آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

سبحان اللہ، محمود صاحب۔
ان میں سے فی زمانہ کتنے قابل عمل ہیں؟:)
اورمصنف اور کتاب کا تعارف بھی تو کروائیں۔
مجھے تو سارے ہی قابلِ عمل لگتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ انکا تعلق اعمال کی بجائے زاویہِ نگاہ سے ہے)۔
مصنفہ ایک ترک خاتون ہیں نام ہے Elif Shafak۔۔۔کافی ناولز لکھ چکی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
علامہ اقبال کا شعری مجموعہ رموزِ بے خودی پڑھنا شروع کر رہا ہوں۔

آج کل مجھ میں مشرق پرستی کا جذبہ بڑی شدت سے جوش مار رہا ہے۔ اس لیے اپنے تمدن کے ادبی ذخیرے کے مطالعے کا دل کر رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ خواہش بھی انگڑائی لے رہی ہے کہ وسطی ایشیا کی کلاسیکی ادبی زبان چغتائی (ازبک) ترکی اور عربی زبان کے متون پڑھنے کی قابلیت پیدا کروں۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے ابھی علامہ اقبال کی کتاب رموزِ بے خودی ختم کی ہے۔

علامہ اقبال کے اس کتاب میں پیش ہوئے بعض افکار مثلا مسلم اقوام کے لیے وطنیت کی مطلق نفی اور مثالیت پسند ہمہ اسلامیت (pan-islamism) سے نہ میں پہلے اتفاق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں۔ لیکن اُن کے عظیم شاعر ہونے کے بارے میں اگر کوئی شک تھا تو وہ اب بالکل رفع ہو گیا ہے۔ پوری کتاب اُن کے بہترین شاعر ہونے کا ثبوت تھی۔ کوئی شعر ایسا نہیں تھا جو دل کو نہ چھوتا ہو اور اعلیٰ امنگیں نہ بیدار کرتا ہو۔ میں کتاب ختم کر کے بہتر اور مثبت محسوس کر رہا ہوں اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ محسوس کر رہا ہوں۔ ہم میں سے اکثر نے علامہ اقبال کو نظریاتی سانچے میں محدود کر کے اُن کی شاعری کا دائرہ بھی تنگ کر دیا ہے، ورنہ اُن کی شاعری تو ایسی ہے جسے اردو یا فارسی جاننے والے شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ اقبال کی پہلی کتاب تھی جو میں نے شروع سے آخر تک پوری پڑھی ہے۔ اب انشاءاللہ اُن کے بقیہ شعری مجموعے بھی پڑھوں گا۔

ایک اور بات، میں وسطی ایشیائی اور ایرانی تہذیبی سلسلوں سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہوں اور انہی کے پروردہ ادب کو عموماً پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اردو ادب میں بھی مَیں اُن منظومات پر توجہ نہیں دیتا جن میں مذکورہ تہذیبی سلسلوں کی جھلک نظر نہ آئے۔ میں مانتا ہوں کہ اردو ادب میں ابنِ انشاء جیسے شعراء بھی گذرے ہیں جو ہندوستانیت کے رسیا تھے اور اسی سے اپنی شاعری کے لیے الہام لیا کرتے تھے۔ لیکن میں مرزا غالب علیہ الرحمہ کی طرح ترک-ایرانی تہذیب و فکر کی زلفوں کا اسیر ہوں اور اسے ہی اپنی شخصیت کا سرچشمہ اور سرمشق قرار دیتا ہوں۔ چونکہ علامہ اقبال کی یہ پوری کتاب ترک-ایرانی تہذیبی روح سے معطر تھی، اس لیے میرے نزدیک یہی واحد وجہ کتاب کی پسندیدگی کے لیے کافی تھی۔ خیر، یہ شاعری کو جانچنے کا میرا ذاتی اور نفسی پیمانہ ہے جس سے ہر کوئی متفق نہیں ہو گا۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
۔
علامہ اقبال کے بعض افکار مثلا وطنیت کی نفی، مثالیت پسند ہمہ اسلامیت (pan-islamism) اور دینِ اسلام کی جغرافیائی عالمگیریت سے نہ میں پہلے اتفاق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں۔۔
۔
آپ کی اس بات کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ان کی ذات اور شاعری کی ان ہی خوبیوں نے تو انہیں شاعر مشرق اور اسلامی دنیاکے ایک مقبول شخصیت کا رتبہ دیا ہے۔ اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سےآپ کا ان سے متفق نہ ہونا ناقابل فہم ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
حسان بھائی کی ایک اور بات بھی مجھے عجیب لگی بھلے اقبال علیہ رحمہ کی فکر سے آپ کو اختلاف سہی مگر آپ کے مراسلات میں جب غالب کا ذکر آیا تو علیہ رحمہ خصوصیت سے لکھا جبکہ اقبال کی باری ایک بار بھی نہیں وہ بھلا کیوں ؟؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی کی ایک اور بات بھی مجھے عجیب لگی بھلے اقبال علیہ رحمہ کی فکر سے آپ کو اختلاف سہی مگر آپ کے مراسلات میں جب غالب کا ذکر آیا تو علیہ رحمہ خصوصیت سے لکھا جبکہ اقبال کی باری ایک بار بھی نہیں وہ بھلا کیوں ؟؟؟

