ایک مکالمہ
آپ کا مضمون ملا۔ آپ نے ماہئے کی بحث کو پورے سیاق و سباق میں نہیں دیکھا اور اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نے بس ادھر ادھر سے جو مل گیا اسی سے نتائج نکال لئے۔ تحقیق والا پہلو اس میں بہت کم ہے۔ اگر آپ کو واقعی اس موضوع میں سنجیدہ دل چسپی ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ حیدر قریشی کی کتاب ”اردو ماہیا تحقیق و تنقید“ کو پوری طرح پڑھ لیں پھر اس موضوع پر لکھیں۔ اس طرح صحت مند مکالمہ کی راہ نکلے گی۔
ماہیا کو ماہی (مچھلی) سے نسبت آپ سے پہلے انڈیا سے ڈاکٹر رفعت اختر دے چکے ہیں اور اس کے جواب میں حیدر قریشی کی دل چسپ وضاحت اہل تحقیق کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال اگر آپ برا نہ مانیں تو بہتر ہو گا کہ ”اردو ماہیا تحقیق و تنقید“ کو توجہ سے پڑھ کر اپنے اس مضمون کو ریوائز کر لیں۔ اس سے بات علمی طور پر آگے بڑھ سکتی ہے۔
مضمون بھیجنے کا ایک بار پھر شکریہ
سلام، مجھے اندازہ تھا، اسی لئے میں نے فون پر پہلے بات کی تھی۔ اس سجیکٹ پر بحث کی جا سکتی ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بہر حال، شکریہ۔
آپ کی میل ملی، تشویش ہوئی۔ میں نے آپ کا مضمون پڑھ کر جو کچھ لکھا ہے، وہ آپ کے حق میں جاتا ہے۔ ورنہ جن مضامین کے آپ نے حوالے دئے ہوئے ہیں ان میں وہ تحقیقی حقائق موجود ہیں جن سے آپ کی بعد میں کہی گئی بات غلط ہو رہی ہے۔ میں نے صرف تحقیقی راویے سے آپ کی رسپیکٹ کرنا چاہی تھی۔
آپ حکم کریں شمارہ 13 میں یہ مضمون بھی چھاپ دیتا ہوں اور اس کا جواب بھی۔
منہ کال ما
آپ نے ماہئے کی بحث کو پورے سیاق و سباق میں نہیں دیکھا اور اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نے بس ادھر ادھر سے جو مل گیا اسی سے نتائج نکال لئے۔ تحقیق والا پہلو اس میں بہت کم ہے۔
۔۔۔ ”بس ادھر ادھر سے جو مل گیا“ جی ہاں، ماہیا بنیادی طور پر پنجابی لوک شاعری ہے اور میں نے اسی بنیاد سے لوک ماہئے نقل کئے اور ان کو بنیاد بناتے ہوئے چھند اور عروض کو ملایا ہے کہ پنجابی میں چھندابندی چلتی ہے اور اردو میں عروض۔ اگر وہ بنیاد ہی ”بس ادھر ادھر سے جو مل گیا“ قرار پاتی ہے تو میں کیا عرض کروں!!؟ میں تحقیق میں اقتباس اور تیکنیک دونوں کا قائل ہوں۔ محض آنکھیں بند کر کے ایک اکیلے ماخذ پر تکیہ کر لینا اور باقی سب کو ”ادھر ادھر“ قرار دے دینا اگر تحقیق ہے تو ایسی تحقیق آپ کو مبارک ہو۔ مزید بر آں آپ کا یہ ارشاد آپ کے منصب کا آئینہ دار بھی نہیں۔ ایک مدیر کو اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہئے۔ کتنی آسان بات تھی آپ فرما دیتے کہ کچھ فنی اور ترجیحی وجوہات کی بنا پر یہ مضمون شائع نہیں کیا جا سکتا۔
اگر آپ کو واقعی اس موضوع میں سنجیدہ دل چسپی ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ حیدر قریشی کی کتاب ”اردو ماہیا تحقیق و تنقید“ کو پوری طرح پڑھ لیں پھر اس موضوع پر لکھیں۔
۔۔ تو یہ ہے وہ پورا سیاق و سباق! صاحب حیدر قریشی صاحب کی خدمات کا اعتراف بجا، مگر کیا ضروری ہے کہ صرف انہی کو اہمیت دی جائے اور دیگر کو ٹھینگا دکھا دیا جائے؟
اس طرح صحت مند مکالمہ کی راہ نکلے گی۔
