طارق شاہ

محفلین
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ، وہ تھا
ہنس کے جینے کا اگر تھا، تو بہانہ وہ تھا

اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یوں بھی رہا !
میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا

ناکامِ تمنّا دل، اِس سوچ میں رہتا ہے !
یُوں ہوتا تو کیا ہوتا، یُوں ہوتا تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت
 

طارق شاہ

محفلین
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دِکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے

اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھیے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے

جاں نثار اختر
 

طارق شاہ

محفلین
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب شاخ کوئی، ہاتھ لگاتے ہی چمن میں !
شرمائے، لچک جائے تو لگتا ھے کہ تم ہو

جاں نثار اختر
 

طارق شاہ

محفلین
صندل سے مہکتی ہوئی پرکیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندّی کوئی بل کھائے تو لگتا ھے کہ تم ہو

جاں نثار اختر
 

طارق شاہ

محفلین
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نِشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اُتر جائیں گے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
ہمّتِ اِلتجا نہیں باقی
ضبْط کا حوصلہ نہیں باقی

اِک تِری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں باقی

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
ویراں ہے میکدہ، خُم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دن بہار کے

دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دِلفریب ہیں غم روزگار کے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
یہ اشارہ ہم سے ہے اُن کی نِگاہِ ناز کا
دیکھ لو تیرِ قضا ہوتا ہے اِس انداز کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُرمہ ہوجاتا ہے جَل کر آتشِ سودا سے یار
دیکھنے والا تِری چشمِ فسُوں پرداز کا
خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
حیرت آنکھوں کو ہے نظّارے میں اُس محبوب کے
یہ نہیں کھُلتا کہ دِل کشتہ ہے کِس انداز کا

اے زباں کیجو نہ شرحِ حالتِ دِل کا خیال
مُنکشف ہونا نہیں بہتر ہے مخْفی راز کا
خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
کاٹ کر پرمُطمئن صیّاد بے پروَا نہ ہو
رُوح بُلبُل کی، اِرادہ رکھتی ہے پرواز کا
خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
محبّت میں نہ تھی کچھ قیس سے کم حالتِ لیلیٰ
کہ وہ بےتاب تھا صحرا میں، یہ بے چین تھی گھر میں

سلیماں کوکب آفندی اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ہمارے چشم و دل دونوں میں اُن کی ہیں گزُرگاہیں
کبھی رہتے ہیں اِس گھر میں، کبھی رہتے ہیں اِس گھر میں

سلیماں کوکب آفندی اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
زبان سے اب تو کہتے ہو، تمہارا ہُوں تمہارا ہُوں
تمہارا حال ہی کیا ہے، بدل جاتے ہو دم بھر میں

سلیماں کوکب آفندی اکبرآبادی
 
Top