ایسا میں نے جان بوجھ کر بالکل نہیں کیا، بلکہ فی البدیہہ لکھتے وقت جیسا ذہن میں آیا لکھ دیا۔ ورنہ علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت ہر لحاظ سے اس بات کی سزاوار ہے کہ ہمیشہ اُن کے نام کے آگے رحمۃ اللہ علیہ لگایا جائے اور اُن سے قلبی عقیدت رکھی جائے۔ میں خود اُن کے معتقدوں میں شامل ہوں۔

اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سےآپ کا ان سے متفق نہ ہونا ناقابل فہم ہے۔

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو رنگ، نسب، قوم، زبان اور جغرافیائی حدود سے مطلقاً آزاد ہونا چاہیے کیونکہ اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے ان سب چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں بھلے اقبال کی عالمگیریت پر مبنی اس سوچ کو تنگ قومی، نسلی اور جغرافیائی سوچوں کے مقابلے میں تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن اس سے اتفاق اس لیے نہیں کر پاتا کیونکہ آج دنیا بھر کی مسلمان اقوام کے لیے اُن کی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ اُن کی لسانی، ثقافتی، قومی اور جغرافیائی شناختیں بھی اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا بنگلہ دیش کے لوگ صرف مسلمان ہونے کی خاطر پاکستان سے دوبارہ جڑنا پسند کریں گے؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کبھی نہیں۔ دوبارہ جڑنا تو بہت دور کی بات ہے وہاں کے لوگ تو ابھی تک پاکستان کے بارے میں منفی خیالات ہی ترک نہیں کر سکے ہیں۔ حالانکہ ہم بھی مسلمان، وہ بھی مسلمان۔۔ اسی طرح پاکستان سے نفرت کرنے والے اپنی طرح کے مسلمان بنگلہ دیشی کے لیے میں بھی بیزاری محسوس کرتا ہوں۔ جب میرے سامنے حقیقت ایسا نقشہ پیش کر رہی ہے تو میں اقبال کی ہمہ اسلامیت پر مبنی فکر سے کیسے متفق ہو سکوں؟

میں علامہ اقبال سے اس لیے غیر متفق نہیں ہوں کہ میں مسلمانوں کے درمیان تمدنی، معاشی اور سیاسی قربت کا خواہش مند نہیں ہوں، یا یہ کہ وہ جو کہہ رہے ہیں ویسا اسلام نہیں کہتا۔ بلکہ میں اُن سے اس لیے غیر متفق ہوں کیونکہ وہ جس مثالی اتحادِ اسلامیہ کے داعی تھے مجھے وہ نظر نہیں آتا۔
 
