نور وجدان
لائبریرین
دانائی اسی کو کہتے ہیں کہ ہم گہرائی میں ڈوب کے آگے کا جہان دیکھ لیں... اس کو احساس کی دولت کہتے.ہیں ...کبھی کسی کی شخصیت کا اندازے میں غلطی ہوئی ...؟ ایک حساس روح کی صدا یہی ہوتی ہے "میں کون ہوں ؟کہاں ہوں؟ کیوں ہوں؟ اس کے جوابات پانے کے ابتدائی مشاہدے کو تفصیل سے بیان کیا آپ نے ... کیا اک بھی جواب ملا؟ اکثر احساس اس قدر حاوی ہوجاتا ہے ہم سمجھتے.ہیں روح جسم سے الگ ہے مگر روح الگ کہاں ہوتی ہے بس اک احساس ہی ہوتا ہے ... جیسے جیسے آپ کا احساس جسم کو واپس شعور کی حالت میں پہنچاتا آپ کو احساس ہوجاتا کہ آپ اپنے گھر میں ... ان سولات کے جوابات پانے کی تگ و دو نہیں کی آپ نے؟10۔بچپن میں کونسی اور کیسی سوچ اکثر آپ کو اسیر کیے رکھتی تھی ؟ کیا جو آپ نے بچپن میں سوچا اسے مستقبل میں حاصل کر پائے ۔؟
بچپن کا دور کچھ تجربات کے حوالے سے بہت خوابناک ہے۔پرائمری سکول میں گھر سے سکول جاتے ہوئےمیں مسمی چھیل کر اُس کی پھانکیں کھاتا ہوا جا رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ برابر میں چلنے والا ایک بچہ للچائی ہوئی نظروں سے میرے ہاتھ میں موجود مسمی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں نے ہاتھ میں موجود نصف کے قریب مسمی اُس کے حوالے کردیا جسے اُس نے خوشی خوشی لے لیا۔ میں حیران رہ گیا کہ ایسا کرتے ہی میرا دل جیسے اچانک خوشی کی تیز روشنیوں میں نہا گیا۔ یہ میرے لیے ایک عجیب سا تجربہ تھا یا مجھے اس کی ایسی توقع نہیں تھی یہ معمولی سا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ پہلا بچہ جیسا کہ عموما" زیادہ لاڈلا ہوتا ہے سو میں بھی تھا اور سکول کو تو جیسے تیسے برداشت کر لیا مگر گھر آنے کے بعدہوم ورک کبھی نہیں کیا۔ اب وہ وقت ایسا نہیں تھا کہ جب سرکاری سکولوں کے باہر بھی "مار نہیں پیار " کے دل خوش کن بورڈ لگائے جاتے تھے۔اساتذہ ( اور شائد والدین بھی)تعلیم کے شعوری نفاذ سے زیادہ عملی حکمت عملی کو کارگرسمجھتے تھے اور مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک کو وقت اور وسائل کی شدید فضول خرچی جانتے ہوئے کبھی اس کے مرتکب نہ ہوتے تھے تو نتیجہ سکول میں میری پے در پے مولا بخش سے تواضع کی صورت میں نکلا۔ اب سکول سے چھُٹی ہونے کی خوشی اور سرشاری کا نشہ مجھےاگلے دن صبح سکول روانگی تک سرشار رکھتا لیکن سکول کی طرف جاتے ہی گویا قدم من من بھاری ہو جاتےکہ آج پھر خیر نہیں۔ آپ میں سے یقینا" کچھ باخبر ایسے ہوں گے جو جانتے ہوں گے کہ سردیوں کی صبح میں نرم و نازک ٹھٹھرتے ہاتھوں پر پڑنے والی چوبی ضربات کیسے ہوشربا اثرات رکھتی ہیں۔خیر اُس وقت تک کےاپنے سارے علم کو یکجا کرکے میں نے اپنی مشکل کا حل تین کلمات کے ورد کی صورت میں نکالا"یا اللہ مدد، یا علی مدد، یا رسولﷺ مدد" ۔ سکول کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے سکول بیگ میں موجود اپنی اُجلی سفید ،بے داغ کاپیوں اور بے پناہ دھڑکتے دل کے ساتھ میں ان کلمات کا ورد کرتے سکول میں داخل ہوتا۔ وقتِ مقررہ پر کاپیاں چیک ہوتیں کام نہ کرنے والوں کی تواضح کو قطار بنتی اور اس قطار میں شامل بچے ایک ایک کر کے آگے بڑھتے اور آہ و فغاں کے نغمے ایک کورس میں گاتے ہوئے اپنے ہاتھ بغلوں میں دبا کر اچھلتے کودتےاپنی نشستوں کی طرف بڑھتے جاتےمگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھےاس جادواثر ورد کے بعد پھرکبھی یہ تکلیف نہ سہنی پڑی ۔ باری آتے ہی ماسٹر جی سر کے اشارے سے مجھےآگے جانے کا کہتے اور میں خراماں خراماں اپنے بستے کے پاس پہنچ جاتا۔یہ سلسلہ پرائمری سکول کے سارے دور میں چلتا رہا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو کبھی مار پڑی اور نہ ہی میری رائیٹنگ سپیڈ بنی۔