طارق شاہ

محفلین
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا، دل میں دُھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے
صبح سویرے کون سی صُورت پُھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جُھوم اُٹھی ہے، کلِی کلِی لہرائی ہے
میرا جی
 

طارق شاہ

محفلین
نیازِ عِشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظِ ناداں !
ہزاروں بن گئے کعبے، جبِیں میں نے جہاں رکھ دی

اصغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
کبھی یہ زعم کہ تو مجھ سے چُھپ نہیں سکتا
کبھی یہ وہم کہ خود بھی چُھپا ہُوا ہُوں میں

اسرار الحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذاللہ
تمہارا راز تمہی سے چُھپا رہا ہوں میں

اِس اِک حِجاب پہ سو بے حِجابیاں صدقے
جہاں سے چاہتا ہوں تم کو دیکھتا ہُوں میں

اسرار الحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین
بس اِتنی بات پر دُشمن بنی ہے گردشِ دَوراں
خطا یہ ہے کہ چھیڑا کیوں تِری زُلفوں کا افسانہ

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
اپنے جلووں میں چُھپے جاتے ہیں

ہر نصِیحت ہے نِرالی ناصح
ورنہ سمجھے ہوئے سمجھاتے ہیں

وہ مرے قتل کا فرمان سہی!
کچھ وہ ارشاد تو فرماتے ہیں

فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین
یہ تیری خموشی کی ادائیں کوئی دیکھے
نغمے ہیں جو شرمندۂ آواز نہیں ہیں

دل سے بھی اب آتی نہیں فانی خبر اپنی
مدّت ہوئی ہم گوش برآواز نہیں ہیں

فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین
فنائے عشق کو رنگِ بقا دِیا تُو نے
حیات و موت کو یکجا دِکھا دِیا تُو نے

ہزار جانِ گرامی فِدا بایں نِسبت
کہ میری ذات سے اپنا پتا دِیا تو نے

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
نظر سے حُسنِ دوعالم گِرا دِیا تُو نے
نہ جانے کون سا عالم دِکھا دِیا تُو نے

خوشا وہ دردِ محبّت، زہے وہ دِل، کہ جسے
ذرا سکوُن ہُوا، گدُ گدُا دِیا تُو نے

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
نہ بوجھ یُوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ
دُکھوں کوگوشوں میں اِس کے نہ تُو سنبھال کے رکھ
ہرایک شے پہ تو قدرت نہیں ہے اِنساں کو
شکستِ دل کوبصورت نہ اِک وَبال کے رکھ
شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
نِگاروں کے میلے، سِتاروں کی جُھرمٹ
بہت دِل نشِین ہیں بہاروں کے جُھرمٹ

تجھے یاد رکھیں گی ساغر بہاریں
تِرے شعر ہیں گلُعذاروں کے جُھرمٹ

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
چٹک رہے ہیں شگوفے تمھاری یادوں کے
سجی ہے شبنم و گُل کی برات کانٹوں پر

یہ اور بات ہے پھُولوں کا ذکر تھا ساغر
کہ اِتّفاق سے پہنچی ہے بات کانٹوں پر

ساغر صدیقی
 
Top