طارق شاہ

محفلین

کبھی خیال، یوں لائے مِرے قریب تجھے
ہر ایک لحظہ، ہراِک لب سے تو سُنائی دے

شفیق خلش
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

جوآج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

راحت اندوری

تازہ الیکشن کمپیننگ میں کہی گئی غزل سے لئے گئے اشعار
 

طارق شاہ

محفلین

ہے شرمساردلِ نیم جاں، ملامت کیا
اُمید ٹُوٹ گئی اب تِری شکایت کیا

بہل گئی ہے طبیعت یہ سوچ کر اکثر
سلوکِ مصلحت آمیز کی حقیقت کیا

ہے پُرکشِش تو بہت پیکرِ فریب نظر
گنوادوں اُس پہ، میں اِک عمر کی ریاضت کیا

سراب، پیاس کے صحرا میں کھینچتے ہیں قدم
بُجھا سکے یہ کبھی تشنگی کی شدّت کیا

سفینہ بچ کے نہ نِکلے تو کیا کرے آخر
بھنور کے سامنے، میں کیا، مِری بضاعت کیا

عنبرامروہوی
 

طارق شاہ

محفلین

سُن لی تھی اِک روایتِ موسیٰ تو میرا دل !
تھی آگ جس طرف بھی، اُدھر کھینچتا رہا

کب اُس کو شمعِ عِشق کے شُعلے سے پیار تھا
پروانہ میرے دل سے اثر کھینچتا رہا

عنبرامروہوی
 

اوشو

لائبریرین
کبھی یوں بھی آ میری آنکھ میں کہ میری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
وہ بڑا رحیم و کریم ہے ، مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو میری دعا میں اثر نہ ہو
 

طارق شاہ

محفلین

کبھی دن کی دُھوپ میں جھُول کے، کبھی شب کے پھُول کو چُوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا ، کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو

مِرے پاس مِرے حبیب آ، ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں، کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو

بشیر بدر
 

طارق شاہ

محفلین

اِس عذابِ فراق میں جاناں !
جان و دل سے گزر گئے ہوتے

عشق اتنا ہی تھا اگر مجھ سے
زہر کھا کر ہی مر گئے ہوتے

قیس علی
 

طارق شاہ

محفلین

جو تُمھاری مان لیں ناصِحَ ، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کِسی عُدو کی عداوتیں، نہ کِسی صنم کی مروّتیں

فیض احمد فیض
 
Top