اور آزمائش کی صورت دل پر بار بار ضرب لگاتی ہے اور دل بارگاہِ ایزدی میں جھکا رہتا ہے. یہی " نیاز "کا سجدہ" بے نیاز "کے سامنے مقبول ہوتا ہے تو اس کی سدا بلند ہوجاتی ہے

فاذکرونی .. اذکرکم ...

یہ بحثیت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہمیں فیض تحفتاً ملا ہے جبکہ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے لیے ارشاد ہوا

ورفعنا لک ذکرک ...

ہم چونکہ چھوٹے اور عاجز ہوتے ہیں اس لیے ہم مجاز میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انبیاء کرام پر آزمائشیں دی جاتی ہے اور جو نبی اپنی امت کے لیے دعائے بد کے لیے ہاتھ اٹھائے تو مزید آزمائش میں مبتلا ہوجاتا ہے اس لیے "لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین " بطور نجات عطا کیا جاتا ہے. نبی کی محبت پورے عالم کے لیے ہوتی ہے اور آپ کی میری محبت کا عالم گنے چنے افراد ... محبت اپنا آپ جب تک منوا نہ لے اور زمانہ گواہی نہ دے دے معراج نصیب نہیں ہوتی ہے ..
 

آوازِ دوست

محفلین
کمپیوٹر سائنس کے کس ٹاپک میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟
کمپیوٹر سائنس ایک کمپرومائز سا ہے۔ میٹرک سے ہی سوچ لیا تھاکہ فزکس کی ذیل میں آنے والی الیکڑونکس ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں جانا ہے۔ الیکڑونکس میری ہابی رہی ہے لیکن میٹرک میں فرسٹ ڈویژن ہونے کے باوجود الیکڑونکس کے تین سالہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ ڈپلومے کا میرٹ نہیں بنااور مجبورا" کیمیکل ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا۔ چند ماہ خود پر شدید جبر کر کے کیمیکل ٹیکنالوجی کو کھینچنے کی کوشش کی اور ساتھ ایوننگ شفٹ میں پاک نیدرلینڈز ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر میں الیکٹرونکس کے دو سالہ پروگرام میں داخلہ لے لیا تاکہ شوق کی تسکین ہو سکے۔ تھوڑے ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیمیکل ٹیکنالوجی کا ماحول اور تعلیم میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں سو اسے چھوڑ کر الیکڑونکس کی طرف ہی آگیا اور انسٹیٹیوٹ کی پڑھائی کے ساتھ ایک الیکڑونکس ورکشاپ میں بھی جانا شروع کردیا۔ جب یہ دو سالہ سرٹیفیکیٹ پروگرام مکمل ہوا تو پتا چلا کہ اس کے آگے کچھ نہیں ہے آپ مزید تعلیم کے لیے اس کی بنیاد پر کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کی بے شمار خامیوں میں سے یہ ایک انتہائی بدنما خامی میری مطلوبہ فیلڈ میں مزید تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بن گئی ۔ پھر جاب کے ساتھ پرائیویٹ ایف اےکیا، بی اے کیا، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ یہ سوچتے ہوئے کیا کہ چلو کمپیوٹر سائنس بھی کسی نہ کسی طور الیکٹرونکس سے منسلک تو ہےسو اسی میں رسمی تعلیم آگے بڑھاتے ہیں۔ پھر جاب کے ساتھ ہی ورچول یونیورسٹی سے ایم سی ایس کیا اور اندازہ ہوا کہ اس فیلڈ میں وہ چاشنی محسوس نہیں ہوتی۔ پھر آئی ایس پی سے ایم فل کیا تو آرٹیفیشل اینٹیلیجنس، مشین لرننگ اور ایکسپرٹ سسٹمز قابل ِ غورموضوعات لگے پھر انہی کااطلاق نیچرل لینگوئج پروسیسنگ کے مخلتف حصوں میں دیکھا اوراین ایل پی کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنانے کی شعوری کوشش کی۔اب میری خواہش تو یہ ہے کہ میں مابعدالطبیعیات میں پی ایچ ڈی کروں لیکن یہ کم از کم پاکستان میں رہتے ہوئے تو ممکن نظر نہیں آتا۔ حال ہی میں گوگل نے ملٹیپل لینگوئج مشین ٹرانسلیشن میں اچھی خاصی چھلانگ لگائی ہے۔دیگر زبانوں کی طرح اس کے اُردو کے حصے میں بھی بہتری کی کافی گنجائش نظر آتی ہے۔ اگرکوئی سبب بنا تو اسے نیکسٹ لیول پر لے جا کر پی ایچ ڈی کی ایک ڈگری کمائی جا سکتی ہے۔سٹرونگ اے آئی کی اگر کوئی حقیقت ہے تو اس کی جڑیں کہیں نہ کہیں جا کر مابعد الطبیعیات کو ضرور چھوتی ہیں (ابھی تک میں سٹرونگ اے آئی کے بنیادی تصور کو درست تسلیم نہیں کرتاہو سکتا ہے کہ مزید مطالعہ اس خیال میں کوئی لچک لے آئے) لہٰذا اس میں بھی کام ہو سکتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
میری ذات جسم فانی سے روح کا رشتہ کافی مضبوط جانتی ہے مگر یہ بھی اپنے اپنے تجربات ہیں. شاید ہر ذات کا اپنا ذاتی تجربہ ہوتا ہے.
دنیا گلوبل ویلج کہلاتی ہے مگر اربوں نفوس پر مشتمل یہ گاؤں اتنا بڑا ہے کہ یہاں اور بھی کئی لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو آپ جیسا سوچتے ہیں یا آپ جیسی سوچ میں آپ سے بہت آگے پہنچ چکے ہوتے ہیں۔روح سے جسم کا تعلق اگرکافی مضبوط نہ ہوتا تو جسم کی آلودگی روح پر اثر انداز نہ ہو سکتی۔ میری کسی بات کا مقصد اس تعلق کو کمزور ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ میں نے صرف یہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس تعلق کی تمام تر مضبوطی کے باوجود جسم کی حیثیت کمتر ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ غزالی اسے سوار کی سواری قرار دیتے ہیں۔ آپ کو بات سمجھانے بیٹھا تو مجھ پر لفظ سوار کے حوالے سے غزالی کے بات کے کچھ نئے معنی کھُلے۔ آپ جانتی ہیں کہ اپنی ممکنہ حالت کے حوالےسے: سواری کبھی۔۔۔۔۔۔ سوار سے خالی ۔۔۔۔۔۔بھی ہو سکتی ہے اور کبھی اُس پر ۔۔۔۔۔۔سوار موجود۔۔۔۔۔۔ بھی ہو سکتا ہے اور سواری پر بیک وقت۔۔۔۔۔۔ ایک سے زیادہ سوار۔۔۔۔۔ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ سوار سے خالی سواری والی کہانی تو اپنی کیفیت کے حوالے سے میں نے سُنا دی اور سواری پر موجود سوار کی مثال ہم سب کی نارمل زندگی ہےجس میں روح اور جسم باہم مربوط ہوتے ہیں تو یہ سواری پر ایک سے زیادہ سواروں کی کیا منطق ہے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ کوئی لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے کہ ملتان میں پاک عرب فرٹیلائزر سے ملحق نئی تعمیر شدہ آبادی کی ایک مسجد کے امام قاری غلام مستقیم صاحب کے پاس جانا ہوا ۔ معلوم ہوا تھاکہ قاری صاحب جنات کے ستائے ہوئے لوگوں کا علاج کرتے تھے۔ اُن کی مسجد میں چند لوگ اور بھی بیٹھے تھے کہ اتنے میں باہرایک گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی سے چند مرد و خواتین اور ایک لڑکی پر مشتمل فیملی مسجد میں داخل ہوئی۔ لڑکی کی عمر قریبا" پندرہ ، بیس سال ہو گی۔ اُنہوں بتایا کہ قاری صاحب سے ٹائم لیا ہوا ہے لڑکی کو جنات کی تکلیف ہے اور وہ کافی دور سے آئے ہیں۔ اتنے میں قاری صاحب ملحق رہائش گاہ سے مسجد میں آئے اور اُن لوگوں سے حال احوال پوچھا۔ پھرقاری صاحب نے کہا کہ تشریف رکھیں جنات کی کارستانی ابھی سامنے آجائے گی۔ ہم سب ایک دری پر بیٹھے بغور لڑکی کی کیفیت کا مشاہدہ کر رہے تھے اُنہوں نے لڑکی سے کچھ سوالات پوچھے اور کچھ آیات تلاوت کرنا شروع کر دیں پھر لڑکی پر یہ کہتے ہوئے دم کیا کہ جو بھی جن اس پر موجود ہو حاضر ہو جائے ۔لڑکی کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اُس کی حالت میں ایک واضح تبدیلی نظر آئی۔ قاری صاحب نے بتایا کہ جن حاضر ہو چکا ہے ۔ اُنہوں نے لڑکی سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ تم مسلمان ہو؟ اس کو کیوں پریشان کرتے ہو؟ لڑکی کے حلق سے ایک اجنبی اور کھردری آواز برآمد ہوئی جو ہرگز اُس کی اپنی آواز کے جیسی نہیں تھی۔ اُس نے قاری صاحب کے سوالوں کے جواب دینا شروع کیے ۔ آخر میں اُس سے لڑکی کی جان بخشی کے قول و قرار لیے۔ اُسے لڑکی کو مزید پریشان کرنے کی صورت میں جلا دینے کی دھمکی دی اور اُس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم اُٹھوا کر رخصت کر دیا ۔ لڑکی واپس اپنے حواس میں آئی تو اُسے کچھ یاد نہ تھا کہ اُس کے ذریعے کیا مکالمہ ہوا تھا۔ اس سے قدرے مختلف لیکن اس طرز کا ایک واقعہ اس سے پہلے شجاعباد میں وہاں رہنے والے ایک دوست کی مدد سے مشاہدے میں آیا تھا۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ ہمارا جسم نہ صرف یہ کہ ایک انٹرفیس یا رابطہ کار کے طور پر ہمارے لیے کام کرتا ہے بلکہ مخصوص حالات میں اس انٹرفیس کو کوئی اور بھی استعمال کر سکتا ہے اور ہم اس "ادر یوزر سیشن "سے لا علم رہ سکتے ہیں۔ اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور کوئی اس کا آسانی سے یقین نہیں کرتا۔ میں اس واقعے کا ہرگز ذکر نہ کرتا اگر مجھے چند دن پہلے یو ٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوتا۔یہ بالکل اُسی واقعے کی ری انٹیکٹمنٹ لگتی ہے جو برسوں قبل میری آنکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ پتریاٹہ کے پیر عظمت نواز صاحب ہیں ۔ یو ٹیوب پر ان سے متعلق کافی وڈیوز ہیں میں نے جو دیکھی وہ مسلم اوزیفہ جن بعمر 700 سال والی تھی۔آپ اپنی سہولت کے مطابق اسے صحیح یا غلط سمجھ لیں، سچ یا جھوٹ جو چاہیں مان لیں کیوں کہ فی الحال ہمارا اس سے لینا دینا صرف اتنا ہے کہ یہ معاملہ ہمارے سواری کے تصور کی ایک سے زیادہ سواروں والی حالت کی بخوبی وضاحت کرتا ہےبلکہ ایک دلچسپ پہلو سامنے لاتا ہے کہ ہمارا یہ انٹرفیس ہیک بھی ہو سکتا ہے۔ واللہ عالم الغیب۔
 

آوازِ دوست

محفلین
فاذکرونی .. اذکرکم ...

یہ بحثیت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہمیں فیض تحفتاً ملا ہے جبکہ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے لیے ارشاد ہوا

ورفعنا لک ذکرک ...
آپ کے یہ دونوں حوالے میرے بھی پسندیدہ ہیں ۔دونوں میں جمال و کمال کی تجلیّاں محسوس ہوتی ہیں۔
 
Top