آخری تدوین:

فلک شیر

محفلین
جناب مختصر تعارف بھی عنایت فرما دیں۔
ایک گمشدہ صحافی کے خاوند کے گرد کہانی گھومتی ہے.........جو مغرب میں مقیم ہے........پولیس اور معاشرے کے بہت سے ارکان اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں.......وہ کافی عرصہ بعدقازقستان اس کی تلاش میں جانے پہ مجبور ہو جاتا ہے......اس دوراان وہ اپنے آپ اور اپنی بیوی دونوں کو تلاش کرتا ہے.......
میاں اور بیوی کا رشتہ.........ساتھ رہ کر بہت قریب نہ آ پانے کا المیہ...........کچھ عرصہ بعد اکتا جانے کا phenomena............وغیرہ
ناول ہے اور پرتگیزی میں اس نے لکھا تھا........تراجم بعد میں ہوئے بہت سی زبانوں میں ۔
 

فلک شیر

محفلین
کچھ دن قبل عطار کی "منطق الطیر" کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔غزنوی صاحب سے درخواست کی، کہ اردو ترجمہ ڈھونڈ کر دیں۔ انہوں نے شفقت کی اور آج پی ڈی ایف فارمیٹ میں مل گئی۔اسی کا مطالعہ جاری ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
کچھ دن قبل عطار کی "منطق الطیر" کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔غزنوی صاحب سے درخواست کی، کہ اردو ترجمہ ڈھونڈ کر دیں۔ انہوں نے شفقت کی اور آج پی ڈی ایف فارمیٹ میں مل گئی۔اسی کا مطالعہ جاری ہے۔
بہت خوب ۔ ۔ ۔
ہمیں خدمت کا شرف بخش دیتے، جناب۔
 

حسان خان

لائبریرین
کچھ دن قبل عطار کی "منطق الطیر" کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔غزنوی صاحب سے درخواست کی، کہ اردو ترجمہ ڈھونڈ کر دیں۔ انہوں نے شفقت کی اور آج پی ڈی ایف فارمیٹ میں مل گئی۔اسی کا مطالعہ جاری ہے۔

بہت خوب فلک شیر صاحب۔۔ میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہے، لیکن اس کی تعریفیں بہت سنی ہیں کہ فارسی عرفانی مثنویات میں اس کا رتبہ بہت بلند ہے۔ توفیق ہوئی تو میں بھی ضرور پڑھوں گا۔

سر ، یہ مطیع الرحمان نقشبندی صاحب کا ترجمہ ہے۔آپ کے پاس بھی یہی موجود ہے بھلا؟
نیٹ پر آغا محمد اشرف دہلوی کا نثری ترجمہ اور شیخ وجیہ الدین کا منظوم دکنی اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔
 
آخری تدوین:

فلک شیر

محفلین
بہت خوب فلک شیر صاحب۔۔ میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہے، لیکن اس کی تعریفیں بہت سنی ہیں کہ فارسی عرفانی مثنویات میں اس کا رتبہ بہت بلند ہے۔ توفیق ہوئی تو میں بھی ضرور پڑھوں گا۔


نیٹ پر آغا محمد اشرف دہلوی کا نثری ترجمہ اور شیخ وجیہ الدین کا منظوم دکنی اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔
حسان! دہلوی صاحب والا ترجمہ بھی بعد میں غزنوی صاحب نے ارسال کیا، اسے میں نے ابھی نہیں دیکھا۔شیخ وجیہ کا منظوم ترجمہ میں ابھی دیکھتا ہوں۔
نقشبندی صاحب کے ترجمہ نے متاثر نہیں کیا۔ اس کے برعکس جو انگریزی میں تاثر اور اثر پذیری تھی....................سبحان اللہ، کیا کہنے۔
کتاب نے واقعی ہی مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیااور عرفانی مثنویات میں اس کی شہرت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔
کتب کے روابط کے لیے شکرگزار ہوں، جزاک اللہ۔:)
 
Top