طارق شاہ

محفلین

کِسی کا درد ہو دِل بے قرار اپنا ہے !
ہَوا کہِیں کی ہو، سینہ فگار اپنا ہے

ہو کوئی فصل مگر زخم کِھل ہی جاتے ہیں
سدا بہار دلِ داغدار اپنا ہے

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

انْبالہ ایک شہر تھا، سُنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہُوں اُسی لُٹے ہُوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطۂ لاہور دیکھنا
لایا ہُوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

دَیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے تِرا قرض نجانے کب سے

کِس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے، لیکن اب تک
جب بھی اُس راہ سے گُزرو، تو کسی دُکھ کی کسک
ٹوکتی ہے، کہ وہ دروازہ کُھلا ہے اب بھی
اور اُس صحن میں ہر سو ، یونہی پہلے کی طرح !
فرشِ نومیدیِ دِیدار بِچھا ہے اب بھی

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

سبھی کُچھ ہے تیرا دِیا ہُوا، سبھی راحتیں، سبھی کُلفتیں
کبھی صُحبتیں، کبھی فُرقتیں، کبھی دُورِیاں، کبھی قُربتیں

یہ سُخن جو ہم نے رَقم کیے، یہ ہیں سب ورق تِری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی مدّتیں

جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کِسی عدو کی عداوتیں، نہ کِسی صنم کی مروّتیں

چَلو آؤ تم کو دِکھائیں ہم، جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تُربتیں

مِری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے !
کِسی اپنے کل میں بھی بُھول کر، کہیں لکھ رکھی ہوں مسرّتیں

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

یہ بھی مُمکِن ہے کہ صحراؤں میں گُم ہو جائیں
یہ بھی مُمکِن ہے خرابوں سے، خزانہ نکلے

آؤ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی !
کیا خبر، پھر کوئی گم گشتہ ٹِھکانہ نکلے

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

چشمِ ساقی سے پیو یا لبِ ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں

سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر !
سب پہ ساقی کی نظر ہو ، یہ ضروری تو نہیں

خاموش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین


کیسی ہے رہگُزر وہ ، دیکیں گے جاکے اب اُسے
بیت گئے برس بہت ، دیکھا تھا ہم نے جب اُسے

اِک اِک ورق ہے باب زر تیری غزل کا
جب یہ کتاب ہوچُکے ، جاکے دِکھانا تب اُسے

منیر نیازی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

پھر پھنسے دامِ محبّت میں، مُبارک ہو نسِیم
آشنا پھر ہُوئے اُس کافرِ عیّار سے آپ

نسِیم دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

ہر چند ، مجھ سے بے سبب آزردہ ہے، مگر
ڈرتا ہُوں میں ، منانے سے ، آزردہ تر نہ ہو

نواب مُصطفیٰ خان شیفتہ
 

طارق شاہ

محفلین

ﺧﻮﺷﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﻍ وﺑﮩﺎﺭﺍﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ
ﮐِﺴﯽ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﺑﮩﺖ ﺩِﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﯿﺴُﻮ
ﺑﮩﺖ ﺩِﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﭼَﮭﻠﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺣﺴﺮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﻤﺎﻧﮯ
ﻟﮩﻮُ ﺳﮯ ﺩِﻝ ﮐﮯ ﭼﺮﺍﻏﺎﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﻏﻢِ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﮈﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ہاتھ ﺑﮍﮪ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ
ﮐﮧ ﺑﮯ ﻭﻃﻦ ﮐﺎ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﺗِﺮﺍ ﺟﮩﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺋﻨﮧ ﺧﺎﻧﮧ ؟
ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﺸﺪﺭ ﻭ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﭼُﺮﺍ ﮐﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﺘﺎﻉِ ﮔﺮﺩﺵِ ﺩَﻭﺭﺍﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭘُﮭﻮﻝ، ﻧﮧ ﺳﺎﻏﺮ، ﻧﮧ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ، ﻧﮧ ﺗُﻮ
ﺑُﺠﮭﺎ ﮨُﻮﺍ ﺳﺎ ﺷﺒﺴﺘﺎﮞ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ

 

طارق شاہ

محفلین
مقامِ سُود و زیاں آ گیا ہے پھر جاناں
یہ زخم میرے سہی، تِیر تو اُٹھا لے جا

احمد فرازؔ
معاویہ وقاص

فراز صاحب بہت اچھے بلکہ غضب شاعر تھے
بالا شعر شاید اوائل کے دور کا ہو ، یا خود انہوں نے جان بوجھ کر
اِس کی صوتی ابہام کو در گزر کیا ہو ۔۔، کیونکہ پھر جاناں
سُننے سے ' پھر جانا ' بمعنی پلٹ جانا ، فہم میں آتا ،یا لاتا ہے
تشکر شیئر کرنے کے لئے :)
 
Top