میں تیری راہ میں ہُوں اور کب سے لا پتہ ہُوں
سرابِ وصل کے پیچھے کہاں تک آگیا ہُوں
مُکمل ہُوں، مگر ہُوں نامکمل سے ہراساں
مجسّم ہُوں، مگر پرچھائیوں سے ڈر رہا ہُوں
نہیں ہُوں نیست ونا بود وہست وبود تک میں
ابھی بیتا نہیں ہے جو، میں اُس کا تذکرہ ہُوں
چُھپا ہوں گرد میں، لیکن مِری قیمت وہی ہے
میں کوئی گم شُدہ سِکّہ سہی، پھر بھی کھرا ہُوں
مِرے ہونے نہ ہونے کا حوالہ ایک تُو ہے
میں خود کو تیری خواہش کے حوالے کرچُکا ہُوں
تجھے اِک عُقدۂ مُشکل کہوں، یُوں بھی نہیں ہے
میں تیری ذات کے ہر پیچ و خم کو جانتا ہُوں
میں وہ قصّہ! مِلا جس کو نہ تنہا، کوئی وارث
کہ اپنے گاؤں کی گلِیوں میں ہی بِکھرا پڑا ہُوں
میر تنہا یوسفی