سویدا
محفلین
گذشتہ دنوں جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک پڑھی
کتاب دلچسپ ، سادہ اور بہترین اردو زبان میں لکھی گئی ہے،سمجھ نہیں آتا کہ شاہد عزیز مشرف دور میں دست راست رہے اور اب تمام باتوں کی ذمہ داری تنہا جنرل مشرف پر ڈال دی ، کتاب کے آخری ابواب پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے شدت پسند مولوی یا طالبان کا نمائندہ لکھ رہا ہو ، ایک طرف علما اور دینی طبقے پر مناسب انداز میں طنز وتنقید بھی ہے لیکن دوسری طرف علما سے بھی زیادہ شدت پسندی نظر آتی ہے ، ناقدین کہتے ہیں کہ یہ کتاب شاہد عزیز نے محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے لکھی ہے ، لیکن حقیقت حال سے اللہ ہی واقف ہے ، پاکستان کے موجودہ احوال کی تمام تر ذمہ داری مصنف نے امریکہ پر ڈالی ہے ، اور ان کے نزدیک موجودہ خود کش دھماکے قتل وقتال دہشت گردی ان سب کے پیچھے امریکہ ہی کارفرما ہے ، دوران سروس مختلف کورسز کے لیے امریکہ کے دورے بھی کیے جس میں ایک بار جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی ان کے ہمراہ تھے اور مصنف کے نزدیک دونوں مرتبہ فری میسن اور یہودیوں کی طرف سے مجھے اعلی مراعات اور عہدوں کی پیش کش بھی کی گئی جو کہ مصنف نے ٹھکرادی،دبے الفاظ یا بین السطور مصنف نے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کا بھی مشورہ دیا ہے ، مصنف کہتے ہیں کہ یہ کتاب میں نے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے لکھی ہے خاص طور مشرف دور میں جو جو غلطیاں مجھ سے ہوئیں اس کا اعتراف بھی کیا اور معافی بھی مانگی ، نواز شریف کا تختہ جس رات الٹاگیا اس رات کے تمام احکامات موصوف ہی کے دفتر سے جاری ہوئے ۔
میری ذاتی رائے میں یہ کتاب فوج یا ایجنسیوں کی طرف سے لکھوائی گئی ہے اور کتاب کو پڑھنے کے بعد فوج کے موجودہ یوٹرن کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ، فوج یا جنرل مشرف کے جرائم کے اعتراف کے ساتھ ساتھ فوج پر ہونے والے مختلف عوامی اعتراضات کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی گئی ہے ، پاکستان کے آخری دس سال کے حالات کا ایک رخ اس کتاب سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ، لیکن سوال پھر یہی ہوتا ہے کہ اس پورے طویل دور میں شاہد عزیز مکمل طور پر فوج اور حکومت میں شامل رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے ایسے انکشاف اس کتاب میں کر ڈالے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے ۔
کتاب دلچسپ ، سادہ اور بہترین اردو زبان میں لکھی گئی ہے،سمجھ نہیں آتا کہ شاہد عزیز مشرف دور میں دست راست رہے اور اب تمام باتوں کی ذمہ داری تنہا جنرل مشرف پر ڈال دی ، کتاب کے آخری ابواب پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے شدت پسند مولوی یا طالبان کا نمائندہ لکھ رہا ہو ، ایک طرف علما اور دینی طبقے پر مناسب انداز میں طنز وتنقید بھی ہے لیکن دوسری طرف علما سے بھی زیادہ شدت پسندی نظر آتی ہے ، ناقدین کہتے ہیں کہ یہ کتاب شاہد عزیز نے محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے لکھی ہے ، لیکن حقیقت حال سے اللہ ہی واقف ہے ، پاکستان کے موجودہ احوال کی تمام تر ذمہ داری مصنف نے امریکہ پر ڈالی ہے ، اور ان کے نزدیک موجودہ خود کش دھماکے قتل وقتال دہشت گردی ان سب کے پیچھے امریکہ ہی کارفرما ہے ، دوران سروس مختلف کورسز کے لیے امریکہ کے دورے بھی کیے جس میں ایک بار جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی ان کے ہمراہ تھے اور مصنف کے نزدیک دونوں مرتبہ فری میسن اور یہودیوں کی طرف سے مجھے اعلی مراعات اور عہدوں کی پیش کش بھی کی گئی جو کہ مصنف نے ٹھکرادی،دبے الفاظ یا بین السطور مصنف نے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کا بھی مشورہ دیا ہے ، مصنف کہتے ہیں کہ یہ کتاب میں نے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے لکھی ہے خاص طور مشرف دور میں جو جو غلطیاں مجھ سے ہوئیں اس کا اعتراف بھی کیا اور معافی بھی مانگی ، نواز شریف کا تختہ جس رات الٹاگیا اس رات کے تمام احکامات موصوف ہی کے دفتر سے جاری ہوئے ۔
میری ذاتی رائے میں یہ کتاب فوج یا ایجنسیوں کی طرف سے لکھوائی گئی ہے اور کتاب کو پڑھنے کے بعد فوج کے موجودہ یوٹرن کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ، فوج یا جنرل مشرف کے جرائم کے اعتراف کے ساتھ ساتھ فوج پر ہونے والے مختلف عوامی اعتراضات کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی گئی ہے ، پاکستان کے آخری دس سال کے حالات کا ایک رخ اس کتاب سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ، لیکن سوال پھر یہی ہوتا ہے کہ اس پورے طویل دور میں شاہد عزیز مکمل طور پر فوج اور حکومت میں شامل رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے ایسے انکشاف اس کتاب میں کر ڈالے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے ۔