طارق شاہ

محفلین

منزل کی دُھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہُوئے
شورِ جَرس سے، دل نہ رہا، اختیار میں

یاس یگانہ چنگیزی
 

اوشو

لائبریرین
حیرت غرورِ حسن سے ، شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام
 

طارق شاہ

محفلین

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئینہ ہی بنی رہی !
کبھی تم نہ سامنے آ سکے، کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی

وہ عجیب شام تھی، آج تک مِرے دل میں اُس کا ملال ہے
مِری طرح جو تِری منتظر، تِرے راستے میں کھڑی رہی

کبھی وقف ہجرمیں ہوگئی، کبھی خوابِ وصل میں کھوگئی
میں فقیرِ عِشق بنی رہی، میں اسیرِ یاد ہُوئی رہی

بڑی خامشی سے سَرک کے پھر ، مِرے دل کے گرد لپٹ گئی
وہ ردائے ابرِ سپید جو ، سرِ کوہسار تنی رہی

ہُوئی اُس سے جب مِری بات بھی، تھی شریکِ درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی، مِری زندگی میں کمی رہی

ثمینہ راجہ
 

اوشو

لائبریرین
زاہد نے میرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تیری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
 

طارق شاہ

محفلین

مُسلسل رابطہ رکھّا ہُوا ہے
مگر اِک فاصلہ رکھّا ہُواہے

سفر طے کر چُکا حرفِ تمنّا
زباں پر آبلہ رکھّا ہُوا ہے

جُنوں کو پھر وہیں جانے کی ضد ہے !
جہاں اِک حادثہ رکھّا ہُوا ہے

وہ آنکھیں موند کر بیٹھے ہُوئے ہیں
مُقابِل آئِنہ رکھّا ہُوا ہے

فِضائے بے یقینی میں بھی عاجز !
دُعا کا حوصلہ رکھّا ہُوا ہے

مُشتاق عاجِز
 

اوشو

لائبریرین
بے ساحل و بے طوفاں یہ کشتیِ جاں کب تک
یا ڈوب کے رہ جائیں یا پار اتر جائیں
 

طارق شاہ

محفلین
شاہ جی، اس شعر کا باقی کلام مل سکے گا ؟

چراغِ عشق تو جانے کہاں رکھّا ہُوا ہے
سرِمحرابِ جاں بس اِک گماں رکھّا ہُوا ہے

ہوائے شام اُڑتی جا رہی ہے راستوں پر
سِتارہ ایک زیرِآسماں رکھّا ہُوا ہے

یہی غم تھا کہ جس کی دُھوم دُنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نِشاں رکھّا ہُوا ہے

ہٹے، تو ایک لمحے میں بَہم ہوجائیں دونوں
گِلہ ایسا، دِلوں کے درمیاں رکھّا ہُوا ہے

تِری نظریں، تِری آواز، تیری مُسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھّا ہُوا ہے

لرزتا ہے بدن اُس تُند خواہش کے اثر سے
کہ اِک تِنکا، سرِآبِ رَواں رکھّا ہُوا ہے

مُصر ہے، جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اِک ایسی شاخ پر، یہ آشیاں رکھّا ہُوا ہے

کہیں، کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اُٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھّا ہُوا ہے

الاؤ جل رہا ہے مُدّتوں سے داستاں میں
اور اُس کے گِرد کوئی کارواں رکھّا ہُوا ہے

رُکی جاتی ہے، ہرگردش زمین و آسماں کی !
مِرے دل پر، وہ دستِ مہرباں رکھّا ہُوا ہے

ثمینہ راجہ
 
آخری تدوین:
چراغِ عشق تو جانے کہاں رکھّا ہُوا ہے
سرِمحرابِ جاں بس اِک گماں رکھّا ہُوا ہے

ہوائے شام اُڑتی جا رہی ہے راستوں پر
سِتارہ ایک زیرِآسماں رکھّا ہُوا ہے

یہی غم تھا کہ جس کی دُھوم دُنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نِشاں رکھّا ہُوا ہے

ہٹے، تو ایک لمحے میں بَہم ہوجائیں دونوں
گِلہ ایسا، دِلوں کے درمیاں رکھّا ہُوا ہے

تِری نظریں، تِری آواز، تیری مُسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھّا ہُوا ہے

