ایسا میں نے جان بوجھ کر بالکل نہیں کیا، بلکہ فی البدیہہ لکھتے وقت جیسا ذہن میں آیا لکھ دیا۔ ورنہ علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت ہر لحاظ سے اس بات کی سزاوار ہے کہ ہمیشہ اُن کے نام کے آگے رحمۃ اللہ علیہ لگایا جائے اور اُن سے قلبی عقیدت رکھی جائے۔ میں خود اُن کے معتقدوں میں شامل ہوں۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو رنگ، نسب، قوم، زبان اور جغرافیائی حدود سے مطلقاً آزاد ہونا چاہیے کیونکہ اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے ان سب چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں بھلے اقبال کی عالمگیریت پر مبنی اس سوچ کو تنگ قومی، نسلی اور جغرافیائی سوچوں کے مقابلے میں تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن اس سے اتفاق اس لیے نہیں کر پاتا کیونکہ آج دنیا بھر کی مسلمان اقوام کے لیے اُن کی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ اُن کی لسانی، ثقافتی، قومی اور جغرافیائی شناختیں بھی اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا بنگلہ دیش کے لوگ صرف مسلمان ہونے کی خاطر پاکستان سے دوبارہ جڑنا پسند کریں گے؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کبھی نہیں۔ دوبارہ جڑنا تو بہت دور کی بات ہے وہاں کے لوگ تو ابھی تک پاکستان کے بارے میں منفی خیالات ہی ترک نہیں کر سکے ہیں۔ حالانکہ ہم بھی مسلمان، وہ بھی مسلمان۔۔ اسی طرح پاکستان سے نفرت کرنے والے اپنی طرح کے مسلمان بنگلہ دیشی کے لیے میں بھی بیزاری محسوس کرتا ہوں۔ جب میرے سامنے حقیقت ایسا نقشہ پیش کر رہی ہے تو میں اقبال کی ہمہ اسلامیت پر مبنی فکر سے کیسے متفق ہو سکوں؟
میں علامہ اقبال سے اس لیے غیر متفق نہیں ہوں کہ میں مسلمانوں کے درمیان تمدنی، معاشی اور سیاسی قربت کا خواہش مند نہیں ہوں، یا یہ کہ وہ جو کہہ رہے ہیں ویسا اسلام نہیں کہتا۔ بلکہ میں اُن سے اس لیے غیر متفق ہوں کیونکہ وہ جس مثالی اتحادِ اسلامیہ کے داعی تھے مجھے وہ نظر نہیں آتا۔