آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

محمد وارث

لائبریرین
تفصیلی جواب کے لیے بہت شکریہ۔ sounds good to me کہ یہاں تو لوکل دکانوں کو کئی بار فون پر یا آن لائن آرڈر دیا جائے تو وہ ایک ہی شہر سے ہونے کے باوجود کئی دن لگا دیتے ہیں۔
سو طے ہوا کہ میری اگلی کتابوں کی شاپنگ آن لائن کو گی ان شاءاللہ۔
اسلام آباد کا ایک بک سیلر ہے آن لائن بھی بیچتے ہیں، ایک بار غلطی سے آرڈر دے دیا تھا، رسید تک نہ دی انہوں نے، میں نے بھی چار حرف بھیج دیئے:)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اسلام آباد کا ایک بک سیلر ہے آن لائن بھی بیچتے ہیں، ایک بار غلطی سے آرڈر دے دیا تھا، رسید تک نہ دی انہوں نے، میں نے بھی چار حرف بھیج دیئے:)
مجھے حیرت پوتی اگر وہ رسید ہی دے دیتے۔ اکثر لوگوں کے یہی حالات ہیں۔
سعید بک بنک یہاں کی بڑی دکانوں میں سے ایک ہے۔ لیکن آن لائن سروس انتہائی مایوس کن۔
 

محمد وارث

لائبریرین
Sonia: A Biography از رشید قدوائی

یہ کتاب بنیادی طور پر راجیو گاندھی کی 1991ء میں‌ ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد سے کانگریس میں شروع ہونے والی قیادت کی دوڑ اور مابعد واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ نوے کی دہائی پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاؤ کی طرح انڈین سیاست کے بھِی بہت سے مد و جزر پر مشتمل ہے۔ اس دہائی میں انڈین سیاست میں بھی "میوزیکل چیئر" کا کھیل جاری تھا، حکومتیں بنتی تھیں اور ٹوٹ جاتی تھیں اور انڈین سیاستدانوں کے داؤ پیچ اور قلابازیاں بھی دیدنی تھیں۔

سونیا گاندھی، اندرا گاندھی کی چہیتی بہو تھیں، اور اپنی دوسری بہو مانیکا گاندھی سے ان کی بنتی نہیں تھی۔ اندرا گاندھی کا سیاسی جانشین ان کا چھوٹا بیٹا سنجے گاندھی (مانیکا گاندھی کا شوہر) تھا لیکن سنجے گاندھی 1980ء میں ایک جہاز کے حادثے میں چل بسے تو راجیو گاندھی کو سیاست میں آنا پڑا جس کی سونیا گاندھی نے بہت مخالفت کی، پھر اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جب راجیو گاندھی کو راتوں رات وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تو سونیا نے اس کی بھی مخالفت کی کہ راجیو کی موت کا ڈر تھا، وہی ہوا اور پھر راجیو کے قتل کے بعد کانگریس ورنگ کمیٹی نے ان کی موت کے دوسرے دن ہی سونیا کو اپنا لیڈر چن لیا جب کہ ابھی راجیو کی آخری رسومات بھی ادا نہیں ہوئیں تھیں لیکن سونیا نے صاف انکار کر دیا اور چھ سال تک اپنے اس انکار پر جمی رہیں۔ نہرو-گاندھی خاندان کو بچانے کا سوال آیا تو انہوں‌ نے ایک راجیو گاندھی فاؤنڈیشن بنا لی اور اپنے بچوں کو بھی سیاست سے دور رکھا۔

اس دوران کانگریس مشکل حالات سے دوچار تھی، نرسیما راؤ کی 1991ء میں بننے والی حکومت 1996ء کے انتخابات میں پچھلے انتخابات کی بہ نسبت اپنی چالیس فیصد سیٹیں گنوا کر اکثریتی پارٹی سے تیسرے نمبر پر جا پہنچی۔ گو اس حکومت کے دور میں سونیا بظاہر سیاست سے علیحدہ رہیں لیکن نرسیما راؤ کی حکومت کے ساتھ ان کے اختلافات گہرے ہوتے چلے گئے اور سونیا کا گھر حکومت سے ناراض کانگریس ممبران کی جائے پناہ بنا رہا۔ 1997ِء میں‌ باقاعدہ سیاست میں داخلے اور 1998ء میں کانگریس کی سربراہ منتخب ہونے کے بعد سے اب تک کانگریس کی سربراہ ہیں اور کانگریس کا سب سے لمبے عرصے تک سربراہ رہنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔

