محبت میں غلط فہمی اگر اِلزام تک پہنچے
کِسے معلوم ، کِس کا نام ، کِس کے نام تک پہنچے
تیری آنکھوں کے ٹُھکرائے ہُوئے ، وہ لوگ تھے شاید !
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر، جام تک پہنچے
سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سُورج
بہت مُشکل سے ، ہم اُن گیسوؤں کی شام تک پہنچے
کِسی نے بھی ، نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جِن کو !
وہ سارے وَلوَلے میرے دلِ نا کام تک پہنچے
سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مُفلسوں کی ، تب کہیں اُس بام تک پہنچے
قتیل ! آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبّت کا
اگر تُم چاہتے ہو ، شاعری الہام تک پہنچے
قتیل شفائی