آپ کے علاقے کے ٹریفک کے قوانین اور معلومات

تقریباً چار سال پہلے اوور سپیڈ کی وجہ سے کمیرے کی زد میں آئی تھی، تب تقریب 50 کویتی دینار جرمانہ ہوا تھا جو عدنان نے پے کر دیا تھا لیکن کافی سنائی بھی مجھے ، اس کے بعد ایک دفعہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے 10 دینار کا جرمانہ ہوا
 

آصف اثر

معطل
کراچی میں گورنر ہاؤس کے قریب ایک ساتھی کے ساتھ ڈبل سواری کے ”جرم“ میں دھر لیا گیا تو 8 ماہ تک مجسٹریٹ صاحب کے دفتر چکر لگتے رہے کیوں کہ ناچیز مٹھی گرم کرنے کا قائل نہیں تھا۔ 8ویں ماہ دوست نے 1000 روپے ”نقد“ جمع کراکر دونوں کی جان چھڑوادی۔ وہ دِن ہے اور آج کا دِن توبۃ النصوح کرکے ٹریفک قوانین کے سامنے ”ہاتھ اور پاوں“ دونوں بندھے ہوتے ہیں۔:)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
پورے سیالکوٹ کینٹ میں چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی حد رفتار ہے، ایک دن صبح بچوں کو اسکول سے دیر ہو رہی تھی تو میں کچھ تیز گاڑی چلا رہا تھا، پچا س اور ساٹھ کے درمیان رفتار تھی کہ ایک ایم پی ہاتھ میں سپیڈ گن پکڑے دور سے نمودار ہوا اور رکوا لیا، عذر پیش کیا۔ کوئی شریف آدمی تھا کہ مجھے شریف سمجھتے ہوئے وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔ :)

باقی کینٹ سے باہر پورے سیالکوٹ شہر میں ٹریفک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس والے یا تو موٹر سائیکل سواروں کو روکتے ہیں یا پھر بڑے بڑے ٹرکوں وغیرہ کو کہ آمدن فقط انہی سے ہوتی ہے!
 

زیک

مسافر
تقریباً چار سال پہلے اوور سپیڈ کی وجہ سے کمیرے کی زد میں آئی تھی، تب تقریب 50 کویتی دینار جرمانہ ہوا تھا جو عدنان نے پے کر دیا تھا لیکن کافی سنائی بھی مجھے ، اس کے بعد ایک دفعہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے 10 دینار کا جرمانہ ہوا
اس روداد سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عدنان کو کبھی جرمانہ نہیں ہوا
 
اکثر گاڑیوں میں تو الارم بج اٹھتا ہے اگر سیٹ بیلٹ نہ لگا رکھی ہو۔
جی الارم کو بند کرنے کے لیے وہ اکثر بیٹھنے سے پہلے ہی سیٹ بیلٹ لگا دیا کرتے اور بیلٹ کے بغیر بیٹھ جاتے تھے لیکن اب کافی سختی ہو گئی ہے قوانین میں تو پراپر سیٹ بیلٹ لگاتے ہیں
 

زیک

مسافر
حفاظتی بیلٹ لگانے میں کیا قباحت ہے؟
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں گاڑیاں بغیر سیٹ بیلٹ کے آتی تھیں۔ اس وقت اور اس کے کچھ سال بعد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اب تو بیلٹ بھی ہوتی ہے اور اسے نہ لگانے پر کار شور بھی مچاتی ہے۔ پھر بھی بیلٹ لگانے میں اتنا تردد کیوں؟
 
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں گاڑیاں بغیر سیٹ بیلٹ کے آتی تھیں۔ اس وقت اور اس کے کچھ سال بعد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اب تو بیلٹ بھی ہوتی ہے اور اسے نہ لگانے پر کار شور بھی مچاتی ہے۔ پھر بھی بیلٹ لگانے میں اتنا تردد کیوں؟
بہت سے لوگ اور خاص طور پر ٹیکسی والے تو بس آگے بیلٹ ڈال لیتے ہیں۔ ہک نہیں کرتے۔
 

عثمان

محفلین
یہ کیسے ممکن ہے؟ ہک نہ لگی ہو تو بیلٹ خودبخود پیچھے کھسک جاتی ہے۔اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟
یہاں اکثر چھوٹی اور پرانی گاڑیاں ہیں۔ بلکہ کئی میں تو پہلے بیلٹ تھی ہی نہیں۔ اور اکثر کا سپرنگ خراب ہوتا ہے، یا بیلٹ کو کارنر سے موڑ کر پھنسا دیا جاتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
موٹر سائیکل سوار کا استحقاق ہے کہ وہ داہنی جانب سے، بائیں جانب سے، پیچھے سے یا سامنے سے، کسی بھی سمت سے آپ کی گاڑی کے سامنے آ سکتا ہے۔

اگر اتفاق سے وہ آپ سے آگے چل رہا ہے تو اُس کے سر کو غور سے دیکھتے چلیں کہ وہ سر کی خفیف جنبش کے ذریعے ہی مڑنے کا اشارہ دے گا۔ اگر وہ غریب اشارہ نہ بھی دے سکے تب بھی آپ اسے اپنی گاڑی کے سامنے آنے سے نہیں روک سکتے، لہٰذا اپنی رفتار دھیمی ہی رکھیے۔
پاکستان میں اکثر حادثات کا سبب موٹر سائکل سوار ہوتے ہیں جنھیں ڈرائیونگ کے قوانین اور اصولوں کی الف ب بھی معلوم نہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہ جاہل مظلوم بن جاتے ہیں اور عوام کہتی ہے کہ کار والا دولت کے نشے میں اندھا ہو کر گاڑی چلا رہا تھا اور غریبوں کی زندگیوں کا خیال تک نہیں ان امرا کو۔
اسی پر بس نہیں بلکہ کئی مرتبہ تو عوام اس کار والے کو پیٹنا بھی شروع کر دیتی ہے جو ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا اور حادثے کا سبب سراسر موٹر سائکل والے کی غلطی تھی۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
یہ کیسے ممکن ہے؟ ہک نہ لگی ہو تو بیلٹ خودبخود پیچھے کھسک جاتی ہے۔
کوئی کلپ یا سیفٹی پن وغیرہ لگا دیتے ہیں بیلٹ پر جہاں سے وہ واپس سوراخ میں پیچھے کو کھسکتی ہے۔
اور آخر کیا وجہ ہے جو یہ لوگ سیٹ بیلٹ لگانے پر آمادہ نہیں؟
جہالت!
جس جاہل نے ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں لیا اور اگر لیا بھی تو رشوت دے کر حرام کا لائسنس لیا ہو اس سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ بیلٹ لگائے گا؟ اس جاہل کو تو علم ہی نہیں کہ بیلٹ کسی پولیس والے یا حکومت کی نہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی ضمانت ہے۔
یہ جہلا دو ٹن لوہا 100 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سڑکوں پر گھما رہے ہوتے ہیں اور خود سمیت کئی زندگیوں کے چراغ گل کرتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
حال ہی میں یہاں کافی بڑی شاہراہوں پر کار کی سپیڈ بڑھا دی گئی ہے۔ایک سو بیس سے اب ایک سو چالیس کاروں کے لیے اور بسوں اور ٹرکوں کے لیے سو اور اسی۔
 
Top