مجھ کو آتا ہے فلسطین کے بچوں کا خیال
ان کے سینوں میں اترتے ہوئے نیزوں کا خیال
نوجواں بیٹوں کو روتی ہوئی ماؤں کا خیال
خون سے بھیگی ہوئی ان کی رداؤں کا خیال
غربِ اردن کے شہیدوں کا خیال آتا ہے
کبھی غزہ کے یتیموں کا خیال آتا ہے
ان کی مایوس نگاہوں کا خیال آتا ہے
گریہ کرتی ہوئی آنکھوں کا خیال آتا ہے
میرے بغداد پہ چھائے ہیں قضا کے بادل
ظلم کے جور کے وحشت کے جفا کے بادل
فقر وافلاس کے فاقہ کے وبا کے بادل
آفت ورنج ومصیبت کے عنا کے بادل
میرے گجرات میں انسانوں کے جلتے ہوئے سر
بے کسوں مفلسوں مجبوروں کے کٹتے ہوئے سر
بھوک اور پیاس سے بچوں کے بلکنے کا خیال
خاک اور خون میں لاشوں کے تڑپنے کا خیال
میرے کشمیر سے رونے کی صدا آتی ہے
میرے قندھار سے آوازِ بکا آتی ہے
میرے کابل میں مکانوں سے دھواں اٹھتا ہے
میرے شیشان کی گلیوں میں لہو بہتا ہے
(عالِم ربّانی اسید الحق محمد عاصم قادری بدایونی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نظم سے)