طارق شاہ

محفلین

مُمانعت نہ کر اِتنی ، خُدا سے ڈر ظالم
ہمیں ، ہے شوق تِرا تیرے گھر لئے آتا

جو آتا ہے تِری مژگاں کا ذکر چھیڑتا ہے
مِرے لئے ، ہے ہر اِک نیشتر لئے آتا

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

پیامبر جو اُدھر سے مِرا نہیں آتا
تو کیا کہوں کہ مِرے دِل میں کیا نہیں آتا

الہیٰ خالِ لبِ یار میں ہے کیا نکتہ
سمجھ میں نکتہ وروں کے ذرا نہیں آتا

غریقِ بحرِ محبّت پہ تیرے کیا گُزری
کِسی سے سُننے میں یہ ماجرا نہیں آتا

نہ ہو فراق میں جب تک کہ خُوب بےمزگی
وصالِ یار کا ہرگز مزا نہیں آتا

جو شُغلِ آئینہ منظُور ہے تو دِل کو دیکھ
اِس آئینے میں نظر دُوسرا نہیں آتا

نِکالے چاہِ غمِ یار کے غَرِیقوں کو
کوئی بھی ایسا نظر آشنا نہیں آتا

وہ کون سا ہے سِتم کش تِرا بتا ظالم
جو خود بخود تِری جانب کھنچا نہیں آتا

تمھارے وصل کو پیارے گُزرگئے مہ و سال
گِلہ ظفر کو کُچھ اِس کے سِوا نہیں آتا

بہادرشاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

زیست میری عذاب کربیٹھے
گھر، وہ مجھ سے حجاب کربیٹھے

وہ ، رہی جن کی کمسنی بھی غضب !
قہر مجھ پر شباب کر بیٹھے

شفیق خلش
 
ٍ
ہم کہ ٹھرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

(احمد فراز مرحوم)
فیض احمد فیض صاحب کا کلام ہے یہ
http://touch.dailymotion.com/video/xu5xc6
 

طارق شاہ

محفلین

تابکے دیدِ حَسِیناں ؟ تابکے وارفتگِی ؟
آنکھ میں جب تک نظر ہے، سر میں جب تک ہوش ہے

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اُبھرا ہے رنگِ سودا ، دیوانگی ہری ہے
ہے جوشِ موسمِ گُل، جو پھول ہے پری ہے

ہے شمع اور پتنگ سے ہرصبح ، وعظِ عبرت
یہ بھی مَرے پڑے ہیں وہ بھی بُجھی دھری ہے

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

نا دِیدنی کی دِید سے ہوتا ہے خُونِ دِل
بے دست و پا کو دِیدۂ بینا ، نہ چاہیئے

میں بُت کا ہورہا توعبث شیخ کو ہے رنج !
ایسے مُعاملات میں کینہ نہ چاہیئے

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
لن ترانی سے عیاں انوارِ عرفاں ہوگئے
ایک فِقرے میں ہزاروں طَور پنہاں ہوگئے

ناتوانی سے قناعت پر ہُوئے مجبور ہم
ضُعف کے اسباب عزّت کے نِگہباں ہوگئے

ہوگیا آخر شکستِ دل سے کارِ دِیں دُرست
داغ سینے کے چراغِ راہ عرفاں ہوگئے

جلوہ ہائے منظرِ ہستی ہیں راحت میں مخل
وہم جب یکجا ہوئے ، خوابِ پریشاں ہوگئے

جو کہا اُس نے کِیا منظُور، کیا حرفِ نفی !
ہم سراپا اب تو اُس محفل میں 'جی ہاں' ہوگئے

اکبرالہٰ آبادی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
جناب اکبرالہٰ آبادی صاحب
Charles Robert Darwin
(Naturalist)
سے مُخاطب ہیں :


ہم تو اِنساں سے بنے جاتے ہیں بندر، اے حضُور !
آپ خوش قِسمت تھے، جو بندر سے اِنساں ہوگئے

 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

دِیں کیا ہے بلکہ دیجئے اِیمان بھی اُنھیں
زاہد یہ بُت خُدا کی قسم ایسے شخص ہیں

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

تمتماتا ہے چہرۂ ایّام !
دل پہ کیا واردات گزُری ہے

پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ، نسیمِ حیات گزُری ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

خود اپنے غیب میں بَن باس بھی مِلا مجھ کو
میں اِس جہاں کے ہراِک سانحے میں حاضر بھی

ہیں یہ کھنْچاؤ جو چہرے پہ آب و ناں کے لیے
اِنہی کا حصّہ ہے میرا سُکونِ خاطر بھی

میں اِس جواز میں نادم بھی اپنے صدق پہ ہُوں
میں اِس گنہ میں ہُوں ، اپنی خطا سے مُنکر بھی

مجید امجد
 
Top