ایسی حرکت کے لئے یہ عمر نامناسب معلوم ہوتی ہے
واقعہ لکھ دینے کو جی چاہتا ہے اٹھانوے یا ننانوے کا ذکر ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہماری پہلی کمپنی کا آفس کلفٹن میں تھا ۔ اور کراچی کی فیلڈ کی نوکری تھی ، کئی کمپنیوں اور ہوٹلوں میں جانا ہوتا تھا جہاں جہاں کمپنی کے ٹیلیفون ایکسچینجز ہوتے تھے ۔ کراچی اواری ٹاورز لالہ زار کے بیچ لگژری ہوٹل ہمارے کارپوریٹ گاہکوں میں سے تھے۔ گھر سے آفس اور آفس سے گھر ہی بائیک پر پچاس کلومیٹر کی رائیڈ ہو جاتی تھی (اوپر سے یہ کراچی کی سڑکوں سے نبرد آزما ہونے کی مہمات تھیں ) ۔اس پر طرہ یہ اوپر سے سائٹوں اور دور دراز کے علاقوں میں جانا بھی ارطغرل کی گھڑ سواری سے کم نہ تھا۔ خیر اس عمر میں یہ چیزین اتنی اہم نہ تھیں ۔
ایک دن بیچ لگژری ہوٹل سے کچھ کمپلین درست کر کے گھر آئے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں یا شاید چند گھنٹوں میں پھر کمپلین آگئی منیجر صاحب نے حکم صادر فرمادیا اس زمانے میں کمپنی نے ایک موبائل بھی دیا ہوا تھا ننانوے میں موبائل گنے چنے لوگوں کے پاس ہوتا تھا ۔ پھر کیا تھا ارطغرل غازی نے سی ڈی سیونٹی کی لگام تھامی اور سارے دن کے تھکے ماندے پھر مہم پر روانہ ہو گئے ۔ سرکش سسٹم ایسا بدکا تھا کہ عمومی ٹوٹکوں سے کنٹرول میں نہ آتا تھا ۔ خیر چند گھنٹوں کی مسلسل تگ دو سے اسے زیر کیا بلکہ زیر تو تھا ہی اسے زبر کیا، اور یوں ہو بیچ لگژری ہوٹل کے ٹیلی کام نظام کی رگوں میں جامد شدہ خون خوشی سے مارے دوڑنے لگا ۔ ڈیسکوں پر لگے فون گھنٹیوں کی موسیقی سے تھرتھرانے لگے مہمانوں ااور میزبانوں کے چہرے کھل اٹھے اور جام ٹکرانے لگے ۔ سماں ابھی بندھا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے میزبانوں سے اجازت چاہی ۔ میزبانوں نے بہتیرا روکا کہ رات کے اس درمیانے پہر کہاں جائیں گے میزبانی کا موقع دیں اور ایک کمرے میں امن و امان سے قیام فرمائیں ۔ ہمارے معصوم ذہن میں بار بار حالیہ بندھا سماں اپنے مہیب جلوووں سے خوف طاری کر رہا تھا سو عافیت اسی میں جانی کہ گھر کی راہ لی جائے ، حالانکہ مناسب نہ تھا کہ دن بھر کے کام کی تھکن اور نصف رات کی جدوجہد کے بعد پندہ بیس میل کا مزید قصد کیا جائے ۔ لیکن ارطغرل غازی کے عزم کے آگے یہ مصلحت کہاں ٹھہرنے والی تھی ۔ اپنے سی ڈی سیونٹی کی لگام پھر تھامی اور ایڑ لگا دی۔ ابھی ارطغرل غازی کچھ سڑکوں کو عبور کر کے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر اردو سائنس کالج (جو اب یونیورسٹیکا درجہ پا چکا ہے) کے سامنے بنے اوور ہیڈ برج کی اونچائی تک پہنچا تھا کہ ٹھنڈی ہواؤں کے خوشگوار جھونکوں نے گھوڑے کی لگام پر سے گرفت کو کمزور کر دیا ۔ یہ تو سی ڈی سیونٹی کی سمجھداری تھی کہ گرفت کی کمزوری کے ساتھ رفتار بھی مدھم پڑ گئی ۔ عین پل کے وسط پہنچا تھا کہ نیند نے آخری جھونکے نے حواس مکمل طور پر چھین لیے ۔اور دھڑام سے ارطغرل غازی سڑک کی ایک طرف زمین پر آرہے ۔ دائیں بائیں دیکھا اور کہنی سہلائی گھوڑے کا معائنہ کیا محض ایک انڈیکیٹر توٹا تھا اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا ۔
اس نیند کے جھونکے نے جو حواس چھینے تھے وہ قسمت نے سقوط ِارطغرل کے ہاتھوں واپس لوٹائے اور ساتھ ہی نیند کا غلبہ ٹوٹ کے چکنا چور ہو گیا اور یوں گھر کی راہ لی ۔