سونیا کی سیاست اسکینڈلز کی زد میں بھی رہی، جن کا ذکر کتاب میں موجود ہے، مثلاً سنجے گاندھی کا "مروتی" گاڑیوں‌کا ایک اسیکنڈل جس میں بقول راجیو وہ اپنے بھول پن سے پھنس گئی تھیں، ان کی بہن اور بھانجی کا اٹلی میں‌ انڈین نوادرات کا ایک اسٹور، اطالوی بوفورس توپوں میں‌ ان کا مبینہ کردار وغیرہ وغیرہ۔

مصنف رشید قدوائی ایک صحافی ہیں اور کانگریس کی کوریج ان کی خصوصیت ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ کانگریس کے متعلق ایک کتاب کے بھی مصنف ہیں۔

بھارتی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے ایک عمدہ کتاب ثابت ہو سکتی ہے، عام قاری کہ جو انڈین سیاست کے بہت سے کرداروں سے پہلے سے واقف نہ ہو اُس کے لیے شاید دلچسپ نہ ہو۔
9780670049554-us.jpg
 
یہ کتاب شروع کرنے لگا ہوں.
اللہ تعالیٰ مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
20160811_222247_HDR_zpsonwarndb.jpg

کافی مشکل کام ذمہ لگا دیا ہے. ابھی تو تھوڑا وقت مشکل سے پڑھنے کے لئے نکالنا شروع کیا ہے.

کوشش کروں گا کہ چیدہ چیدہ نکات بیان کر سکوں. :)

اب باضابطہ پڑھنا شروع کی ہے. اور دلچسپ کتاب ہے.
آغاز سرقہ اور توارد کی تعریف سے ہے اور پھر امثال ہیں.
اردو شاعری میں سے بھی اور فارسی میں سے بھی.
کہیں کہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کافی سختی کا مظاہرہ کیا ہے. اساتذہ کو بھی نہیں بخشا. بلکہ فارسی کے جید شعراء کو بھی نہیں بخشا.
ابھی پہلا باب ہی پڑھ رہا ہوں.
مزا آ رہا ہے پڑھنے میں. خواہش تھی کہ ایک ساتھ وقت ملتا اور ایک نشست میں پڑھ ڈالتا. مگر تھوڑا تھوڑا پڑھنے کا بھی اپنا مزا ہے. بس وقت ملتا رہے. :)
 

محمد وارث

لائبریرین
انڈیا کے مشہور مصنف، مؤرخ، کالم نگار، ناول نگار، خشونت سنگھ کی کتاب
Why I Supported the Emergency: Essays and Profiles

انڈیا میں 1975ء کی اندرا گاندھی کی لگائی ایمرجنسی ایک انتہائی اہم اور متنازع موضوع ہے۔ یہ انڈیا میں لگائی جانے والی تیسری اور تاحال آخری ایمرجنسی تھی، پہلی دونوں ایمرجنسیاں انڈیا کے حالتِ جنگ میں ہونے کی وجہ سے لگائی گئی تھیں لیکن 21 ماہ تک جاری رہنے والی یہ آخری ایمرجنسی سراسر سیاسی تھی۔ اس کو انڈیا میں "دی ایمرجنسی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اندرا گاندھی کا ایمرجنسی کا یہ فیصلہ سب کے لیے حیران کن تھا اور ایمرجنسی لگاتے ہی انہوں نے اپنے تمام سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈال دیا اور پریس پر مکمل سنسر کا نفاذ کر دیا۔ اس ایمرجنسی میں اندرا کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کا بھی متنازعہ کردار رہا اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے کے لیے انہوں ہی نے اپنی ماں کو ایمرجنسی پر مجبور کیا۔

اس ایمرجنسی کی اندرا گاندھی کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ایمرجنسی کے بعد 1977ء کے الیکشنز میں کانگریس کا ایک طرح سے صفایا ہو گیا، اندرا اور سنجے دونوں اپنی اپنی سیٹیس بھی ہار گئے۔ اپوزیشن کی بننے والی حکومت نے اپنے بدلے بھی چکائے اور اندرا گاندھی کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بھاری قیمت شاید اندرا گاندھی کو اپنی جان کی صورت میں چکانی پڑی۔ ایمرجنسی کے دنوں میں بھارتی پنجاب میں اکالی دَل نے مظاہرے (مورچہ بندی) کر کے حکومت کو بہت تنگ کیا تھا۔ اکالی دل کا توڑ نکالنے کے لیے، پنجاب کے بارے میں فیصلوں کے اختیار انہوں نے سنجے گاندھی کو دے دیئے جنہوں نے پنجاب کے کانگریسی لیڈروں، ذیل سنگھ گیانی وغیرہ کے ساتھ مل کر اکالی دل کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مذہبی جنونیوں کی پشت پناہی کی، جس کا سرخیل بھنڈرانوالہ بن گیا اور پھر یہ ان کا اپنا ہی بنایا جِن جب ان کے قبضے سے باہر ہو گیا تو قابو کرنے کے لیے آپریشن بلیو سٹار کیا اور نتیجے میں اندرا گاندھی قتل ہو گئی۔

