آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

نمرہ

محفلین
میں نے ابھی علامہ اقبال کی کتاب رموزِ بے خودی ختم کی ہے۔
علامہ اقبال کے اس کتاب میں پیش ہوئے بعض افکار مثلا مسلم اقوام کے لیے وطنیت کی مطلق نفی اور مثالیت پسند ہمہ اسلامیت (pan-islamism) سے نہ میں پہلے اتفاق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں۔ لیکن اُن کے عظیم شاعر ہونے کے بارے میں اگر کوئی شک تھا تو وہ اب بالکل رفع ہو گیا ہے۔ پوری کتاب اُن کے بہترین شاعر ہونے کا ثبوت تھی۔ کوئی شعر ایسا نہیں تھا جو دل کو نہ چھوتا ہو اور اعلیٰ امنگیں نہ بیدار کرتا ہو۔ میں کتاب ختم کر کے بہتر اور مثبت محسوس کر رہا ہوں اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ محسوس کر رہا ہوں۔ ہم میں سے اکثر نے علامہ اقبال کو نظریاتی سانچے میں محدود کر کے اُن کی شاعری کا دائرہ بھی تنگ کر دیا ہے، ورنہ اُن کی شاعری تو ایسی ہے جسے اردو یا فارسی جاننے والے شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ اقبال کی پہلی کتاب تھی جو میں نے شروع سے آخر تک پوری پڑھی ہے۔ اب انشاءاللہ اُن کے بقیہ شعری مجموعے بھی پڑھوں گا۔
میرا بھی کچھ کچھ خیال ہے کہ اقبال کے نظریات پر اتنا زیادہ فوکس کیا جاتا ہے کہ ان کی شاعری کو فنی لحاظ سے اس قدر نہیں سراہا جاتا جتنا اس کا حق بنتاہے۔ لیکن شاید وہ خود بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ صرف ان کے پیغام پر توجہ دیں۔
 

عبدالحسیب

محفلین
ہاؤ ٹو ریڈ دا بائبل پڑھی اور خیال آیا کہ کاش ایسی کتاب قرآن پر بھی ہوتی

گزشتہ دنوں امیزآن پر ایک کتاب کی تلاش میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ شاید کہ آپ کے کچھ کام آ سکے :)
نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے چند صفحات میں سے بھی چند ہم نے پڑھے تھے اس لیے کہہ نہیں سکتے کہ کتاب مفید ہے یا نہیں!
 

عبدالحسیب

محفلین
"محمد علی جناح - دی گریٹ اینِگما ، مصنف: شیش راؤ چوہان"، زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں دھیرو ایس مہتا صاحب لکھتے ہیں کہ ،" شیش راؤ چوہان نے نہایت ہی اہم موضوع پر، غیر جانب داری سے ایک اہم کتاب لکھی ہے۔" آگے چل کر مہتا صاحب کہتے ہیں ، " شیش راؤ نے کتاب میں اپنی طرف سے کوئی رائے قائم نہیں کی ہے، بس حقائق کو یکجا کیا ہے اور یہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ اس موضوع پر اپنی رائے خود قائم کریں۔" دیکھتے ہیں اب اپنی کیا رائے قائم ہوتی ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
آذری کتب کی ایک ویب سائٹ پر تبریز کی پرانی چھپی جماعتِ یکم سے لے کر جماعتِ ششم تک کی آذری ترکی کی درسی کتب مل گئی ہیں۔ فی الحال جماعتِ یکم کے لیے مطبوعہ درسی کتاب 'آنا دیلی - بیرینجی کتاب' یعنی 'مادری زبان - کتابِ اول' پڑھ رہا ہوں۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
میرا بھی کچھ کچھ خیال ہے کہ اقبال کے نظریات پر اتنا زیادہ فوکس کیا جاتا ہے کہ ان کی شاعری کو فنی لحاظ سے اس قدر نہیں سراہا جاتا جتنا اس کا حق بنتاہے۔ لیکن شاید وہ خود بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ صرف ان کے پیغام پر توجہ دیں۔

شاعر کا شاعری سے کوئی بھی محرک ہو سکتا ہے لیکن پڑھنے والوں کو تو اُس سے قطع نظر شاعر کے فن کو سراہنا چاہیے۔ مثال کے دور پر تلوک چند محروم اور اُن کے بیٹے جگن ناتھ آزاد جیسے لوگوں کے لیے اقبال کے سارے نظریات سے اتفاق کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود مذکورہ دو افراد اقبال اور اُن کی شاعری سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ جگن ناتھ آزاد نے تو اقبال پر کتب لکھی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اقبال کے بہت سے مداحوں کا نام لیا جا سکتا ہے جو اقبال سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی اقبال کے قائل ہیں۔ جبکہ یہاں حسن نثار جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو شاعری اور شعری روایات سے ذرا بھی واقفیت نہ رکھتے ہوئے صرف اقبال کے الگ نظریات کی وجہ سے اُن کی شاعری کو بکواس اور لغویات گردانتے ہیں۔ یہ بڑا افسوس ناک رویہ ہے۔

