وعلیکم السلام اور السلام علیکم
یوگا کا تجربہ ناقابل فراموش اور بیان سے باہر ہے میرے لیے۔میں صرف لکھ سکتی ہوں لیکن آپ وہ جادو نہیں محسوس کر سکتے جو اس انسٹکٹر کی آواز میں ہے لگتا ہے کہ آپ سچ میں ہپنا ٹائز ہو چکے ہیں ۔ اس وقت سچ میں خود کو بھول کر کسی اور ہی دنیا میں ہوتے ہیں۔سچ میں خود کو بہت ہلکا پھلکا اور ریلیکسڈ فیل کرتے ہیں۔
انسٹکٹر کا کہنا ہے کہ
جب ہم سانس لیتے/کھنچتے ہیں تو او کی آواز آتی ہے اور جب سانس نکالتے/خارج کرتے ہیں تو ایم کی آواز آتی ہے اس لیے اسے اوم کہتے ہیں۔ جب وہ اوم کہتی تھی تو اس وقت مجھے اچھا نہیں لگتا وہ آواز مجھے چھبتی ہے میں اس وقت میں اللہ اللہ کہتی ہوں۔
السلام علیکم
محترمہ تعبیر بہنا
اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
بہت شکریہ
آپ نے دوران یوگا کے مشاہدات و احساسات سے آگاہ کیا ،
اوم (aum)
اے جاگنے والی صورت
ایم گہری نیند
یو جاگنے اور گہری نیند سونے کے درمیان کا وقت
اوم ( میں اک اکیلا واحد ہون ۔ اور چاہوں تو کئی میں سما سکتا ہوں ۔ )
اوم (پراناوا) ( ایسی طاقت جو جسم و روح کے درمیان تعلق کو قائم کرکے زندگی کو رواں رکھتی ہے )
سے مراد ایسی طاقت جو انسان کے وجود میں حس ادراک و عمل کو توانا کرتی ہے ۔
اور اچھائی برائی میں تفریق کرتے ہوئے انسان کی روح کو آلائشات نفس سے پاک کرتی ہے ۔
قدیم ہندو نظریات کے مطابق انسان کا سانس لینا اس کی روح کو ایسی تازگی اور طاقت بخشتا ہے
جس سے روح انسانی ایسی طاقت پاتی ہے کہ انسانی جسم بنا کچھ کھائے پیئے بھی زندہ رہ سکتا ہے ۔
اور روح اتنی توانا ہو سکتی ہے کہ اپنی تخلیق کی اصل منزل کو پا لے
انسان کی سانس اس کے نفس سے منسلک ہوتی ہے ۔
نفس اس سانس کو روح کے لیے توانائی میں بدل دیتا ہے ۔
یوگا کی مشق سے انسان اپنے دماغ پر ایسی گہری پرسکون نیند طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ
جس میں دماغ خوشی و مسرت دکھ و غم سے آزاد رجائیت بھرے خواب دیکھے
اور رنگ و نور کی بارش سے یہ عزم توانا کرے کہ میں جو ہوں جیسا ہوں بہتر ہوں اگر مجھے اپنے نفس پر قابو رہا ۔
نیند سے بیدار ہونے پر انسانی دماغ خیالات و خواہشات کے ہجوم سے خالی ہو تا ہے ۔
اور انسان خواہش لذت نفس کے اثر سے نکل کر اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پا سکنے کی تگ و دو کرتا ہے ۔
اسے چاہے نروان کی تلاش کہا جائے ۔ یا سیدھے رستہ پر چلنے کی خواہش ۔
جیسی خواہش سے انسان سانس لیتا ہے ویسی ہی سانس انسانی جسم میں داخل ہو کر اس میں موجود روح کو غذا فراہم کرتی ہے ۔
اور یہی سانس جب جسم انسانی سے واپس ہوتی ہے تو اپنے ساتھ وہ نفس کی ٹھکرائی غذا واپس لے آتی ہے ۔
اب اگر نفس روح پر غالب اور شریر شیطانی خواہش کا مالک ہے تو اس کی روح سانس سے صرف شر ہی جذب کرے گی ۔
اور اگر نفس پر روح غالب اور خواہش پاک ہے تو روح اس سانس سے طیب اور پاکیزہ غذا جذب کرے گی ۔
انسانی دماغ اور دل بیک وقت کسی خواہش کو رد یا قبول کرنے کے لیے روح کے سامنے دلائل کا ڈھیر لگا دیتے ہیں ۔
نفس دل سے اور عقل دماغ سے منسلک ہوتی ہے ۔
( دل تو رب کا گھر ہے ) یہ کلمہ اک الگ وضاحت کا محتاج
اور روح ان دونوں کے درمیان اک عامل کا کردار ادا کرتی ہے ۔
اور جو بھی جذبہ خواہش شر و خیر کا طاقت ور ہو ۔ روح اسی کی ہی تابع ہو جاتی ہے ۔
یوگا میں اوم کا استعمال اصل میں ارتکاز توجہ کے ساتھ اپنے وجود کے گرد لپٹے ہوئے
اس روشن نورانی حالے ( ہمزاد ۔ نسمہ ۔ چھایا) کو اس قدر حساس بنانا ہوتا ہے کہ
سانس لیتے وقت صرف وہ غذا جسم میں داخل ہو جو شر سے پاک ہو ۔
لفظ اوم بظور اک نکتہ ارتکاز استعمال کیا جاتا ہے ÷
مسلمان صوفیاء نے اوم کی جگہ " اللہ ھو " کا لفظ استعمال کیا ہے اور یوگا کو لفظ مراقبہ سے بدل دیا ہے ۔
اور اللہ ہو سے مراد “ اللہ نورالسموات والارض “ہے ۔
( بے شک اللہ زمین وآسمانوں کا نور ہے )
وہ اک اکیلا واحد نور جس نے زمینوں آسمانوں کو روشن کیا ہوا ہے ۔
اللہ ( سانس کا جسم میں دخول )
ھو (سانس کا جسم سے خروج ۔)
میری ذاتی رائے میں مراقبہ یوگا سے بہتر نتائج دیتا ہے ۔
یوگا اور مراقبہ میں صرف سوچ و فکر کا اختلاف ہے ۔
باقی مراقبہ کے سب ہی آسن یوگا سے مستعار لیے گئے ہیں ۔
اس تحریر سے اختلاف برائے اصلاح میرے لیے سودمند ہو گا ۔
نایاب