میری "بھارت یاترا" عرف "آزادی کے بعد انڈیا کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ" کا اگلا پڑاؤ۔
بھارت کے شاید سب سے متنازعہ لیڈر ایل کے آڈوانی کی خودنوشت سوانح
"مائی کنٹری مائی لائف" My Country My Life
آڈوانی صاحب سندھی ہیں اور سندھ سے محبت ان کے دل میں اتنی ہی ہے جتنی "بھارت ماتا" کے لیے اور اس کا اظہار انہوں نے کتاب میں بھی کیا ہے اور آج کل پھر سے اس بارے میں کچھ بیانات دے رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت آڈوانی صاحب کی عمر بیس سال تھی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے سرگرم رکن تھے۔ تقسیم کے بعد کراچی سے راجھستان منتقل ہو گئے اور ایک دہائی وہیں گزاری اور پھر دہلی منتقل ہو گئے۔ 1951ء جن سنگھ کی بنیاد کے بعد اس پارٹی میں آگئے اور اٹل بہاری واجپائی اور دیگر کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے اور یہی پارٹی بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی بنی۔
2005ء میں آڈوانی صاحب پاکستان آئے تو کراچی میں ایک بیان دیا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم کی کچھ تعریف جھلکتی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جناح صحیح معنوں میں سیکولر تھے۔ واپس انڈیا گئے تو وہاں ایک طوفان برپا تھا ان کو بی جے پی کی صدارت سے استغفی دینے پر مجبور کیا گیا اور لگتا تھا کہ ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا لیکن بہرحال بچ نکلے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ آڈوانی صاحب کی زندگی کے پس منظر میں یہ کتاب آزادی کے بعد سے انڈیا کی سیاسی تاریخ کا ایک جائزہ ہے کیونکہ آڈوانی صاحب تبھی سے سیاست میں ہیں اور انڈین سیاست کے ہر اہم موڑ کے گواہ ہیں، وہ کراچی میں آر ایس ایس کی ریلیاں ہوں، تقسیم ہو، جن سنگھ کی جد و جہد سے بھر پور کہانی ہو، اندرا گاندھی کی ایمرجنسی ہو جس میں آڈوانی صاحب بھی انڈیا کے کم و بیش چھوٹے بڑے تیرہ ہزار لیڈروں کے ساتھ قید ہوئے۔ انڈیا میں 1977ء کی پہلی غیر کانگریسی جنتا پارٹی کی حکومت ہو، جس میں آڈوانی صاحب وزیرِ اطلاعات تھے، رتھ یاترا اور بابری مسجد کا انہدام ہو، یا پھر واجپائی کی قیادت میں 46 سال کی جد و جہد کے بعد بننے والی بی جے پی کی حکومت ہو یا پاکستان کے ساتھ تعلق ہوں، آڈوانی صاحب ہر عہد میں پیش پیش تھے۔
لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر آڈوانی صاحب نے اس کتاب میں نہیں کیا۔ ہزار سے زائد صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے میں نے پچھلے ایک ہفتے سے پڑھنی شروع کی ہے اور ابھی کچھ ابواب ہی پڑھے ہیں، بہرحال کتاب نے اپنی طرف مجھے مائل کر لیا ہے اور میرے اگلے کئی ہفتے یقینا اس دلچسپ کتاب کی معیت میں گزریں گے۔