لرزتا ہے بدن اُس تُند خواہش کے اثر سے
کہ اِک تِنکا، سرِآبِ رَواں رکھّا ہُوا ہے

مُصر ہے، جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اِک ایسی شاخ پر، یہ آشیاں رکھّا ہُوا ہے

کہیں، کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اُٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھّا ہُوا ہے

الاؤ جل رہا ہے مُدّتوں سے داستاں میں
اور اُس کے گِرد کوئی کارواں رکھّا ہُوا ہے

رُکی جاتی ہے، ہرگردش زمین و آسماں کی !
مِرے دل پر، وہ دستِ مہرباں رکھّا ہُوا ہے

ثمینہ راجہ
شکریہ شاہ جی۔
 

طارق شاہ

محفلین

آئِنہ رکھ دِیا گیا عکسِ جمال کے لیے
پُورا جہاں بنا دِیا، ایک مِثال کے لیے

خاک کی نیند توڑ کر ، آب کہیں بنا دِیا !
ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دِیا

خوابِ نمود میں کبھی آتش و باد مِل گئے
شاخ پرآگ جل اُٹھی، آگ میں پُھول کِھل گئے

سازِ حیات تھا خموش، سوز و سَرود تھا نہیں
اُس کا ظہُور ہوگیا، جس کا وجود تھا نہیں

خاک میں جتنا نُور ہے، ایک نِگاہ سے مِلا
سنگِ بدن کو اِرتعاش، دل کی کراہ سے مِلا

دشتِ وجود میں بہار، اِس دلِ لالہ رنگ سے
رنگِ حیات و کائنات، اِس کی بس اِک اُمنگ سے

قِرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مِرے قریب تھا
قصۂ ہست و بُود میں، کوئی مِرا حبیب تھا

تِیرہ و تار راہ میں، ایک چراغ تھا مِرا
کوچۂ بے تپاک میں، کوئی سراغ تھا مِرا

ہو کے دیارِ خواب سے ، کیسی عَجب ہَوا گئی
شیشۂ تابدار پر، گرد ہی گرد آ گئی

بُھول چُکا ہے اپنی ذات، بُھول گیا ہے اُس کا نام
سوز و گُداز کے بغیر، لب پہ درُود اور سلام

مُدّتِ عمر ہوگئی اِس کو عجیب حال میں!
فرق ہی کچھ رہا نہیں، شوق میں اور ملال میں

دل کی جگہ رکھا ہے اب، سنگِ سِیاہ اُس طرف
ہجر و وصال کے خدا! ایک نِگاہ اُس طرف

ثمینہ راجہ
 

طارق شاہ

محفلین

عِشق کی زمزمہ سنجی، ہے ہے !
ولولہ ناک میں دم لاتا ہے

پھر کُھجائے ہے ہتھیلی، دیکھوں !
سیم تن کون سا ہاتھ آتا ہے

مدد اے کشمکشِ شوق کہ پھر !
دِل کہیں کھینچے لِئے جاتا ہے

پھر ہُوں دیوانۂ بیخود کِس کا ؟
خار تلوے مِرے سہلاتا ہے

پھر دِل اِک بُت کو دِیا مومن نے
کب وہ اِن باتوں سے باز آتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین

کِس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی

آپ آتے رہے، بلاتے رہے
آنے والی اِک آن میں آئی

یاس یگانہ چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین

چمک جگنو کی برقِ بےاماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے

کہانی میری رُودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سُنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

ترقّی پر ہے روزافزوں خلش دردِ محبّت کی
جہاں محسُوس ہوتی تھی وہاں معلوم ہوتی ہے

سیماب اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

دل کائناتِ عِشق میں، شاہوں کا شاہ ہے
مُختارِ کُل تمام سفید و سیاہ کا

یاس یگانہ چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین

مُدّت سے ہُوں میں سرخوشِ صہبائے شاعری
ناداں ہے جس کو مجھ سے ہے دعوائے شاعری

میں لکھنؤ میں زمزمہ سنجانِ شعر کو
برسوں دِکھا چُکا ہُوں تماشائے شاعری

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

بعضوں کو گماں یہ ہے کہ، ہم اہلِ زباں ہیں
دِلّی نہیں دیکھی ہے ، زباں داں یہ کہاں ہیں

غلام ہمدانی مصحفی
 
Top