میں ع
لی شیر نوائی (رح) کی کتاب '
محاکمۃ اللغتین' پڑھ رہا ہوں۔ علی شیر نوائی ہرات سے تعلق رکھنے والے نویں صدی ہجری کے ترکی اور فارسی زبان کے کثیر التصانیف شاعر تھے۔ اس کے علاوہ انہیں چغتائی ترکی زبان کا عظیم ترین شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے محاکمۃ اللغتین ترکی اور فارسی زبان کے بیچ موازنے کی غرض سے لکھی تھی۔ کتاب کے مطابق، وہ اس بات کو ناسمجھی سمجھتے تھے کہ ترک اہلِ قلم اپنی زبان پر تسلط ہونے کے باوجود فارسی میں شعر کہتے تھے اور اپنی زبان کو موردِ اعتناء نہیں سمجھتے تھے۔ اُن کے اعتقاد میں ترکی زبان فارسی سے اپنی فصاحت اور وسعت کی وجہ سے برتر اور شعرگوئی کے لیے زیادہ موافق تھی۔ لہذا ترک ہنرمندوں کے لیے وہ یہ زیادہ مناسب سمجھتے تھے کہ فارسی کے بجائے وہ اپنی زبان میں ادب کی تخلیق کریں، یا کم سے کم جتنی رغبت اُنہیں فارسی سے ہے اُتنی ہی ترکی سے بھی رکھیں۔
کتاب میں اُن کے دلائل کی بنیاد ترکی زبان کے اُن بہت سے الفاظ اور مصادر پر قائم ہے، جن کے متبادل اُن کے مطابق فارسی میں موجود نہیں، اور جن کو فارسی میں ترجمہ کرنے کے لیے لمبی عبارت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مثلا:
قووارماق = مرورِ زمان کے ساتھ طراوت، رنگ اور بو کا پھیکا پڑنا۔۔۔ اب اس مصدر کا متبادل فارسی میں موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی ایسی چیزوں کے ترکی زبان میں رائج مختلف نام بتائے ہیں جن کا فارسی میں صرف ایک معادل ہے۔ مثلاًَ اُنہوں نے ترکی میں بطخ کی مختلف قسموں کے نو نام گنوائے ہیں، جبکہ فارسی میں اُن سب کا ایک ہی نام ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں عربی، فارسی اور ترکی ادب پر مختصر تبصرہ ہے۔
جدید علمِ لسانیات کے حوالے سے تو کتاب کی حیثیت بہت کم ہے، کیونکہ کسی بھی زبان کے دوسری زبان پر تفوق کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کہ اُس میں ایک چیز کے کتنے زیادہ نام ہیں یا کونسے خیالات صرف ایک لفظ میں ادا ہو سکتے ہیں۔ البتہ کتاب کی ادبی حیثیت مسلم ہے۔ کتاب کلاسیکی اسلوب میں بڑی عمدہ اور مرصع نثر کے ساتھ لکھی گئی ہے، ساتھ ساتھ ابیات بھی شامل ہیں۔ عربی اور فارسی الفاظ و تراکیب کی بھرمار ہے۔ اصل کتاب کا متن تو چغتائی ترکی میں ہے (جو مجھے نہیں آتی)، لیکن خوش قسمتی سے اس کا آذری اور فارسی ترجمہ بھی نیٹ پر مل گیا ہے۔ کتاب کا حجم زیادہ نہیں ہے، امید ہے رات تک کتاب ختم ہو جائے گی۔
کتاب کے مقدمے سے علی شیر نوائی کی ایک نعتیہ رباعی مع ترجمہ مقتبس کر رہا ہوں:
Yə‘nī ki çü ‘āləmni yarattı Mə‘būd
Āləm iligə qudrət ilə birdi vucūd
İnsān idi məqŝūd ki boldı məvcūd
İnsāndın həm Ĥəbībi irdi məqŝūd
یعنی کہ معبود نے جس وقت عالم کی تخلیق کی؛ اُس نے اپنی قدرت سے عالم کو وجود بخشا۔ مقصودِ آفرینش یقیناً انسان تھا جبھی وہ وجود میں آیا، لیکن تخلیقِ انسان سے بھی درحقیقت غرض حبیب (یعنی رسولِ اکرم ص) کی تخلیق تھی۔