دسویں کلاس میں تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری نظر کمزور ہو چکی ہے ۔ پتا ایسے چلا کہ ایک دن ماسٹر صاحب نے بلیک بورڈ پر لکھی کوئی تحریر پڑھنے کو کہا ۔ میں چونکہ پیچھے والے بنچ پر بیٹھا کرتا تھا ۔اٹھ کر کھڑا ہو گیا مگر کیا پڑھتا؟ کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا صاف۔ میں نے آنکھوں کو ہلکا سا بھینچا تو لفظ کچھ کچھ نظر آنے لگے ۔ ماستر صاحب نے ایسی شکل بناتے دیکھا تو ہنس پڑے ۔
ماسٹر صاحب: میں نے یہ پڑھنے کو کہا ہے ، بندر جیسی شکل بنانے کو نہیں۔
میں : سر جی تختہ سیاہ دور ہے ، کجھ نظر نہیں آ رہا ۔
ماسٹر صاحب نے میرے ساتھ بیٹھے لڑکے کو کہا کہ کیا اسے بلیک بورڈ پر لکھی تحریر نظر آ رہی ہے یا نہیں ۔؟ اس نے جلدی سے وہ تحریر پڑھ دی۔
ماسٹرصاحب: (پنجابی میں) تینوں کدے کجھ آیا وی اے! بہانے ہور نہ ہو وے تے ۔
(طنزیہ انداز میں : تجھے کبھی سبق یاد ہوا بھی ہے ؟ بہانے باز)
میں نے قریب جا کر ماسٹر صاحب کو ساری تحریر جو تختہ سیاہ پر لکھی تھی پڑھ کر سنا دی ۔ ماسٹر صاحب چونکے ۔
کہا: گھر جا کے ابے نوں آکھیں میری نظر چیک کراوٗ۔ ( گھر جا کر ابو کو کہنا کہ کہیں سے نظر ٹسٹ کروائیں)
میں نے گھر جا کر ابو سے کہا کہ ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے ابو کو کہنا، نظر چیک کراؤ۔
ابو : میری نظر کو کیا ہوا ہے جو چیک کراوں۔ ہیں؟
میں : وہ۔۔۔ در اصل۔۔۔ میری نظر چیک کرائیں ۔
خیر مجھے شہر لے جایا گیا ۔(ارے شہر میں تو خوب چہل پہل اور رونق تھی)
ایک عینک ساز کے پاس ہم گئے ۔ ابو نے اسے کہا کہ بھئی اس لڑکے کی نظر چیک کرو ، ٹھیک ہے یا کچھ فرق ہے؟
چونکہ پہلی دفعہ میں کسی عینک ساز کی دوکان پر گیا تھا ۔ میں نے عینک ساز کو ڈاکٹر سمجھ لیا تھا ۔ اس نے مجھے ایک اسٹول پر بٹھایا اور ایک صندوقچی اٹھا کر لے آیا ۔ اس میں ایک بے ڈھنگا سا فریم نکالا ۔ میں ڈر گیا ۔
میں : ڈاکٹر صاحب پِیڑ (درد) تو نہیں ہو گی نا؟
عینک ساز: پتر کیڑے پنڈوں آیاں ایں؟( بیٹا کون سے گاوں سے آئے ہو؟)
میں نے گاوں کا نام بتایا ۔بہر حال ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ اس سے ذرا بھی پِیڑ نہیں ہو گی ۔ اس نے وہ بے ڈھنگا فریم مجھے لگایا اور کچھ دور سامنے ایک سفید گتے کی طرف اشارہ کیا ۔ اس پر الف ، ب ، پ موٹے موٹے لکھے ہوئے تھے ۔ کہنے لگا میں شیشے لگاتا جاتا ہوں تم مجھے وہ پڑھ کر سنانا ۔
اب بتاو وہ اوپر والی لائن پر کیا لکھا ہے؟
میں نے فر فر پڑھ کر سنا دی ۔
اور نیچے والی لائن؟
میں نے وہ بھی سنا دی ۔
اور اس سے نیچے والی؟
وہ کچھ زیادہ ہی باریک خط میں لکھی گئی تھی ۔ وہ نہ پڑھی گئ۔اس نے پرانہ شیشہ فریم سے نکال کر ایک اور اندر رکھا ۔ تو مجھے روز ِ روشن کی طرح سب کچھ نظر آنے لگا۔
( سب کچھ سے مراد اس گتے پر لکھے گئے حروف ہیں ۔ زیادہ دور تک مت سوچیئے گا)
عینک ساز: پتر اے دس تینوں کِنج پتا چلیا کہ تیری نظر کمزور اے؟( بیٹا یہ بتاو کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ تمہاری نظر کمزور ہے)
میں
منہ پکا کر کے) ڈاکٹر صاحب روز مرے ٹڈ وچ پیڑ ہوندی اے۔
(روزانہ میرے پیٹ میں درد ہوتا ہے) ڈاکٹر کی شکل عجیب سی بن گئ،
پھر میری طرف حیرت سے دیکھ کر پوچھا ۔: یہ پیٹ درد کا نظر کی کمزوری سے کیا تعلق ہے؟
مجھ سے ہنسی روکی نہ گئ ۔ میں ہنسا تو اس نے بھی قہقہ لگایا۔ اس کو پتا چل گیا کہ پتر جی نے "ماموں" بنا دیا ہے۔