طارق شاہ

محفلین

دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ !
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا


شوکت علی خاں فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

عدُو کو مجھ سے ہو کِس طرح نطق میں ترجیح
مگر ، یہ جب ہو کہ طوطی سے زاغ اچّھا ہو

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

دِل جو عالم میں فرد رہتا ہے
نذرِ اربابِ درد رہتا ہے

جانے دِل کے لہو پہ کیا گُزری
رنگ اشکوں کا زرد رہتا ہے

سوزِغم کی نہ پُوچھ ضبط کو دیکھ
یہ جہنّم بھی سرد رہتا ہے

مژدہ انجامِ غم کے پہلُو میں
دِل بَعُنوانِ درد رہتا ہے

ذرّے ذرّے کے رُوپ میں فانی
کوئی صحرا نوَرد رہتا ہے

فانی بدایونی



 

طارق شاہ

محفلین

فضا تبسّمِ صُبحِ بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزلِ جاناں پر آنکھ بھر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام
کہ جیتے جی مجھے اکثر مِری خبر آئی

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

اُٹھ اُٹھ کے جُھکی نِگاہِ جاناں کیسی
ہوتی تھی اُبھر اُبھر کے پنہاں کیسی

فوارۂ خُوں کا حال سینے میں نہ پُوچھ
دل پر چلتی رہی ہیں چھُریاں کیسی

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اُٹھتا ہے آج تک

پُورا بھی ہوکے جو کبھی پُورا نہ ہوسکا
تیری نِگاہ کا وہ تقاضا ہے آج تک

تُو نے کبھی کیا تھا جُدائی کا تذکرہ
دل کو وہی لگا ہوا کھٹکا ہے آج تک

تاعمر یہ فراق بجا دل گرفتگی
پہلو میں کیا وہ درد بھی رکھا ہے آج تک؟

فراق گورکھپوری
 
جو دم غافل سو دم کافر،سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ہُو
سُنیا سخن گیاں کھل اکھیں، اساں چت مولا ول لایا ہُو
کیتی جان حوالے رب دے، اساں ایسا عشق کمایا ہُو
مرن تو اگے مر گئے باہو، تاں مطلب نوں پایا ہُو
 
میں کوجی میرا دلبر سوہنا ، میں کیونکر اس نوں بھانواں ہُو
ویہڑے ساڈے وڑدا ناہیں پئی لکھ وسیلے پانواں ہُو
ناں میں سوہنی ناں دولت پلّے ، کیوں کر یار مناواں ہُو
ایہہ دکھ ہمیشاں رہسی باہو روندڑی ہی مر جاواں ہُو
میں بد صورت ہوں میرا محبوب نہائت حسین ہے ، میں کس طرح سے اس کو پسند آ سکتی ہوں
میرے گھر میں وہ قدم نہیں رکھتا میں نے لاکھوں تدبیریں کیں ہیں
نہ تو میں خوبصورت ہوں نہ ہی مال و دولت پاس ہے میں کیسے محبوب کو مناوں
باہو یہ دکھ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ رو رو کر مر جاؤں
 
سے روزے سے نفل نمازاں ، سے سجدے کر کر تھکّے ہو
سے واری مکے حج گزارن دل دی دوڑ نہ مکّے ہُو
چلے چلیئے ،جنگل بھوناں ، اس گل تھیں نہ پکے ہُو
سبھے مطلب حاصل ہوندے باہو جد پیر نظر اک تکے ہُو
سینکڑوں روزے ،ہزاروں نوافل اور سجدے کر کر تھک گئے
سو بار مکے جا کر حج بھی کیا مگر دل بے قرار کی بھاگ دوڑ ختم نہ ہوئی
چلّے کئے ، جنگل گھومے لیکن مراد حاصل نہ ہوئی
باہو سارے مطلب حاصل ہو جاتے ہیں جب پیر اک نظر دیکھتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین

دِل کو کُچھ زندگیِ عِشق کی لذّت تو مِلے
خاک سے پاک ہو یا خاک سے یکساں ہوجائے

موت کی یاد میں نیند اور بھی اُڑ جاتی ہے
نیند آجائے تو کچھ موت کا ساماں ہو جائے

یاس یگانہ چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین

حجاب اُٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی !
گہن میں چاند تھا، جب تک چھپے بیٹھے تھے چلمن میں

یاس یگانہ چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی اِتنا بھی نہیں آپ سے غیبت ہی کرے
کانٹے پڑتے ہیں زباں میں ، مِرے افسانے سے

یاس یگانہ چنگیزی
 

ام اریبہ

محفلین
کھو چکے ہیں جس کو .....وہ جاگیر لے کر کیا کریں گے
اک پرائے شخص کی .......... تصویر لے کر کیا کریں گے ؟

ہم زمیں زادے .......ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ
دل میں ناحق خواہشِ تسخیر ..... لے کر کیا کریں گے ؟

عالموں سے زائچے بنوائیں کس ............ امید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے ..... تعبیر لے کر کیا کریں گے ؟

اعتبارِ حرف کافی ہے ................ تسلی کے لئے
پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے کر ..۔......... کیا کریں گے ؟

اپنا اک اسلوب ہے ........ اچھا برا جیسا بھی ہے
لہجۂ غالب زبانِ میر لے کر .................۔ کیا کریں گے ؟

شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے...... اپنے طاق پر
مانگے تانگے کی کوئی تنویر ..... لے کر کیا کریں گے ؟
 
Top