طارق شاہ

محفلین

نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مِرا
آتی ہے شرم، میں اِسے تقریر کیا کروں

دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دِیے بنی
اِتنی سی چیز پر اُسے دِل گیر کیا کروں

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

دیکھا جو مجھ کو نزع میں، قاتل نے یوں کہا
اِس جاں بہ لب پہ کھینچ کے شمشیر کیا کروں

بن دیکھے اُس کے، دل کو تسلی نہیں مِرے
نقاش اُس کی لے کے میں تصویر کیا کروں

پُوچھا میں مصحفی سے ہُوا کیوں تُو دربدر ؟
بولا کہ ، یُوں ہی تھی مِری تقدیر کیا کروں

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

پھر وہی غم، وہی رُسوائی پھر
دل ہُوا ، تیرا تمنّائی پھر

پہلے اِک عمر گُزاری تنہا
ساتھ رہنے لگی تنہائی پھر

شامِ تنہائی ہے ، یاد آئی ہے !
وہ تِری انجُمن آرائی پھر

پہلے یہ شہر ہُوا بے چہرہ !
گم ہُوئی وقت کی بینائی پھر

ثمینہ راجہ
 

طارق شاہ

محفلین

توبہ میں کیا بکوں ہُوں، گیا کِس طرف خیال
کیسا کمال شعر ، کہاں کی سخن وری ؟

شعر و سُخن ذلیل ہے ایسا، کہ اِن دِنوں
ہر ایک کور و کر کو ہے دعوائے شاعری

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

در و دیوارِ چمن آج ہیں خُوں سے لبریز
دستِ گُلچیں سے مُبادہ کوئی دِل ٹُوٹا ہے

شاہ ظہورالدین حاتم
 

طارق شاہ

محفلین

سودا، قمارِعشق میں شیریں سے کوہکن
بازی اگرچہ لے نہ سکا، سرتو کھوسکا

کِس منہ سے پھر تُو آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رُوسیاہ ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

مرزا رفیع سودا
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

رخصت دے باغباں، کہ تنک دیکھ لیں چمن !
جاتے ہیں واں، جہاں سے پھرآیا نہ جائے گا

مرزا رفیع سودا
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

خوش ہیں شِکستہ پائی سے اپنی ہم اِس لئے
پرواز کا تو دِل سے خلش دُور ہوگیا

مرزا رفیع سودا
 

طارق شاہ

محفلین

رہِ طلب میں گِرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

مرزا رفیع سودا
 

طارق شاہ

محفلین

جس روز سے اِس بزم میں ہُشیار ہُوا ہُوں
میں سخت اذیّت میں گرفتار ہُوا ہُوں

کعبہ میں نہ کافر ہُوں، نہ بُتخانے میں دیندار!
جس طرح کہ ، میں در پہ تِرے خوار ہُوا ہُوں

حیرت مِری طینت میں ہے تخمیر ازل سے
میں آئینہ ساں دیدۂ بیدار ہُوا ہُوں

میر حسن
 

طارق شاہ

محفلین

مجھ کو عاشق کہہ کے اُسکے رُوبرُو مت کیجیو
دوستو! گر دوست ہو تو، یہ کبھو مت کیجیو

میں تو یوں ہی تم سے دیوانہ سا بکتا ہُوں کہیں
آگے اُن کے، دوستو یہ گفتگو مت کیجیو

میرحسن
 

طارق شاہ

محفلین

جہاں سے دیکھئے اِک شعرِ شورانگیز نِکلے ہے
قیامت سا ہی ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین

خدا آباد رکھے، لکھنؤ کے خوش مزاجوں کو !
ہراِک خانہ شادی ہے ہراِک کُوچہ ہے عشرت کا

سحر لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

کیا وصل کی شب کا میں کہوں رات کا عالم
وہ رات تھی یا رب، کہ طلسمات کا عالم

وہ چاندنی رات، اور وہ مُلاقات کا عالم
کیا لُطف میں گُذرا ہےغرض رات کا عالم

وہ کالی گھٹا، اور وہ بجلی کا چمکنا
وہ مینہ کی بوچھاڑیں وہ برسات کا عالم

اے مُصحفی ! چل تُو بھی قطب کو، کہ کہیں ہیں !
آتا ہے بہت چھڑلوں میں میوات کا عالم

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

مُدّت میں وہ پھر تازہ مُلاقات کا عالم
خاموش اداؤں میں وہ جذبات کا عالم

نغموں میں سمویا ہُوا وہ رات کا عالم
وہ عطر میں ڈُوبے ہوئے لمحات کا عالم

اللہ رے، وہ شِدّتِ جذبات کا عالم !
کچھ کہہ کے وہ بُھولی ہو ئی ہر بات کا عالم

چھایا ہُوا وہ نشۂ صہبائے محبّت
جس طرح کسی رِندِ خرابات کا عالم

جگر مرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

کُنجِ قفس میں لُطف مِلا جس کو، وہ اسیر!
چُھوٹا بھی گر، تو پھر نہ سُوئے آشیاں گیا

غلام ہمدانی مصحفی
 
Top