Sonia: A Biography از رشید قدوائی
یہ کتاب بنیادی طور پر راجیو گاندھی کی 1991ء میں ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد سے کانگریس میں شروع ہونے والی قیادت کی دوڑ اور مابعد واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ نوے کی دہائی پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاؤ کی طرح انڈین سیاست کے بھِی بہت سے مد و جزر پر مشتمل ہے۔ اس دہائی میں انڈین سیاست میں بھی "میوزیکل چیئر" کا کھیل جاری تھا، حکومتیں بنتی تھیں اور ٹوٹ جاتی تھیں اور انڈین سیاستدانوں کے داؤ پیچ اور قلابازیاں بھی دیدنی تھیں۔
سونیا گاندھی، اندرا گاندھی کی چہیتی بہو تھیں، اور اپنی دوسری بہو مانیکا گاندھی سے ان کی بنتی نہیں تھی۔ اندرا گاندھی کا سیاسی جانشین ان کا چھوٹا بیٹا سنجے گاندھی (مانیکا گاندھی کا شوہر) تھا لیکن سنجے گاندھی 1980ء میں ایک جہاز کے حادثے میں چل بسے تو راجیو گاندھی کو سیاست میں آنا پڑا جس کی سونیا گاندھی نے بہت مخالفت کی، پھر اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جب راجیو گاندھی کو راتوں رات وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تو سونیا نے اس کی بھی مخالفت کی کہ راجیو کی موت کا ڈر تھا، وہی ہوا اور پھر راجیو کے قتل کے بعد کانگریس ورنگ کمیٹی نے ان کی موت کے دوسرے دن ہی سونیا کو اپنا لیڈر چن لیا جب کہ ابھی راجیو کی آخری رسومات بھی ادا نہیں ہوئیں تھیں لیکن سونیا نے صاف انکار کر دیا اور چھ سال تک اپنے اس انکار پر جمی رہیں۔ نہرو-گاندھی خاندان کو بچانے کا سوال آیا تو انہوں نے ایک راجیو گاندھی فاؤنڈیشن بنا لی اور اپنے بچوں کو بھی سیاست سے دور رکھا۔
اس دوران کانگریس مشکل حالات سے دوچار تھی، نرسیما راؤ کی 1991ء میں بننے والی حکومت 1996ء کے انتخابات میں پچھلے انتخابات کی بہ نسبت اپنی چالیس فیصد سیٹیں گنوا کر اکثریتی پارٹی سے تیسرے نمبر پر جا پہنچی۔ گو اس حکومت کے دور میں سونیا بظاہر سیاست سے علیحدہ رہیں لیکن نرسیما راؤ کی حکومت کے ساتھ ان کے اختلافات گہرے ہوتے چلے گئے اور سونیا کا گھر حکومت سے ناراض کانگریس ممبران کی جائے پناہ بنا رہا۔ 1997ِء میں باقاعدہ سیاست میں داخلے اور 1998ء میں کانگریس کی سربراہ منتخب ہونے کے بعد سے اب تک کانگریس کی سربراہ ہیں اور کانگریس کا سب سے لمبے عرصے تک سربراہ رہنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
سونیا کی سیاست اسکینڈلز کی زد میں بھی رہی، جن کا ذکر کتاب میں موجود ہے، مثلاً سنجے گاندھی کا "مروتی" گاڑیوںکا ایک اسیکنڈل جس میں بقول راجیو وہ اپنے بھول پن سے پھنس گئی تھیں، ان کی بہن اور بھانجی کا اٹلی میں انڈین نوادرات کا ایک اسٹور، اطالوی بوفورس توپوں میں ان کا مبینہ کردار وغیرہ وغیرہ۔
مصنف رشید قدوائی ایک صحافی ہیں اور کانگریس کی کوریج ان کی خصوصیت ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ کانگریس کے متعلق ایک کتاب کے بھی مصنف ہیں۔
بھارتی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے ایک عمدہ کتاب ثابت ہو سکتی ہے، عام قاری کہ جو انڈین سیاست کے بہت سے کرداروں سے پہلے سے واقف نہ ہو اُس کے لیے شاید دلچسپ نہ ہو۔