طارق شاہ

محفلین

یہ بھی اِک اعجاز ہے اے پیرِ مےخانہ تِرا
بزم میں، بے پاؤں کے چلتا ہے پیمانہ تِرا

ہم بَلا نوشوں کی ہمّت کو تُو اے ساقی نہ پُوچھ
نشّہ میں، سر پر اُٹھا لیتے ہیں میخانہ تِرا

بے خبر ہونے پہ بھی، ہے سارے عالم کی خبر !
زاہدِ ہُشیار سے، اچھّا ہے مستانہ تِرا

یہ مِلے قِسمت سے تو، اِس کے سِوا کیا چاہئے
تُو ہو ساقی، مےکدہ ہو، اور مستانہ تِرا

ساقیا جاری رہے، یُوں ہی سبیلِ مے کشی
تا ابد، یونہی رہے آباد میخانہ تِرا

تیرا سودائے محبّت، مول لے کِس کی مجال
سُنتے ہیں ہم، جان و دِل ہوتا ہے بیعانہ تِرا

ایک دو ساغر میں منہ تکتا ہے کیا، پیرِ مُغاں
بس چلے تو، دِل میں رکھ لے جائیں میخانہ تِرا

جس کو دیکھا، تُجھ پہ مرنے کے لئے تیار ہے
میں ہی کیا، اے شمع رُو! عالم ہے پروانہ تِرا

پہلے بیدم کی طرح کوئی گَریباں چاک ہو
شوق سے پھرجلوہ دیکھے بے حِجابانہ تِرا

بیدم شاہ وارثی
 

کاشفی

محفلین
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

(جوش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
پھرا ہے شیخ یہ کہتا کہ میں دنیا سے منہ موڑا
الہٰی اس نے اب داڑھی سوا کس چیز کو چھوڑا

بہت بیجا ہے رہنا سرکشی سے بزمِ ہستی میں
کہ مثلِ شمع رشتہ عمر کا ہر آن ہے تھوڑا
(مرزا رفیع سودا)
 
کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
غالبؔ

اور محمد فرقان صاحب کی نذر:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
غالبؔ
 

کاشفی

محفلین
نہ غرض کُفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
مدعا ساقی سے اپنے ہمیں اور جام سے کام

ہے مبرّا یہ زباں کہنے سے اب رام رحیم
جن نے پایا ہے نشاں اُس کو نہیں نام سے کام
(مرزا رفیع سودا)
 

کاشفی

محفلین
یہ بزم اور یہ آج کا پڑھنا ہے یادگار
رعشہ ہے دست و پا میں لرزتا ہے جسمِ زار

وہ یوں پڑھے جسے نہ ہو طاقت کلام کی
تائید ہے حسین علیہ السلام کی

(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
یارب بحق احمد و زہرا و مجتبیٰ
دکھلا دے مجھ کو روضہء سلطانِ کربلا

دم لب پہ ہے زیارت مولٰی نصیب ہو
بیمارِ غم کو قربِ مسیحا نصیب ہو

(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
مجھ کو کہتا ہے صنم تجھ کو بھی اب بھاگ لگے
آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے تجھے آگ لگے

بوسہ کے واسطے چمٹا تو لگا کہنے مجھے
بس کہیں دور بھی ہو، منہ کو ترے آگ لگے

(سید محمد میر سوز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
دیکھتے ہی اسے کل میرے یہ اوسان گئے
اپنے بیگانے وہاں جتنے تھے سب جان گئے

اپنے کے ہوتے بھلا غیر کو صدقہ تو نہ کر
ہم بھی جی رکھتے ہیں پیارے ترے قربان گئے

(سید محمد میر سوز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
 
Top