ہے شرمساردلِ نیم جاں، ملامت کیا
اُمید ٹُوٹ گئی اب تِری شکایت کیا
بہل گئی ہے طبیعت یہ سوچ کر اکثر
سلوکِ مصلحت آمیز کی حقیقت کیا
ہے پُرکشِش تو بہت پیکرِ فریب نظر
گنوادوں اُس پہ، میں اِک عمر کی ریاضت کیا
سراب، پیاس کے صحرا میں کھینچتے ہیں قدم
بُجھا سکے یہ کبھی تشنگی کی شدّت کیا
سفینہ بچ کے نہ نِکلے تو کیا کرے آخر
بھنور کے سامنے، میں کیا، مِری بضاعت کیا
عنبرامروہوی