قرۃالعین اعوان
لائبریرین
بہروپیا ٹھگ
بہروپیا ٹھگ
مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں؟۔۔۔ ۔
جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست۔۔۔ ۔۔۔
مجھے اتنا بتا دیں ، میں کہاں ہوں۔۔۔ ۔۔
شہیدِ خندہء گل ہیں ، قتیل گریہء شبنمسرِ گلزارِ ہستی ہم نہ ہنستے ہیں نہ روتے ہیں
اندھا ہے کیا نطر نہیں آتا کون ہوں یہ دیکھ
مجھے محسن نقوی یاد آ گئے
اک جام تو پی لینے دے اے گردشِ دوراں
پھر تجھ کو بتاتا ہوں میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہیںکوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں
اپنی ہستی سے خود میں پریشان ہوں
جس کی منزل نہیں ایسا انسان ہوں
ارے میں، میں ہوں ناں
ارسطو کے ایک قول سے متاثر بیان میں ذات کا احاطہ
"میں یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا مگر تم یہ نہیں جانتے کہ تم بھی کچھ نہیں جانتے اور چونکہ میں یہ جانتا ہوں اس لیے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ "
اپنا عکس اکثر ان دو مصرعوں میں نظر آتا ہے مجھے:
سلجھا ہوا سا فرد سمجھتے ہیں مجھے لوگ
الجھا ہوا سا مجھ میں کوئی دوسرا بھی ہے۔
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں، مجھے تھام لے۔چنانچہ۔۔۔
آ ذرا مرے ہمنشیں، تھام لے مجھے تھام لے
بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا۔
حاضر بہنا حکم کیجیئے
جی بلکل میں مصروف تھی اُس وقت.یعنی آپ مصروف ہیں ۔۔