آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

محمداحمد

لائبریرین
ارے نہیں احمد بھائی ایسا کچھ نہیں۔ ایلیا صاحب تو شاعر اور علمی شخصیت کے حامل تھے۔ ہم کو تو بچوں اور جاب سے فرصت عام دنوں میں ایک دو گھنٹے اور ویک اینڈ کے کچھ گھنٹے ملتے ہیں۔ بس اسی فرصت کا حاصل چند صفحوں کا مطالعہ ہے۔ :)

ماشاء اللہ!

پھر تو یہ بات زیادہ قابلِ قدر ہے کہ کم وقت میں آپ اچھا مطالعہ کر لیتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
IMG20230216173736.jpg


تقسیم ہند سے پہلے کے تناظر میں لکھی بظاہر کسی شکاری کی آپ بیتی لگ رہی ہے کہ جس میں سسپینس اور جاسوسی کے ملے جلے عناصر بھی ہیں۔
لیکن محترم عبیداللہ بیگ صاحب نے اس وقت کرداروں سے متعدد بار روپے کے استعمالات کروائے ہیں جیسا کہ دس روپے کی نارنگیاں۔ حیرت ہوئی کہ اس وقت تو شاید آنہ، پائی، پیسہ ، چونی، اٹھنی وغیرہ جیسے سکے رائج تھے اور دس روپے تو بہت ہی بڑی رقم ہو گی کہ جس سے آپ بوری بھر نارنگیاں خرید سکتے ہوں ۔
نیز اب جس صفحہ پہ ہوں وہاں یہ بنیادی کردار (شکاری)
"نہایت فصیح انگریزی میں پوچھتا ہے۔
کون ہو تم؟"
اب یہ اتا سا جملہ میرے جیسے کم تعلیم یافتہ لوگ انتہائی عام انگریزی میں ہی پوچھ سکتے ہیں۔
صاحبِ علم خاص کر انگریزی میں زیادہ شد بد رکھنے والے ہی درست بتا سکتے ہیں کہ انتہائی فصیح انگریزی میں یہ جملہ کیسے بولا جائے گا؟
 

علی وقار

محفلین
IMG20230216173736.jpg


تقسیم ہند سے پہلے کے تناظر میں لکھی بظاہر کسی شکاری کی آپ بیتی لگ رہی ہے کہ جس میں سسپینس اور جاسوسی کے ملے جلے عناصر بھی ہیں۔
لیکن محترم عبیداللہ بیگ صاحب نے اس وقت کرداروں سے متعدد بار روپے کے استعمالات کروائے ہیں جیسا کہ دس روپے کی نارنگیاں۔ حیرت ہوئی کہ اس وقت تو شاید آنہ، پائی، پیسہ ، چونی، اٹھنی وغیرہ جیسے سکے رائج تھے اور دس روپے تو بہت ہی بڑی رقم ہو گی کہ جس سے آپ بوری بھر نارنگیاں خرید سکتے ہوں ۔
نیز اب جس صفحہ پہ ہوں وہاں یہ بنیادی کردار (شکاری)
"نہایت فصیح انگریزی میں پوچھتا ہے۔
کون ہو تم؟"
اب یہ اتا سا جملہ میرے جیسے کم تعلیم یافتہ لوگ انتہائی عام انگریزی میں ہی پوچھ سکتے ہیں۔
صاحبِ علم خاص کر انگریزی میں زیادہ شد بد رکھنے والے ہی درست بتا سکتے ہیں کہ انتہائی فصیح انگریزی میں یہ جملہ کیسے بولا جائے گا؟
آج کل آرٹیفیشل انٹیلجینس کا زمانہ ہے، یہ لیجیے، مختلف جملے۔

May I ask who you are?
Could you please introduce yourself?
Might I have the pleasure of knowing your name?
Would you kindly inform me of your identity?
I'm sorry, but I don't believe we've been properly introduced. May I know your name?
Excuse me, but may I inquire as to your name and background?
May I know with whom I am speaking?
Please pardon my ignorance, but could you tell me who you are?
 

اے خان

محفلین
خس و خاشاک زمانے
مستنصر حسین تارڑ
ناول میں وہ گرفت نہیں جو قاری کو باندھے ہوئے رکھے
یا شاید ذوق کی وجہ ہو
 

جاسمن

لائبریرین
صدیوں کی زنجیر
رضیہ فصیح احمد
آج مکمل ہوئی۔
اور دل۔۔۔ بہت بہت اداس ہے۔ جب بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے علیحدہ ہونے کی داستان پڑھتے ہیں، یہی کیفیت ہوتی ہے۔ کیسے دل چیرنے والے واقعات ہیں۔
رضیہ فصیح احمد بہت خوبصورت لکھتی ہیں۔ اس ناول میں بس ایک الجھاؤ تھا کہ واقعات کی ترتیب آگے پیچھے تھی۔ چونکہ کردار کافی تھے سو ترتیب آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے سمجھنا مشکل لگتا تھا۔ جبکہ ہم آن لائن پڑھ رہے ہوں۔ کتاب کی صورت میں تو فوراً بندہ پیچھے پلٹا کے دیکھتا رہتا ہے لیکن یہاں مجھے مشکل لگتا ہے ۔
میں ابھی شمس الرحمٰن ، عمر خان اور زری کے ساتھ ہوں۔ کتنے دن یہ کردار ساتھ رہیں گے۔
 

