اُمّیدِ دیدِ دوست کی دُنیا بَسا کے ہم !
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم
وہ راستے خبر نہیں کِس سمت کھو گئے
نِکلے تھے جن پہ ، رختِ غمِ دِل اُٹھا کے ہم
پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لِیا
وہ پُھول اُس روِش پہ ، تِرے نقشِ پا کے ہم
آئے کبھی تو پھر وہی صُبْحِ طرب ، کہ جب !
رُوٹھے ہُوئے غموں سے مِلیں مُسکرا کے ہم
مجید امجد