حمیرا عدنان
محفلین
تقریباً چار سال پہلے اوور سپیڈ کی وجہ سے کمیرے کی زد میں آئی تھی، تب تقریب 50 کویتی دینار جرمانہ ہوا تھا جو عدنان نے پے کر دیا تھا لیکن کافی سنائی بھی مجھے ، اس کے بعد ایک دفعہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے 10 دینار کا جرمانہ ہوا
اس روداد سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عدنان کو کبھی جرمانہ نہیں ہواتقریباً چار سال پہلے اوور سپیڈ کی وجہ سے کمیرے کی زد میں آئی تھی، تب تقریب 50 کویتی دینار جرمانہ ہوا تھا جو عدنان نے پے کر دیا تھا لیکن کافی سنائی بھی مجھے ، اس کے بعد ایک دفعہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے 10 دینار کا جرمانہ ہوا
اکثر گاڑیوں میں تو الارم بج اٹھتا ہے اگر سیٹ بیلٹ نہ لگا رکھی ہو۔اس کے بعد ایک دفعہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے 10 دینار کا جرمانہ ہوا
اکثر گاڑیوں میں تو الارم بج اٹھتا ہے اگر سیٹ بیلٹ نہ لگا رکھی ہو۔
حفاظتی بیلٹ لگانے میں کیا قباحت ہے؟20 روپے کی ہک ملتی ہے عین ایسے ہی جیسی سیٹ بلٹ کے آخر پر ہوتی- ایدھر تو نصب کر دی جاتی ہے- اب بول کر دکھائے گاڑی-
جی الارم کو بند کرنے کے لیے وہ اکثر بیٹھنے سے پہلے ہی سیٹ بیلٹ لگا دیا کرتے اور بیلٹ کے بغیر بیٹھ جاتے تھے لیکن اب کافی سختی ہو گئی ہے قوانین میں تو پراپر سیٹ بیلٹ لگاتے ہیںاکثر گاڑیوں میں تو الارم بج اٹھتا ہے اگر سیٹ بیلٹ نہ لگا رکھی ہو۔
شدید حیرانی!جی الارم کو بند کرنے کے لیے وہ اکثر بیٹھنے سے پہلے ہی سیٹ بیلٹ لگا دیا کرتے اور بیلٹ کے بغیر بیٹھ جاتے تھے لیکن اب کافی سختی ہو گئی ہے قوانین میں تو پراپر سیٹ بیلٹ لگاتے ہیں
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں گاڑیاں بغیر سیٹ بیلٹ کے آتی تھیں۔ اس وقت اور اس کے کچھ سال بعد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اب تو بیلٹ بھی ہوتی ہے اور اسے نہ لگانے پر کار شور بھی مچاتی ہے۔ پھر بھی بیلٹ لگانے میں اتنا تردد کیوں؟حفاظتی بیلٹ لگانے میں کیا قباحت ہے؟
بہت سے لوگ اور خاص طور پر ٹیکسی والے تو بس آگے بیلٹ ڈال لیتے ہیں۔ ہک نہیں کرتے۔ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں گاڑیاں بغیر سیٹ بیلٹ کے آتی تھیں۔ اس وقت اور اس کے کچھ سال بعد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اب تو بیلٹ بھی ہوتی ہے اور اسے نہ لگانے پر کار شور بھی مچاتی ہے۔ پھر بھی بیلٹ لگانے میں اتنا تردد کیوں؟
یہ کیسے ممکن ہے؟ ہک نہ لگی ہو تو بیلٹ خودبخود پیچھے کھسک جاتی ہے۔اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟بہت سے لوگ اور خاص طور پر ٹیکسی والے تو بس آگے بیلٹ ڈال لیتے ہیں۔ ہک نہیں کرتے۔
یہاں اکثر چھوٹی اور پرانی گاڑیاں ہیں۔ بلکہ کئی میں تو پہلے بیلٹ تھی ہی نہیں۔ اور اکثر کا سپرنگ خراب ہوتا ہے، یا بیلٹ کو کارنر سے موڑ کر پھنسا دیا جاتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے؟ ہک نہ لگی ہو تو بیلٹ خودبخود پیچھے کھسک جاتی ہے۔اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟
مائنڈ سیٹ کے علاوہ کچھ نہیں۔اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟
پاکستان میں اکثر حادثات کا سبب موٹر سائکل سوار ہوتے ہیں جنھیں ڈرائیونگ کے قوانین اور اصولوں کی الف ب بھی معلوم نہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہ جاہل مظلوم بن جاتے ہیں اور عوام کہتی ہے کہ کار والا دولت کے نشے میں اندھا ہو کر گاڑی چلا رہا تھا اور غریبوں کی زندگیوں کا خیال تک نہیں ان امرا کو۔موٹر سائیکل سوار کا استحقاق ہے کہ وہ داہنی جانب سے، بائیں جانب سے، پیچھے سے یا سامنے سے، کسی بھی سمت سے آپ کی گاڑی کے سامنے آ سکتا ہے۔
اگر اتفاق سے وہ آپ سے آگے چل رہا ہے تو اُس کے سر کو غور سے دیکھتے چلیں کہ وہ سر کی خفیف جنبش کے ذریعے ہی مڑنے کا اشارہ دے گا۔ اگر وہ غریب اشارہ نہ بھی دے سکے تب بھی آپ اسے اپنی گاڑی کے سامنے آنے سے نہیں روک سکتے، لہٰذا اپنی رفتار دھیمی ہی رکھیے۔
کوئی کلپ یا سیفٹی پن وغیرہ لگا دیتے ہیں بیلٹ پر جہاں سے وہ واپس سوراخ میں پیچھے کو کھسکتی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے؟ ہک نہ لگی ہو تو بیلٹ خودبخود پیچھے کھسک جاتی ہے۔
جہالت!اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