۔۔ ہنسی آتی ہے۔ صحت مند مکالمے کی ابتدا آپ نے کس خوب انداز میں فرمائی ہے۔ آگے بھی آپ کے ارشادات آتے ہیں جن کی ”صحت مندی“ پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ماہیا کو ماہی (مچھلی) سے نسبت آپ سے پہلے انڈیا سے ڈاکٹر رفعت اختر دے چکے ہیں اور اس کے جواب میں حیدر قریشی کی دل چسپ وضاحت اہل تحقیق کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔
-- اس فقیر نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ مچھلی والی بات اول اول میں نے کی ہے۔ میں تو دیے سے دیا جلانے کا قائل ہوں، ڈاکٹر رفعت اختر کی بات ہی سہی، میری نہ سہی، بات تو ہے نا۔ حیدر قریشی صاحب کی بقول آپ کے ”دل چسپ وضاحت“ وہ بھی لگے ہاتھوں بیان فرما دی ہوتی!۔
بہر حال اگر آپ برا نہ مانیں تو بہتر ہو گا کہ ”اردو ماہیا تحقیق و تنقید“ کو توجہ سے پڑھ کر اپنے اس مضمون کو ریوائز کر لیں۔
۔۔ میں بھلا کیوں برا مانوں گا۔ آپ تحقیق کے نام پر یہ مشورہ دے رہے ہیں تو ظاہر ہے میرے بھلے کے لئے دے رہے ہیں، کہ میاں اصل کے چکر میں نہ پڑو، ہمارے ہم زبان بن جاؤ فائدے میں رہو گے، ورنہ ۔۔۔
اس سے بات علمی طور پر آگے بڑھ سکتی ہے۔
۔۔ جی ہاں، جس بات کو ابتداء میں ٹھپ کر دیا آپ نے؟
مجھے اندازہ تھا، اسی لئے میں نے فون پر پہلے بات کی تھی۔
۔۔ گویا میں نے عکاس کے مشمولات سے جو اندازہ لگایا تھا وہ درست نکلا۔
اس سبجیکٹ پر بحث کی جا سکتی ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
۔۔ تب میرا خیال تھا کہ بحث کی جا سکتی ہے، اب نہیں ہے۔ آپ کا دوسرا پیغام بہت تسلی بخش ہے۔ اور مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
آپ کی میل ملی، تشویش ہوئی۔
۔۔ ارے ارے ارے صاحب آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں! اس میل کو نظر انداز کر دیجئے۔
میں نے آپ کا مضمون پڑھ کر جو کچھ لکھا ہے، وہ آپ کے حق میں جاتا ہے۔
۔۔ گویا میں کوئی مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ ویسے ایک حوالے سے آپ کا ارشاد بہت بجا ہے کہ آپ مجھے پرائے پھٹے میں ٹانک نہ اڑانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ورنہ جن مضامین کے آپ نے حوالے دئے ہوئے ہیں ان میں وہ تحقیقی حقائق موجود ہیں جن سے آپ کی بعد میں کہی گئی بات غلط ہو رہی ہے۔
۔۔ چلئے، تحقیق میں ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک بات غلط ثابت ہو گئی، ٹھیک بھی ہو جائے گی۔ اس فقیر نے اگر کسی مضمون کا حوالہ دے کر اس کے مندرجات سے اختلاف کی جرات کی ہے تو ظاہر ہے جو کوئی بھی اس مضمون کے مندرجات سے تقلیدی سطح پر متفق ہے، میرے موقف کو ماننے سے تو رہا!!۔ ہے نا؟
میں نے صرف تحقیقی راویے سے آپ کی رسپیکٹ کرنا چاہی تھی۔
۔۔ اوہو ہوہو، رسپیکٹ کرنا چاہی تھی! تو آپ کو اپنا یہ عمل غلطی دکھائی دیا؟ یا یہ بندہ اس رسپیکٹ کا سزاوار نہ تھا، یا یہ کہ جسے آپ رسپیکٹ دیتے ہیں صرف وہی رسپیکٹیبل ہے؟ یہ ناچیز اس گورکھ دھندے کو کیا جانے!!!۔
آپ حکم کریں شمارہ 13 میں یہ مضمون بھی چھاپ دیتا ہوں اور اس کا جواب بھی۔
۔۔ تو یہ ہے وہ انتباہ۔ گویا آپ کو اپنے قارئین پر بھی شک ہے کہ پتہ نہیں کون ناہنجار کیا کہہ دے، تو کیوں نہ اس گستاخ کا منہ خود ہی بند کر دیا جائے!۔ مضمون کو مذموم بنا کر چھاپئے گا کیا؟ ہاہا ہاہا۔