جس کی فطرت ہو عیب شر سے مَملُو
صُحبت سے وہ اچھوں کی نہ ہوگا خُوش خُو
رہتی ہے اگرچہ رات دن پانی میں
جاتی نہیں مچھلی کے بدن سے بد بو
 
جو صاحبِ علم وفضل کہلاتے ہیں
ہر جراتِ بے جا پہ وہ پچھتاتے ہیں
جو اہل نہ ہوں ،وہ مانگتے ہیں منصب
منصب کے جو اہل ہوں ،وہ کتراتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے

زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے پر التجا نہ کرے
 
Top