طارق شاہ

محفلین


ارض و سماں کہاں تِری وُسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ، کہ جہاں تُو سما سکے

خواجہ میر درد
 

طارق شاہ

محفلین

اوّل تو، قفس کا مِرے در باز کہاں ہے
اورہو بھی تو یاں قوّتِ پرواز کہاں ہے

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

جب فصلِ گُل ، قفس میں گرفتار ہم ہُوئے !
وہ جی رُندھا، کہ زیست سے بیزار ہم ہُوئے

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

ہمیں آگے ہی اپنا حوصلہ معلوُم ہے، سچ ہے !
بغیر از نالہ و فریاد و زاری، ہم سے کیا ہوگا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

دِلکش ہر ایک قطۂ صحرا ہے راہ میں !
مِلتے ہیں جا کے دیکھیے کب کارواں سے ہم

الطاف حُسین حالی
 

طارق شاہ

محفلین
آخری شعر
(اے مُصحفی ! چل تُو بھی قطب کو، کہ کہیں ہیں !
آتا ہے بہت چھڑلوں میں میوات کا عالم)

بلکل بھی سمجھ نہیں آیا۔۔۔ تشریح فرما دی جیے شاہ صاحب
شعر میں معنی آفرینی تو کوئی نہیں ، جس طرح جس کے سمجھ میں آئے والی بات بھی نہیں
قطب ، دلی کا علاقہ، مشہور جگہ کا ذکر ہے کہ مصحفی دلی سے ہی لکھنؤ آئے تھے
شاید وہیں جانے کا اشارہ ہے ، میوات (بہت سارے ، ڈھیروں پھل ) کا ذکر ہے (عالم بہ معنی ہونا ، ردیف کی وجہ سے ہے)
جھڑلوں، نور الغات وغیرہ میں دیکھ لیں ، شاید بمعنی ٹوکرے، پتھارے، چھابڑے یا ایسی کوئی چیز ہو ۔
بہت سے الفاظ جو سودا ، مصحفی کے زمانے میں رائج یا عام بول چال میں تھے شاید اب نہ ہوں ۔ :)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

اے عشق! تُو نے اکثر، قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اُٹھایا، اُس کو بٹھا کے چھوڑا

فرہاد کوہکن کی ، لِی تُو نے جان شیریں
اور قیس عامری کو، مجنوں بنا کے چھوڑا

یعقوبٌ سے بشر کو، دی تُو نے ناصبُوری
یوسفٌ سے پارسا پر بُہتاں لگا کے چھوڑا

افسانہ تیرا رنگیں، رُوداد تیری دلکش
شعروسُخن کو تُو نے جادُو بنا کے چھوڑا

اِک، دسترس سے تیری، حالی بچا ہُوا تھا !
اُس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا

الطاف حُسین حالی
 

طارق شاہ

محفلین

رنج اوررنج بھی تنہائی کا !
وقت پُہنچا مِری رُسوائی کا

الطاف حسین حالی


پہلا مصرع صوتی ابہام لئے ہے ۔
رنج، اورنج ( oranj ) ۔ شاید انگلش لفظ کے وجہ سے
معنویت پر غور نہیں کیا یا غور کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا
 
Top