مصنف خشونت سنگھ نے گو ایمرجنسی کی حمایت کی تھی لیکن آپریشن بلیو سٹار کی بہت سخت مخالفت کی تھی اور احتجاجا اپنے اعزارت واپس کر دیئے تھے۔ یہ موضوع میرے لیے اتنا دلچسپ ہے کہ میں‌ نے ایمرجنسی کا نام دیکھتے ہی کتاب خرید ڈالی، پورا نام بھی نہ پڑا، کتاب ہاتھ میں آئی تو علم ہوا کہ یہ تو محض خشونت سنگھ کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ ایمرجنسی پر تو صرف تین چار صفحوں کا ایک مضمون ہے اور باقی سب ۔۔۔۔۔ بھرا ہوا ہے۔ کوفت بیان سے باہر ہے، مضمونوں والی کتابوں سے مجھے کسی حد تک چڑ ہے، خریدتا بھی نہیں، لیکن اب خرید لی ہے اور پڑھنا شروع کر دی ہے تو کسی طرح ختم بھی کر لونگا۔ کچھ اور فائدہ ہو یہ نہ ہو، مصنف کے اسلوب کا کچھ علم ہو جائے گا، کیونکہ مصنف کا ماسٹر پیس، دو جلدوں‌پر مشتمل، "اے ہسٹری آف دی سکھز" پڑھنے کی بہت دنوں سے آرزو ہے، پی ڈی ایف میں میرے پاس ہے لیکن پڑھ نہیں سکتا اور کتاب پاکستان میں کہیں سے مل نہیں‌ رہی، افسوس، بہرحال میری تلاش جاری ہے۔ لیکن اس سارے "ڈرامے" سے ایک سبق تو یہ ملا کہ کتاب کا نام پورے دھیان سے اور مکمل پڑھنا چاہیئے، چاہے چھوٹے سے فانٹ ہی میں کیوں نہ لکھا ہو :)
41LsM7yh%2BqL._SX327_BO1,204,203,200_.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
لیکن اس سارے "ڈرامے" سے ایک سبق تو یہ ملا کہ کتاب کا نام پورے دھیان سے اور مکمل پڑھنا چاہیئے، چاہے چھوٹے سے فانٹ ہی میں کیوں نہ لکھا ہو :)
ثابت ہوا کہ جن لوگوں کا تعلق اخبارات سے ہو،اُن کی کتابیں خریدتے ہوئے ہوشیار رہیں۔صرف نام ہی نہیں،تھوڑا بہت اندر سے بھی ملاحظہ فرمالیں۔:D
آج کل سُرخی تجسس سے بھرپور ہوتی ہے اور خبر کھول کے دیکھیں تو خالی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ثابت ہوا کہ جن لوگوں کا تعلق اخبارات سے ہو،اُن کی کتابیں خریدتے ہوئے ہوشیار رہیں۔صرف نام ہی نہیں،تھوڑا بہت اندر سے بھی ملاحظہ فرمالیں۔:D
آج کل سُرخی تجسس سے بھرپور ہوتی ہے اور خبر کھول کے دیکھیں تو خالی۔
نہیں ایسی بات نہیں تھی اور میں پچھلے کئی سالوں سے کتابیں صرف آن لائن ہی خریدتا ہوں سو کتاب کو اندر سے دیکھ نہیں سکتا، اور جو کتاب پسند آ جائے اس کا ریویو وغیرہ بھی کم ہی ڈھونڈتا ہوں۔ ویسے اس میں پبلشرز کا بھی خاص قصور نہیں تھا، انہوں نے تو صاف لکھا ہوا تھا ٹائٹل میں کہ اس کتاب میں کیا ہے۔ میں ہی کچھ زیادہ باؤلا ہو گیا تھا۔ کتاب بہرحال اچھی ہے۔ خشونت کی خودنوشت بھی میں نے خرید لی ہے، یہ کتاب ختم ہوتے ہی خودنوشت کا نمبر لگا رکھا ہے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
A Thousand Splendid Suns by Khaled Hosseini
ان کی ایک اور کتاب بھی لاہور سے منگوائی کتابوں میں دکاندار نے بھیجی ہے۔
And the Mountains Echoed
اور ایک کتاب منگوائی ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی کئی چاند تھے سرِ آسماں
ابھی پہلی والی کتاب شروع کی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بچوں کی کتابیں میری کتابوں سے زیادہ ہو گئی ہیں اور وہ ایک اور الماری کی فرمائش کر رہے ہیں۔ ارادہ ہے کہ بچوں کی لائبریری کے عنوان سے اُن کی کتابوں کی فہرست کا دھاگہ بناؤں۔۔۔۔انشاءاللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خشونت سنگھ کی خود نوشت سوانح
Truth, Love and a Little Malice
خشونت سنگھ کا کچھ تذکرہ میرے پچھلے تبصرے میں آیا تھا جب میں اسی مصنف کی ایک اور کتاب پڑھ رہا تھا، تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ان کی خود نوشت شروع کر دی۔ ویسے پچھلے کافی عرصے سے مجھ پر انڈیا کی تقسیم کے بعد سیاسی تاریخ پڑھنے کا "دورہ" پڑا ہوا ہے۔ اور اس کے لیے سیاستدانوں کے خود نوشت سوانح لائن میں لگا رکھے ہیں، ایل کے ایڈوانی، نٹور سنگھ، آئی کے گجرال اور ڈاکٹر عبدالکلام کی باریاں اسی ترتیب سے 2017ء گزارنے کے لیے لگا رکھی ہیں :)