اے خان

محفلین
"علی پور کا ایلی" کا سرورق شاندار ہے۔ :)
امربیل عمیرہ احمد کا ناول ہے
لڑکیوں میں یہ نام کافی مقبول ہے
ناول میں بہت کم کردار ہے پورا ناول ایک کردار جو ناول کا ہیرو ہے کہ گرد گھومتا ہے
ناول میں اشرافیہ کے بچوں کی محرومیوں کو دکھایا گیا ہے
جن کے پاس دولت سب کچھ ہے لیکن رشتے نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف) کی کتاب
Working with Zia: Pakistan's Power Politics, 1977-1988
جنرل عارف، ایک عرصے تک جنرل ضیا کے دست راست رہے۔ پہلے وہ ضیا کے چیف آف اسٹاف تھے اور پھر 1984 سے 1987 اپنی ریٹائرمنٹ تک وائس چیف آف آرمی اسٹاف رہے لیکن عملی طور پر وہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ڈیوٹی ہی نبھاتے رہے۔ ضیا الحق کو ان پر اندھا اعتماد تھا اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں واحد نمبر ٹو گزرے ہیں جن سے نمبر ون کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ ضیا دور کے ہر طرح کے فوجی اور سیاسی فیصلوں میں شامل رہے اور یہ کتاب اسی تناظر میں ہے اور ضیا دور پر ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔
wpd82f66c2_05_06.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف) کی کتاب
Working with Zia: Pakistan's Power Politics, 1977-1988
جنرل عارف، ایک عرصے تک جنرل ضیا کے دست راست رہے۔ پہلے وہ ضیا کے چیف آف اسٹاف تھے اور پھر 1984 سے 1987 اپنی ریٹائرمنٹ تک وائس چیف آف آرمی اسٹاف رہے لیکن عملی طور پر وہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ڈیوٹی ہی نبھاتے رہے۔ ضیا الحق کو ان پر اندھا اعتماد تھا اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں واحد نمبر ٹو گزرے ہیں جن سے نمبر ون کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ ضیا دور کے ہر طرح کے فوجی اور سیاسی فیصلوں میں شامل رہے اور یہ کتاب اسی تناظر میں ہے اور ضیا دور پر ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔
wpd82f66c2_05_06.jpg

کتاب کے تعارف کا بہت شکریہ وارث بھائی !

کتاب کے مندرجات سے بھی چیدہ چیدہ نکات شاملِ محفل کیجے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کتاب کے تعارف کا بہت شکریہ وارث بھائی !

کتاب کے مندرجات سے بھی چیدہ چیدہ نکات شاملِ محفل کیجے۔
جی انشاءاللہ۔ فی الحال شروع کے ابواب پڑھ رہا ہوں، بہرحال فہرست پر نظر ڈالیں تو ایک طرح سے 1947ء لیکر 1987ء تک پاکستان کی اجمالی تاریخ ہے۔ شروع کے ابواب میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک کا ذکر ہے پھر اس کے بعد بھٹو کی حکومت اور ضیا کے مارشل لا پر بحث ہے۔ جنرل ضیا کے دور حکومت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پاکستان کے امریکہ، انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات پر ابواب ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور آخر میں جونیجو حکومت کو فارغ کرنے اور جنرل ضیا کے طیارے کا حادثے کا ذکر ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے 90ء کی دہائی کے اواخر میں نظر سے گزرنے والا دنیا کا طویل ترین ناول ابتدا سے پڑھنا نہیں بلکہ سننا شروع کردیا ہے جسے سسپنس ڈائجسٹ میں مرحو م محی الدین نواب نے 70 کی دہائی کے وسط سے لکھنا شروع کیا تھا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان کے دوسرے اور شاید بدنام ترین چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر کی کتاب"فرام جناح ٹو ضیا"۔
From Jinnah to Zia
گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ء میں جب پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا اور وزیر اعظم خواجہ ناظم کی حکومت کو فارغ کر دیا تو اسمبلی کے صدر (بعد کا نام: اسپیکر) مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اسمبلی اور حکومت بحال کر دی تو گورنر جنرل کیس فیڈرل کورٹ (بعد کا نام: سپریم کورٹ) میں لے گئے۔ دہاں چیف جسٹس محمد منیر نے نظریۂ ضرورت متعارف کرواتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بدل دیا اور گورنر جنرل کا اسمبلی اور حکومت توڑنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔انہی چیف جسٹس موصوف نے جنرل ایوب کے مارشل لاء کو بھی قانونی قرار دے دیا اور وہ بھی ایک بالکل ہی غیر متعلق "دوسو کیس"میں۔ یہ ایک قتل کا مقدمہ تھا جو چلتے چلتے سپریم کورٹ تک پہنچ چکا تھا اور وہاں اس کا فیصلہ سناتے ہوئے موصوف نے مارشل لاء کو بھی قانونی قرار دے دیا۔جسٹس منیر کے ان دو فیصلوں کی گونج آج تک پاکستانی عدل کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام پر جتنا اثر ان دو فیصلوں نے ڈالا ہے شاید کسی اور فیصلے نے اتنا اثر ڈالا ہو۔

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1979ء میں چھپا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب ملک میں "الیکشن الیکشن"کا شور تھا اور کسی کو بھی علم نہ تھا کہ جنرل ضیا الیکشنز کو اتنا آگے لے جائے گا سو اس کتاب میں کچھ ایسے موضوعات بھی آ گئے جو اب شاید غیر متعلقہ محسوس ہوتے ہیں۔
14759046.jpg
 
آخری تدوین:
Top