طارق شاہ
محفلین
جمود
اخترالایمان
تم سے بے رنگیِ ہستی کا گِلہ کرنا تھا
دل پہ انْبار ہے خُوں گشتہ تمنّاؤں کا
آج ٹوُٹے ہُوئے تاروں کا خیال آتا ہے
ایک میلہ ہے پریشان سی اُمّیدوں کا
چند پژمُردہ بہاروں کا خیال آتا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایُوسی میں
پُر محن راہ گُزاروں کا خیال آتا ہے
ساقی و بادہ نہیں، جام و لبِ جُو، بھی نہیں
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں !
اخترالایمان
اخترالایمان
تم سے بے رنگیِ ہستی کا گِلہ کرنا تھا
دل پہ انْبار ہے خُوں گشتہ تمنّاؤں کا
آج ٹوُٹے ہُوئے تاروں کا خیال آتا ہے
ایک میلہ ہے پریشان سی اُمّیدوں کا
چند پژمُردہ بہاروں کا خیال آتا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایُوسی میں
پُر محن راہ گُزاروں کا خیال آتا ہے
ساقی و بادہ نہیں، جام و لبِ جُو، بھی نہیں
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں !
اخترالایمان