یہ معاملہ صرف سکول کی مار سے استثنٰی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کے اثرات زندگی کے ہر پہلو پر نظر آئے دل جس چیز کو چاہتا اُس دن وہی پکی ہوتی ۔ جو پھل کھانا ہوتا شام کو ابا جی وہ لے کر آتے ۔ امتحان میں اچھے نمبر آتے (البتہ مقررہ وقت میں پرچہ حل کرنے میں مجھے بہت دقت ہوتی ۔ عادت جو نہ تھی)۔ایک عجب سا سماں تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر طرف بس اپنی ہی حکومت ہے۔ ایک اور تجربہ یہ ہوا کہ گرمیوں کی دوپہر میں سکول واپسی پر میں گھر داخل ہوتے ہی اپنی تختی اور بستہ ایک طرف پھینکتا اور کمرے میں رکھی اپنی چارپائی پر لیٹ جاتا سامنے کی دیوار میں ایک روشندان تھا جس میں میں سے باہر کا روشن نیلگوں آسمان نظر آتا تھا۔ نیم روشن سے کمرے سے آسماں کی بے کراں وسعتوں میں گھورتے ہوئے حیران سے ذہن میں تین سوالوں کی تکرارایک بازگشت کی طرح گونجتی "میں کون ہوں؟، میں کیاہوں ؟، میں کہاں ہوں؟" اور پھر کچھ ہی دیر میں ایسا محسوس ہو تا گویا میرے بدن سے میری روح ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں میرے جسم سے باہر آ گئی ہے۔ میں خود کو گوشت پوست کے ایک مجسم ڈھیر کی حالت میں دیکھ سکتا تھا اور متعجب ہوتا تھا کہ یہ کیا صورت ہے؟ جیسے ہی مجھے یہ احساس ہوتا کہ میں اپنے جسم کے باہر سے خود کو دیکھ رہا ہوں میں خوفزدہ ہو جاتا کہ اگر میں اپنے جسم میں واپس نہ جا سکا تو کیا ہوگا۔اس خوف کے زیرِ اثر میں واپس بحالی کی طرف آتا اور چند ثانئے خود کو اور اپنے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رفتہ رفتہ مجھے یاد آتا کہ یہ میں ہوں، یہ میرا گھر ہے اور یہاں میرے ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ لوگ میرے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں میں اُن کے حلیے اور حرکات و سکنات کی ایک جھلک دیکھ کر اُن کے بارے میں جان سکتا تھا کہ یہ اچھا انسان ہے یا نہیں۔ مجھے یہ یقین حاصل تھا کہ میں جس موضوع پر سوچنا چاہوں اُس کی گہرائی تک پہنچ سکتا ہوں۔ ایک اور عجب بات کہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ریت ،مٹی ، گرد وغیرہ کے باریک ترین نظر آنے والے ذرات میں بھی ایک جہان آباد ہے اور ان ذرات کی الگ الگ کہانیاں ہیں داستانیں اور بیک گراؤنڈ ہیں اور اگر میں زیادہ دلچسپی لوں توان کی تفصیلات مجھ پر ظاہر ہو جائیں گی۔ ۔مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ ساری کائناتیں میرے لیے بنی ہیں ۔ میں ہی اس کا مرکز و محور ہوں۔
ایک خیال جو لا شعوری طور ذہن میں گڑ چکا تھا وہ یہ تھا کہ "آئی ایم ناٹ این آرڈینری پرسن"۔
پھر ایک وقت آیا اوراس سارے قصے کا خاتمہ ہو گیا۔ہوا یوں کہ شومئی قسمت میں نےکہیں پڑھ لیا کہ مسلمان صرف اللہ سے مدد مانگتا ہے اور غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے جو کہ گناہِ عظیم ہے ۔ میں اپنی غیر دانستہ جسارتوں پر گھبرا کر رہ گیااور کلمات کی حیثیت مشکوک ہو گئی ذہن کی اس تبدیلی سے کلمات فوری طور پر غیر موثرہوگئے۔پھر ان کے پڑھنے سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اگر وہ غلط تھا تو یہ غلط تر لگا کہ آپ کو حاصل ایک دنیا آن واحد میں زیر و زبر ہوجائےنہ کوئی وارننگ نہ کوئی واپسی کاراستہ(کم ازکم ابھی تک نہیں ملا)۔ اناللہ و انا علیہ راجعون۔
بچپن میں یہی چاہا تھا کہ بڑے ہو کر دنیا کی سیر کریں گے اور نگر نگر آباد خدا کی بستیاں اور بیاباں دیکھیں گے۔سو بڑے ہونے کا انتظار ابھی باقی ہے۔
کلمہ کیساتھ شک کا تعلق سمجھ نہیں آیا ...کوئی بھی کلمہ پڑھنا شرک کے مترادف کیسے ہوا؟