کاشفی

محفلین
وہ ہر جملہ ادھورا بولتا ہے
پھر اُس کے بعد چہرہ بولتا ہے

وہ تحت الفظ ہو یا ہو ترنّم
غزل کس کی ہے لہجہ بولتا ہے

جہنم نام لکھوا لے گا اپنے
بزرگوں سے
جو اونچا بولتا ہے
(ملِک زادہ جاوید)
 

طارق شاہ

محفلین

میں تیری راہ میں ہُوں اور کب سے لا پتہ ہُوں
سرابِ وصل کے پیچھے کہاں تک آگیا ہُوں

مُکمل ہُوں، مگر ہُوں نامکمل سے ہراساں
مجسّم ہُوں، مگر پرچھائیوں سے ڈر رہا ہُوں

نہیں ہُوں نیست ونا بود وہست وبود تک میں
ابھی بیتا نہیں ہے جو، میں اُس کا تذکرہ ہُوں

چُھپا ہوں گرد میں، لیکن مِری قیمت وہی ہے
میں کوئی گم شُدہ سِکّہ سہی، پھر بھی کھرا ہُوں

مِرے ہونے نہ ہونے کا حوالہ ایک تُو ہے
میں خود کو تیری خواہش کے حوالے کرچُکا ہُوں

تجھے اِک عُقدۂ مُشکل کہوں، یُوں بھی نہیں ہے
میں تیری ذات کے ہر پیچ و خم کو جانتا ہُوں

میں وہ قصّہ! مِلا جس کو نہ تنہا، کوئی وارث
کہ اپنے گاؤں کی گلِیوں میں ہی بِکھرا پڑا ہُوں

میر تنہا یوسفی
 

کاشفی

محفلین
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

(منور رانا)
 

کاشفی

محفلین
یہاں بستی بسانے کی اگر اب آرزو کرنا
تو پہلے آگ کے شعلوں سے جا کر گفتگو کرنا

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا

سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا

جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا

وہ میرے گھر نہیں آتا میں اُس کے گھر نہیں جاتا
مگر احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا

برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں
کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا

گھروں کی تربیت کیا آگئی ٹی وی کے ہاتھوں میں
کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا

کھلے تھے شہر میں سو دَر مگر ایک حد کے اندر ہی
کہاں جاتا میں اگر لوٹ کے پھر گھر نہیں جاتا

محبت کے یہ آنسوں ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو
شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
تمہارے رحم و کرم پر ضرور ہے لیکن
ہم اپنے شہر میں جینے کا حق تو رکھتے ہیں

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
شرٍافتوں کو زمانے میں محترم کردے
میرے خدا میری آنکھوں کا بوجھ کم کردے

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
وہ میری پیٹھ میں خنجر ضرور اُتارے گا
مگر نگاہ ملے گی تو کیسے مارے گا

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
بدگمانی کا وہ ذہنوں پہ اثر لگتا ہے
پیار کی بات بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

تم تو رہتے ہو خیالوں میں، تمہیں کیا معلوم
در و دیوار ہوں جس میں وہی گھر لگتا ہے

(وسیم بریلوی)

 

کاشفی

محفلین
ایک بگڑٰی ہوئی اولاد بھلا کیا جانے
کیسے ماں باپ کے ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
سکوتِ گورِغریباں کو توڑ جاتا ہے
دِیا جلا کے یہاں کون چھوڑ جاتا ہے

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
کہاں قطرے کی غمخواری کرے ہے
سمندر ہے، اداکاری کرے ہے

کوئی مانے نہ مانے اُس کی مرضی
مگر وہ حکم تو جاری کرے ہے

نہیں لمحہ بھی جس کی دسترس میں
وہ ہی صدیوں کی تیاری کرے ہے

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
اگر ہواؤں سے لڑنا اِنہیں نہیں آتا
تو پھر لڑائی چراغوں میں ہونے لگتی ہے

(وسیم بریلوی)
 

کاشفی

محفلین
رات بھر شہر کی دیواروں پہ گرتی رہی اُوس
اور سورج کو سمندر سے ہی فرصت نہ ملی

(وسیم بریلوی)
 
Top