شیزان

لائبریرین
یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے
حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

یہ کس مقام پر حیات مجھ کو لے کے آ گئی
نہ بس خوشی پہ ہے جہاں، نہ غم پہ اِختیار ہے

تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی!
یہ میرا دل کہے تو کیا ، کہ خود سے شرمسار ہے

بُلا رہا ہے کون مجھ کو چلمنوں کے اُس طرف
میرے لیے بھی کیا کوئی اداس و بے قرار ہے

نہ جس کی شکل ہے کوئی نہ جس کا نام ہے کوئی
اک ایسی شئے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے



شہریار
 

شیزان

لائبریرین
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

خود پشیماں ہوئے اسے شرمندہ نہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے

عمر بھر سچ ہی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے

کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

شہریار
 

کاشفی

محفلین
میری بکھری ہوئی زلفوں کو سجانے والا
ہے کوئی ایسا میرے ناز اُٹھانے والا

میری آنکھوں میں محبت کا عجب جادو ہے
شام ڈھلتے ہیں چلا آئے گا جانے والا

یوں تو چہرے ہیں بہت ساتھ نبھانے والے
کوئی ملتا ہی نہیں دل میں بسانے والا

(رخسار بلرامپوری)
 

کاشفی

محفلین
خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد
آپ آئے تو مگر طوفاں گزر جانے کے بعد

زندگی کے نام پر ہم عمر بھر جیتے رہے
زندگی کو ہم نے پایا بھی تو مر جانے کے بعد

شام ہوتے ہی چراغوں سے تمہاری گفتگو
ہم بہت مصروف ہوجاتے ہیں گھر جانے کے بعد

چاند کا دُکھ بانٹنے نکلے ہیں اب اہلِ وفا
روشنی کا سارا شیرازہ بکھر جانے کے بعد

زخم جو تم نے دیا وہ اس لیئے رکھا ہرا
زندگی میں کیا بچے گا زخم بھر جانے کے بعد

(عظم شاکری)
 

کاشفی

محفلین
خیریت کی چاہ میں سب اپنے بیگانے گئے
شاخ پھل دینے لگی تب پیڑ پہچانے گئے

شہر میں تو رخصتی دہلیز تک محدود ہے
گاؤں میں پکی سڑک تک لوگ پُہچانے گئے

(کلیم قیصر)
 

کاشفی

محفلین
کیا سچ ہے، جھوٹ کیا ہے، ہر شخص جانتا ہے
ایک آدمی کے اندر ایک آدمی چھپا ہے

تاریخ کہہ رہی ہے سب کچھ کہا سُنا ہے
اور ہم یہ سوچتے ہیں یہ شعر کچھ نیا ہے

(کلیم قیصر)
 

شیزان

لائبریرین


ہاں میرے غم تو اٹھا لیتا ہے، غم خوار نہیں
دل پڑوسی ہے مگر میرا طرفدار نہیں

جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
گھر میں دروازہ تو ہے، پیچھے کی دیوار نہیں

آپ کے بعد یہ محسوس ہوا ہے ہم کو
جینا مشکل نہیں، مرنا کوئی دشوار نہیں

کانچ کے گھر ہیں یہاں سب کے، بس اتنا سوچیں
عرض کرتے ہیں فقط آپ سے ، تکرار نہیں


گلزار
 

کاشفی

محفلین
لگاؤ دیر نہ اب دل کو صاف کرنے میں
بھلائی سب کی ہے یاروں معاف کرنے میں

اُن ہی کو قتل کریں گی یہ ساری تلواریں
لگے ہوئے ہیں جو تلوار صاف کرنے میں
(منظر بھوپالی)
 
Top