اسی طرح میر انیس نے اپنے مرثیے خالصتاً مذہبی محرک سے لکھے تھے اور اُن کی بنیادی توجہ بھی فن سے زیادہ مرثیے کے مضامین اور اپنے خاص ماحول میں مرثیے کی افادیت پر تھی، لیکن آج کون سا اردو کا نقاد ایسا ہے جو انیس کے سامنے سر نہ جھکاتا ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
ڈاکٹر غلام علی الانا صاحب کی کتاب An Introduction to Sindhi Literature یعنی سندھی ادب کا تعارف پڑھ رہا ہوں۔ سندھی ادبی بورڈ، جامشورو کی شائع کردہ اس کتاب کے ۸۸ صفحات ہیں اور یہ پہلی بار ۱۹۹۱ میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں سندھی زبان سے واقفیت نہ رکھنے والے لوگوں کے لیے سندھی ادب کی مختصر تاریخ درج ہے۔ چونکہ زبان و ادب میرے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں، اس لیے مجھے تو یہ کتاب دلچسپ لگی ہے۔
e40757f8e06c33dc2204691fa68edc90-g.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
احمد کاویان پُور کا کیا ہوا قرآن کی پہلی دو سورتوں کا آذری ترکی ترجمہ پڑھ رہا ہوں۔
گذشتہ رمضان میں میرا پورے قرآن کا آذری ترجمہ پڑھنے کا ارادہ ہوا تھا، لیکن کتاب کا حجم اور زبان میں اپنی بے بضاعتی دیکھ کر ہمت جواب دے گئی تھی۔ لیکن چونکہ مذکورہ کتاب عربی متن اور آذری ترجمے کے ساتھ صرف ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے، اس لیے ترکی خوانی کی مشق کے لیے اسے پڑھنے کی خواہش ہو رہی ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی تھی، اور ایران میں چھپنے والی تمام ترکی کتابوں کی طرح یہ بھی عربی-فارسی رسم الخط میں ہے۔ ویسے بھی مجھے ترکی زبان کو اپنے تمدنی اسلاف کے رسم الخط میں پڑھنے میں لطف آتا ہے، کیونکہ ایک تو اس میں اپنائیت کا احساس زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے میرے مشرق پرستی کے جذبے کی بھی بہتر تسکین ہو جاتی ہے۔
336-Quran.jpg
 

تلمیذ

لائبریرین
ورودِ مسعود
یہ جامعہ ملی اسلامیہ دہلی کے سابق شیخ الجامعہ اور علیگڑھ یونیورسٹی کےپروفیسر معروف ماہر لسانیات سید مسعود حسین کی انتہائی دلچسپ خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنے حالات زندگی کے علاوہ علیگڑھ یونیورسٹی ، ہندوستان میں اردو زبان اور اپنے غیر ممالک (بشمول پاکستان) کے دوروں کے حوالے سے بیش بہا معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ہندوستان کے سابق صدر داکٹر ذاکر حسین ان کے چچا تھے۔ بالواسطہ طور پر ان کے بارے میں بھی پڑھنے کو کافی کچھ مل رہا ہے۔

سپاس شکر گزاری واجب ہے ، جناب راشد اشرف, صاحب کے لئے، کہ جن کے توسط سے اس کتاب کے آن لائن نسخے تک رسائی ہوئی۔ اللہ پاک انہیں جزا دے، آمین۔
 

راشد اشرف

محفلین
ورودِ مسعود
یہ جامعہ ملی اسلامیہ دہلی کے سابق شیخ الجامعہ اور علیگڑھ یونیورسٹی کےپروفیسر معروف ماہر لسانیات سید مسعود حسین کی انتہائی دلچسپ خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنے حالات زندگی کے علاوہ علیگڑھ یونیورسٹی ، ہندوستان میں اردو زبان اور اپنے غیر ممالک (بشمول پاکستان) کے دوروں کے حوالے سے بیش بہا معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ہندوستان کے سابق صدر داکٹر ذاکر حسین ان کے چچا تھے۔ بالواسطہ طور پر ان کے بارے میں بھی پڑھنے کو کافی کچھ مل رہا ہے۔

سپاس شکر گزاری واجب ہے ، جناب راشد اشرف, صاحب کے لئے، کہ جن کے توسط سے اس کتاب کے آن لائن نسخے تک رسائی ہوئی۔ اللہ پاک انہیں جزا دے، آمین۔

بہت شکریہ
بہت خوشی ہے کہ آپ نے اسے پڑھا، پسند کیا اور میری محنت وصول ہوئی۔ ورود مسعود ایک عمدہ خودنوشت ہے اور یہی سوچ کر اس کا انتخاب کیا تھا
 

جیہ

لائبریرین
ورودِ مسعود
یہ جامعہ ملی اسلامیہ دہلی کے سابق شیخ الجامعہ اور علیگڑھ یونیورسٹی کےپروفیسر معروف ماہر لسانیات سید مسعود حسین کی انتہائی دلچسپ خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنے حالات زندگی کے علاوہ علیگڑھ یونیورسٹی ، ہندوستان میں اردو زبان اور اپنے غیر ممالک (بشمول پاکستان) کے دوروں کے حوالے سے بیش بہا معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ہندوستان کے سابق صدر داکٹر ذاکر حسین ان کے چچا تھے۔ بالواسطہ طور پر ان کے بارے میں بھی پڑھنے کو کافی کچھ مل رہا ہے۔

سپاس شکر گزاری واجب ہے ، جناب راشد اشرف, صاحب کے لئے، کہ جن کے توسط سے اس کتاب کے آن لائن نسخے تک رسائی ہوئی۔ اللہ پاک انہیں جزا دے، آمین۔
کتاب کا نام "دورِ مسعود" ہونا چاہئے تھا :)
 
Top