دریا سے آؤں سے گا کبھی صحرا سے آؤں گا
اے عشق! تیری سمت میں ہر جا سے آؤں گا
کیسا دکھائی دوں گا کسی کو نہیں خبر
اِس بار ایک اور ہی دنیا سے آؤں گا
شہرِ خیالِ یار میں وحشت کے ساتھ ہی
آؤں گا جب بھی دشتِ تمنا سے آؤں گا
کیسے نہیں ملے گا سراغِ جنوں مجھے
جب قیس! تیرے نقشِ کفِ پا سے آؤں گا
مجھ کو گلے لگائیں گے یارانِ ذی وقار
جب میں پلٹ کے کوچۂ رسوا سے آؤں گا
پھر یوں ہوا کہ اُن کے دلوں سے نکل پڑا
جو یہ سمجھ رہے تھے درِ وا سے آؤں گا
اتروں گا اپنی ذات کی پاتال میں ضرور
پھر میں پلٹ کے اوجِ ثریا سے آؤں گا
عادل نکل تو کرب و بلا کی مہم پہ تُو
تیری مدد کو لشکرِ اعداء سے آؤں گا
شہزاد عادل (ٹیکسلا) پاکستان