خشونت سنگھ سے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک بار جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں کلام پڑھ رہے تھے کہ اُن کے دوست کنور مہندر سنگھ بیدی نے کہا کہ دیکھو ظالم پٹھان ہو کر کیسی خوبصورت شاعری کر رہا ہے۔ جوش بولے، اور دیکھو کہ ظالم سکھ ہو کر کیسی خوبصورت داد دے رہا ہے۔ خشونت سنگھ بھی انہی "ظالم سکھوں" کی لڑی میں سے ہیں کہ خوبصورت انگریزی لکھتے تھے، اور شاید ہندوستان کا سب سے اچھا انگریزی ادیب بھی ہے۔

اور جوش سے خشونت کا تعلق یوں پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے جوش کی خود نوشت "یادوں کی برات" پڑھی ہے وہ جوش کی رنگین بیانی جانتے ہیں۔ خشونت سنگھ چونکہ سکھ بھی تھا اور زبان بھی انگریزی ہے، جس میں اردو کے مقابلے میں کافی "کھل" کر کھیلا جا سکتا ہے سو شروع کے کچھ ابواب تو ایسے رنگین ہیں کہ خشونت نے جوش کو بھی مات کر دیا ہے۔

خشونت نے ایک لمبی عمر پائی، 1915ء سے 2014ء ننانوے سال، اور یہ کتاب 2002ء میں چھپی تھی سو اس میں انڈیا کی سیاسی تاریخ کا بہت حد تک احاطہ ہو گیا ہے، گو خشونت سنگھ ایک باقاعدہ سیاستدان نہ تھا لیکن بھارتی پارلیمنٹ کا چھ سال تک رکن رہا، اندرا گاندھی کا دوست ہونے کے باوجود بدنام زمانہ آپریشن بلیو سٹار کا بہت بڑا ناقد رہا، احتجاجا اپنے اعزاز بھی واپس کر دیئے ۔ قابلِ مطالعہ دلچسپ کتاب ہے۔

41PM2jVNzRL._SX324_BO1,204,203,200_.jpg
 

فہد اشرف

محفلین
ویسے پچھلے کافی عرصے سے مجھ پر انڈیا کی تقسیم کے بعد سیاسی تاریخ پڑھنے کا "دورہ" پڑا ہوا ہے۔ اور اس کے لیے سیاستدانوں کے خود نوشت سوانح لائن میں لگا رکھے ہیں، ایل کے ایڈوانی، نٹور سنگھ، آئی کے گجرال اور ڈاکٹر عبدالکلام کی باریاں اسی ترتیب سے 2017ء گزارنے کے لیے لگا رکھی ہیں
کلدیپ نیر بھی اس موضوع پر پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کلدیپ نیر بھی اس موضوع پر پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
درست فرمایا آپ نے، لیکن میرا مطالعہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ پاکستان میں انڈین مصنفین کی کونسی کونسی کتاب مل سکتی ہے۔ کلدیپ نیئر کی خودنوشت پر میری نظر ہے، دیکھیے کب ہتھے چڑھتی ہے :)
 
Top