نیرنگ خیال
لائبریرین
ابھی پڑھا ہے دھاگہ! ویسے تو آج صبح سے یہ شعر ذہن سے چپکا ہوا ہے
تو نے اپنی آگہی کے ظرف سے جانچا مجھے
آگہی نا آگہی کے اور پیمانے بھی تھے
اپنی ذات کے متعلق تو بس قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے کہ کیسا ہونگا میں۔ جب انسان اپنی شکل تک نہ دیکھ سکے۔ اپنا نام تک سے خود کو نہ پکار سکے اور دونوں کے لیئے دوسروں کا محتاج ہو تو کیا اپنی ذات کے بارے میں رائے دے۔ بہرحال کسی نے شعر ڈیڈیکیٹ کیا تھا مجھے وہی لکھے دیتا ہوںسلجھا ہوا سا فرد سمجھتے ہیں مجھ کو لوگ
الجھا ہوا سا مجھ میں کوئی دوسرا بھی ہے