طارق شاہ

محفلین
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اُسے
نہ کبھی بُھولنے پاؤں، نہ مجھے یاد آئے

میں نے حافِظ کی طرح، طے یہ کِیا ہےعابد !
٠بعد ازِیں مے نہ خورم بے کفِ بزم آرائے٠

سیّدعابدعلی عابد
 

طارق شاہ

محفلین
کہانیاں نہ سُنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہرہے، بستی اُداس لوگوں کی

نہ کوئی سمت نہ منزل، سو قافلہ کیسا
رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین
توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر
لب بستگی کو تابِ سُخن کون دے گیا

محسن وہ کائناتِ غزل ہے اُسے بھی دیکھ
مجھ سے نہ پُوچھ ، مجھ کو یہ فن کون دے گیا

محسن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین
مُبادا ہو کوئی ظالم تِرا گریباں گیر
مِرے لہُو کو تو دامن سے دھو، ہُوا سو ہُوا

مرزا محمد رفیع سودا
 

طارق شاہ

محفلین
ہجْر کی رات ہےاور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزْم کی بزْم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کرُوں اِس رُت کو
پُھول مُرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے
اقبال اشعر
 

طارق شاہ

محفلین
مزاجِ عشق بہت معتدل ہے اِن روزوں
جگر میں آگ دہکتی ہے آنکھ میں ہے تری

یہ ڈر ہے ہر بُنِ مُو، اب لہُو نہ دے نِکلے
کچھ ایسے زور پہ ہے آج کاوشِ جگری

اصغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
وہ مستِ شاہدِ رعنا ، نِگاہِ سحِر طراز
وہ جامِ نِیم شَبی نرگسِ خُمار آلوُد

کچھ اِس ادا سے مِرا اُس نے مُدّعا پُوچھا
ڈھلک پڑا مِری آنکھوں سے گوہرِ مقصُود

اصغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
تِری نِگاہ کے صدقے یہ حال کیا ہے مِرا
کمالِ ہوش کہوں یا کمالِ بے خبری

کہیں ہے عشق، کہیں ہے کشِش، کہیں حرکت
بھرا ہے خامۂ فِطرت میں رنگِ فتنہ گری

اصغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
جبینِ تمنّا کی تابانیاں ہیں
کہ دل میں ابھی تک پُرافشانیاں ہیں
یونہی تیرے گیسو ہیں رُسوا، کہ مجھ کو
پریشانیاں تھیں، پریشانیاں ہیں
سیّدعابدعلی عابد
 

طارق شاہ

محفلین
مُقامِ شُکر، کہ اِس شہْرِ کج ادا میں بھی لوگ
لحاظِ حرفِ دلآویز و سادہ رکھتے ہیں

بنامِ فیض، بجانِ اسد فقیر کے پاس
جو آئے آئے، کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں

افتخارعارف
 

طارق شاہ

محفلین
آجائیں گے دُنیا میں کئی اور سُخنْور
لیکن کوئی شہزاد سا، پانے کے نہیں ہم

احسان تِری ذات پہ کیا کیا نہیں اُس کا
اُردو! یہ تُجھے گِن کے بتانے کے نہیں ہم


شفیق خلش
 
Top